پی ایل او اور حماس کا مشترکہ حکومت سازی پر اتفاق

ایڈیٹوریل  جمعـء 25 اپريل 2014
توقع کی جا رہی ہے کہ آیندہ چار پانچ ہفتوں میں دونوں تنظیموں کے اتفاق رائے پر مبنی متحدہ حکومت قائم ہوجائے گی. فوٹو:فائل

توقع کی جا رہی ہے کہ آیندہ چار پانچ ہفتوں میں دونوں تنظیموں کے اتفاق رائے پر مبنی متحدہ حکومت قائم ہوجائے گی. فوٹو:فائل

سالہا سال سے صہیونی عصبیت اور خون آشام دشمنی کے شکار فلسطینیوں کی دو انقلابی جماعتیں‘ جو دونوں ہی اپنے وطن کی آزادی کے لیے جانوں کی قربانیاں دے رہی ہیں مگر داخلی تضادات کے باعث آپس میں مخاصمت کا شکار رہی ہیں جس کا بھرپور فائدہ ان کا ازلی دشمن اسرائیل حاصل کر رہا ہے۔ اب تازہ خبر ملی ہے کہ ان دونوں فلسطینی جماعتوں یعنی تحریک آزادی فلسطین (پی ایل او) اور ڈائریکٹ ایکشن کی حامی جماعت حماس نے پہلی مرتبہ باہمی اشتراک سے حکومت کی تشکیل پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ پی ایل او سے تعلق رکھنے والے فلسطین کے صدر محمود عباس اور غزہ میں اپنی اساس رکھنے والے گروپ حماس نے یکجہتی کا معاہدہ کر لیا ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ آیندہ چار پانچ ہفتوں میں دونوں تنظیموں کے اتفاق رائے پر مبنی متحدہ حکومت قائم ہوجائے گی۔ واضح رہے کہ دونوں تنظیموں کے باہمی اختلافات کے خاتمے کی کوششیں کافی عرصے سے جاری تھیں جن میں کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ حماس سے تعلق رکھنے والے رہنما اسماعیل حانیہ نے تالیوں کی گونج میں اس خوشخبری کا اعلان کیا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ قومی انتخابات چھ مہینے بعد ہو جائیں گے۔ دریں اثناء اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے دفتر سے جو بیان جاری ہوا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ محمود عباس نے حماس کو چنا ہے امن کو نہیں چنا اور حماس امن کی خواہاں نہیں ہے۔ واضح رہے اسرائیل حماس کو دہشت گرد تنظیم گردانتا ہے اور اس کے تتبع میں امریکا اور یورپی یونین کا بھی حماس کے بارے میں یہی خیال ہے۔

اس جانب سے بھی اسی قسم کا ردعمل آیا ہے کہ محمود عباس نے حماس سے اتحاد کر کے امن کو مسترد کر دیا ہے۔ فلسطینیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف یکجان ہونے کے بجائے داخلی اختلافات میں الجھے رہے تو ظاہر ہے ایسی صورت میں ایک خطرناک دشمن کا کس طرح مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اب اگرچہ دونوں فلسطین دھڑوں میں اتفاق رائے عمل میں آ گیا ہے اور وہ متحدہ حکومت سازی پر تیار ہو گئے ہیں لیکن چونکہ ان کی آپس میں صلح کو اسرائیل اور مغربی طاقتیں منفی انداز سے دیکھ رہی ہیں لہٰذا توقع کی جانی چاہیے کہ ان میں پھوٹ ڈالوالے کی صہیونی کوششوں میں مزید تیزی دیکھنے میں آئے گی اور یہ ایسا مرحلہ ہو گا جب دونوں دھڑوں کو باہمی یکجہتی کی اور زیادہ شدت سے ضرورت ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔