مصنوعی زندگی کی جانب انقلابی پیش رفت

عبدالریحان  جمعرات 24 اپريل 2014
سائنس دانوں نے  خمیر کا کروموسوم تخلیق کرلیا۔  فوٹو : فائل

سائنس دانوں نے خمیر کا کروموسوم تخلیق کرلیا۔ فوٹو : فائل

کرۂ ارض کے علاوہ دیگر سیاروں پر زندگی کی تلاش کے ساتھ ساتھ سائنس داں مصنوعی زندگی کو ممکن بنانے کی بھی سعی کررہے ہیں۔

ماہرین تجربہ گاہوں میں بیکٹیریا تیار کر چکے تھے۔ مصنوعی جان داروں کی ’ تیاری‘ کی سمت میں انقلابی پیش کرتے ہوئے سائنس دانوں نے Eukaryote نامی یک خلوی جان دار کا کارآمد (functioning) کروموسوم تخلیق کرلیا ہے۔ یہ یک خلوی نامیہ خمیر بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ کام یابی اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ اس سے قبل بیکٹیریا جیسے یک خلوی جان دار ہی بنائے جاسکے تھے جن کے خلیے مرکزے یا نیوکلیئس سے عاری ہوتے ہیں، تاہم Eukaryote  کا خلیہ مرکزے کا حامل ہوتا ہے۔

کروموسومز دراصل ڈی این اے پر ، اور ڈی این اے جینز پر مشتمل ہوتا ہے۔ جینز کو کسی بھی جان دار کی ’ کتابِ حیات‘ کہا جاتا ہے جس میں اس کی پوری زندگی کی روداد تحریر ہوتی ہے۔

سائنس دانوں کی اس کام یابی نے ’’ مصنوعی حیاتیات ‘‘ (synthetic biology) کی حدود کو بیکٹیریا اور وائرسوں سے بھی آگے وسعت دے دی ہے۔ جینیاتی انجنیئرنگ کے برعکس جو جینز کی ایک نامیاتی جسم سے دوسرے نامیے میں منتقلی سے متعلق ہے، مصنوعی حیاتیات کے دائرے میں نیا جینیاتی مادّہ ڈیزائن اور پھر تخلیق کرنا شامل ہے۔

یہ کام یابی نیویارک یونی ورسٹی کے لینگون میڈیکل سینٹر کے محققین نے حاصل کی ہے۔ ریسرچ ٹیم نے اس منصوبے پر کام کا آغاز سات برس پہلے کیا تھا۔ اس عرصے کے دوران سائنس دانوں نے ڈی این اے کے 273871  ٹکڑوں کو ایک ساتھ جوڑا۔ اس عمل کے دوران انھوں نے ڈی این اے کے ان حصوں کو حذف کردیا جو افزائش اور نمو کے لیے غیرضروری تھے۔ اس پروجیکٹ کے ڈائریکٹر اور تحقیقی ٹیم کے رکن پروفیسر ڈاکٹر بوئکے کہتے ہیں کہ جینوم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا عمل غیرمتوقع نتائج بھی دے سکتا ہے، اور ذرا سی غلطی سے خلیہ مر سکتا ہے۔ مگر ڈی این اے کوڈ میں 50000 تبدیلیوں کے باوجود ہمارا خلیہ زندہ ہے۔ یہ انتہائی اہم بات ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا تخلیق کردہ کروموسومز ’ سخت جان‘ ہے اور یہ خمیر کو نئی خصوصیات دے سکتا ہے۔ ‘‘

اس پروجیکٹ میں مذکورہ ادارے کے چھے انڈرگریجویٹ طالب علم بھی شامل تھے جنھوں نے مصنوعی ڈی این اے کے انتہائی مختصر حصوں کو جوڑ کر 750 سے 1000 اکائیوں پر مشتمل لمبائیوں کی شکل دی جن پر ماہرین نے تجربہ کیا۔ ریسرچ ٹیم کا کہنا ہے کہ مصنوعی خمیر کو اس سطح پر بایوفیول کی تیاری میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔  سائنس دانوں کو امید ہے کہ اس کام یابی سے کثیرخلوی نامیاتی اجسام کے کروموسومز کی تخلیق میں مدد ملے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔