دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھلا

عابد محمود عزام  جمعـء 25 اپريل 2014

انسان ترقی کی منازل طے کرتا ہوا اس مقام تک جا پہنچا ہے، ماضی میں جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انسان کا یوں مسلسل ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے چلے جانا اس کے غوروفکر اور تدبر کی واضح دلیل ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ غوروفکر اور علوم و فنون کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی بہت سے لوگ جہالت پر مبنی اقدامات کی بدولت تنزلی کی گہری گھاٹیوں میں گرتے جارہے ہیں اور جعلی عاملوں کے ہاتھوں استعمال ہوکر بلاسوچے سمجھے جان، عزت و آبرو اور مال برباد کرنے میں مشغول ہیں۔

آئے روز ملک میں جعلی عاملوں اور پیروں کے حوالے سے ایسے ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں، جنھیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، بلکہ ایسے واقعات کی صداقت پر یقین ہی نہیں آتا، کیونکہ کسی بھی عقل مند انسان سے ایسے گھنائونے افعال کا صادر ہونا ناممکن معلوم ہوتا ہے، لیکن کیا کیا جائے،کسی انسان سے جن احمکانہ حرکتوں کے صدور کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، جعلی عاملوں کی ’’برکت‘‘ سے وہ سب کچھ ہورہا ہے۔

گزشتہ دنوں مری میں ماموں کے ہاتھوں دو بھانجوں کے لرزہ خیز قتل کے بعد ملک بھر میں جعلی عامل اور جعلی پیر موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ مبینہ طور پر ظالم ماموں نے معصوم بھانجوں کو ایک ’’جاہل عامل‘‘ کے کہنے پر اپنی مراد پانے کے لیے سفاکیت کے ساتھ ذبح کیا، جب کہ اس واقعہ سے ایک روز قبل ہی ملتان میں بھی ایک نوجوان جعلی اور جاہل پیر کے ’’فرمان ‘‘پر عمل کرتے ہوئے اپنی جان گنوا بیٹھا تھا۔ کسی جعلی پیر نے نوجوان کو بتایا کہ ان کے گھر کے نیچے خزانہ دفن ہے۔ نوجوان اس ’’مدفون خزانے‘‘ کو نکالنے کے لیے تقریباً 30 فٹ لمبی اور ٹیڑھی میڑھی تنگ سرنگ کھود کر اس میں خزانہ ڈھونڈنے جا گھسا۔

اس نوجوان کو اس سرنگ سے خزانہ تو نہ ملا، لیکن موت کا پروانہ ضرور مل گیا۔ اسی طرح ماہ گزشتہ کے آخر میں بھی میانوالی میں جعلی عامل کی کرتوت سامنے آئی تھی۔ جعلی عامل نے اپنے بے اولاد مرید کو یہ ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ کسی بچی کو قتل کرے گا تو اس کے اولاد ہوگی، جس پر ظالم و سفاک مرید نے جاہل پیر کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے ہی پڑوسی کی ایک چار سالہ بچی کو ذبح کردیا تھا۔ یہ تو صرف تین واقعات پیش کیے گئے ہیں، ورنہ پورے ملک کا سروے کرنے سے تو سالانہ اس قسم کے سیکڑوں واقعات سامنے آسکتے ہیں۔

ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں اس قسم کے ’’مذہب فروش‘‘ اپنا دھندا چلانے کے لیے عوام کو ’’الو‘‘ بنانے میں مشغول ہیں۔ متعدد بار جعلی عاملوں  کی جعل سازی سامنے آجانے کے بعد بھی عوام کی بڑی تعداد ان دھوکا بازوں کی’’ دکانوں‘‘ کو چارچاند لگانے کا سبب بن رہی ہے۔ زیادہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان دھوکا بازوں کے ہاتھوں صرف کم پڑھے لکھے یا جاہل افراد ہی استعمال نہیں ہوتے، بلکہ اچھے خاصے تعلیم یافتہ افراد بھی بڑی تعداد میں ان دھوکے بازوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں ، لیکن ان کے آستانے آباد کرنے والوں میں خواتین پیش پیش ہوتی ہیں۔ دھوکا باز عاملین چٹکی بجاتے میں خواتین کے مسائل کو حل کرنے کا جھانسہ دے کر ان سے بھاری رقوم بٹورتے ہیںاور سادہ لوح خواتین ان کی باتوں میں آکرمسائل کے حل کے لالچ میں اپنی جمع پونجی سے محرومی سمیت عزت بھی گنوا بیٹھتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہر انسان کو مختلف قسم کے پریشان کن عوارض پیش آتے رہتے ہیں اور انسان کا ان عوارض سے پریشان ہونا ایک فطری بات ہے، لیکن ہر پریشانی سے نکلنے کا بہترین حل بہتر پلاننگ ہوتا ہے۔ معاشرتی، معاشی و سماجی مسائل تو ہر معاشرے میں ہوتے ہی ہیں، ایسے مسائل تب ہی حل ہوسکتے ہیں جب انھیں طریقے کے مطابق حل کیا جائے۔ اگر کسی کو نوکری نہیں مل رہی، کوئی اچھا رشتہ نہیں مل رہا، کاروبار نہیں چل رہا، گھریلو ناچاقی ہے، گھر میںبیماری ہے اور اسی قسم کا کوئی مسئلہ ہے تو ان مسائل کے اسباب پر غور کرنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ کسی کو نوکری اس لیے نہ مل رہی ہو کہ اس کمپیٹیشن کے دور میں وہ نوکری کے معیار پر پورا ہی نہ اترتا ہو۔ ممکن ہے کاروبار اس لیے نہ چل رہا ہو کہ کاروبار چلانے والے کو کاروبار کا صحیح طریقہ اور تجربہ ہی حاصل نہ ہو۔ بیٹی کے رشتے میں رکاوٹ اس لیے بھی ہوسکتی ہے کہ اس کی عمر زیادہ ہوگئی ہو اور زیادہ عمر میں لڑکیوں کے رشتے ویسے ہی کم آتے ہیں۔

گھر میں ناچاقی فریقین میں سے کسی کے مزاج کی بدولت بھی ہوسکتی ہے۔ طویل بیماری اس لیے ہو کہ ابھی تک کسی مستند ڈاکٹر سے علاج ہی نہ کروایا ہو یا ڈاکٹر مرض کی تشخیص ہی نہ کرپایا ہو۔ اس قسم کے مسائل کا عاملوں اور پیروں سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ حقائق کو نظرانداز کر کے ایسے مسائل کا حل عاملوں  کے پاس جاکر ڈھونڈنا سراسر عقل کے منافی ہے۔ اسی طرح بہت سے لوگوں کو نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے، جنھیں کسی سائیکاٹرسٹ، سائیکالوجسٹ کی ضروت ہوتی ہے، لیکن لوگ ایسے مسائل کا حل بھی عاملوں اور پیروں کے پاس جاکر ڈھونڈتے ہیں۔ کچھ لوگ محنت کیے بغیر عاملوں کے ذریعے شاٹ کٹ طریقے سے امیر بننا چاہتے ہیں، حالانکہ اگراس طرح راتوں رات امیر بننا ممکن ہوتا تو دوسروں کو امیر بنانے والا یہ عامل یوں آستانہ بنا کر مکھیاں نہ مارتا۔یہ صرف اورصرف عوام میں شعور اور فہم کی کمی ہے جو ہر بات کا سرا عاملوں اور پیروں کے ہاتھ میں پکڑا دیا جاتا ہے۔

معاملہ یہ ہے کہ مسائل اور پریشانیوں سے دوچار ہوجانے کے بعد لوگ اتنے بد حواس ہو جاتے ہیں کہ انھیں جہاں بھی امید کی تھوڑی سی کرن دکھائی دیتی ہے، اسی جانب چل پڑتے ہیں۔جب کہ عامل حضرات لوگوں کی نفسیاتی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ جعلی عامل وجعلی پیر لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے بلند و بانگ دعوے کرتے ہوئے خود کو روحانی اسکالر، روحانی ڈاکٹر اور پیر ظاہر کرتے ہیں۔ اپنی ہنر مندی، قابلیت کا ایسا نقشہ کھینچتے ہیں کہ مجبور لوگ ان سے مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، ان کے دعوئوں کو سن کر مسائل کے گرداب میں پھنسے لوگ یہی خیال کرتے ہیں کہ ہماری پریشانی کا حل یقینی طور پر ان کے پاس ہے۔ یہ جعلی عامل اور جعلی پیر اپنی مہارت کا پروپیگنڈا نہایت تکنیک کے ساتھ کرتے ہیں، لوگوں کو ورغلانے کے لیے وال چاکنگ، بینرز، پمفلٹ اور اسٹیکرز کے علاوہ اب یہ اپنے کاروبار کی تشہیر کے لیے انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا بھی استعمال کرنے لگے ہیں۔

زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اس قسم کے دھوکا بازوں کی تعداد میں بھی بے پناہ ترقی ہو رہی ہے، جو معاشرے کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ دنیا کے تمام مہذب اور تعلیم یافتہ ممالک اور معاشروں میں اس قسم کے گھناؤنے کاروبار پر مکمل طور پر پابند ی عاید ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ان لوگوں کا کاروبار عروج پر ہے ، جو عوام کو دھوکا دے کر نہ صرف انھیں لوٹ رہے ہیں، بلکہ موت سے بھی ہمکنار کر رہے ہیں۔ معاشرے میں ایسے رستے ناسوروں کی صفائی کی ضرورت ہے۔ تمام صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ جعلی عاملوں پر پابندی کی سخت قانون سازی کریں، تاکہ آیندہ کوئی جاہل شخص کسی جعلی عامل کے حکم پر کسی ماں کی گود نہ اجاڑ سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔