نظم مجھے لکھتی ہے!…

رفیع اللہ میاں  جمعـء 25 اپريل 2014

عنوان پر مت جائیے، یہ کالم نثری نظم کے جھگڑے پر مشتمل ہے۔ عنوان جدید تصورات کی حامل کسی نثری نظم کی طرف اشارہ کرتا محسوس ہوتا ہے تاہم معاملہ یہ ہے کہ گزشتہ تین عشروں سے ہم نثری نظم کے ذکر سے زیادہ اس کا واویلا سنتے آئے ہیں۔

اس صنف کی مخالفت اس لیے بہت آسان سمجھی گئی کیوں کہ اس کے ہونے کو سہل پسندی سے تعبیر کیا گیا۔ یعنی عروض کی مشقت سے فرار۔ دوسرا یہ کہ اس کے نام ہی میں تضادِ عین کا یہ کیا طرفہ تماشا ہے؛ یا تو نثر ہے یا نظم‘ نثری نظم بھلا کیا شے ہے۔ دونوں الزامات بظاہر مضبوط نظر آئے اس لیے ہاں میں ہاں ملانے والوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی گئی مگر نثری نظم کا وجود برقرار رہا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی نظم کی یہ قسم کسی سہل پسندی کے نتیجے کے طور پر ظہور پذیر ہوئی؟ دراصل نثری نظم کی طغیانیوں کے آگے پسپا ہوکر یہی آسان لگتا ہے کہ اس پر سہل پسندی کی تہمت لگا دی جائے۔ جی ہاں، آپ اس قسم کی نظم پڑھیں؛ آپ کو لگے گا کہ ایک منہ زور دریا ہے جو بہتا چلاجا رہا ہے اور اس کے آگے بند نہیں باندھا جاسکتا۔ دماغ کے پردے پر اترنے والے اس قسم کے طاقت ور خیالات کو غزلایا نہیں جاسکتا‘ حتیٰ کہ پابند یا آزاد نظم بھی اس میں موجود کائنات کے لیے کم پڑجاتی ہے۔ سو، پُرزور خیالات، نت نئی تراکیب اور بیان کے نئے زاویوں اور عجیب و غریب استعاروں کا بوجھ اٹھانے کے لیے نثری نظم نے جنم لیا۔ یعنی عروضی نظم جل کر راکھ ہوئی تو اس راکھ سے غیرعروضی نظم کے ققنس(خیالی پرندہ)  نے جنم لیا۔ نظم تو بہرحال یہ ہے ہی، اس میں صرف عروض نہیں ہیں۔

اس ضمن میں جو بہت اچھی غیر عروضی نظمیں لکھی جارہی ہیں، ان کے خالق وہ ہیں جنھیں غزل اور پابند نظموں پر بھی عبور حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظموں کے اس حیرت انگیز تجربے سے نابلد شعرائے غزل کو ان نظموں کے وفور اور ان میں موجود ناممکنات کو ممکنات کے دائرے میں لانے کی معجزبیانی اور شعلہ فشانی نے گویا دم بخود کیا ہوا ہے۔ جب یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ غیر عروضی نظم تو مکمل طور پر ایک نثر کی شکل ہے، اس میں ردھم کہاں، اس میں غنائیت کہاں؟ اس کے لکھنے والوں کو شاعری کا اتا پتا نہیں، عروض کی سخت کوشی سے جان چھڑانے کا آسان نسخہ ہے یہ‘ تو اس کا جواب بہترین غزل کہنے والے ان شعرا نے دیا جو نہ صرف ردھم کو اپنے قدموں کے ساتھ باندھے چلتے ہیں بلکہ غنائیت بانٹتے ہوئے اپنے سماج کے گہرے دکھ کے ساتھ جڑ کر نہ صرف ان کے دکھ کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ حالات کی بدصورتی پر تیشہ بھی چلاتے ہیں۔

یاروں نے اصطلاحات کا جھگڑا بھی کھڑا کیا کہ لفظ نثر کے ساتھ نظم کا جوڑ کتنا ’بے جوڑ‘ ہے۔ کنفیوژن ایک ایسی خامی ہے جو ہماری اکثریت کا ایک ذہنی رویہ بن چکا ہے۔ ہم سوچتے کچھ اور ہیں لیکن زبان سے کچھ اوراظہار کرتے ہیں۔ یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ معنی اورلفظ کے رشتے کی ڈور ہمارے ہاتھوں میں آنہیں پاتی‘ اور یہ عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ ایک سلسلے اور ایک لڑی میں پرونے کے عمل سے نا آشنائی نے بہت ساری مشکلات کھڑی کی ہیں۔ غور کریں کہ شعر و ادب میں ہم مغرب ہی کی طرف دیکھا کرتے ہیں اور بہت کچھ لے کر اپنا کام ٹھسے سے چلارہے ہیں۔

جب ہم نے ’آزاد نظم‘ کی اصطلاح ’فری ورس‘ سے بذریعہ ترجمہ کشید کرکے قبول کرلی تو ’پروز پوئٹری‘ کے ترجمے ’نثری شاعری‘ یا ’پروز پوئم‘ کے ترجمے ’نثری نظم‘ پر اعتراض کا بنیادی نکتہ کیا ہے؟ لفظ نظم میں تنظیم ضرور ہے لیکن اس سے عروض کا اشارہ کس قرینے سے نکالا جائے؛ نظم کا مطلب کہیں سے بھی عروض نہیں بنتا۔ نظم کا ایک مطلب ہے ’موتیوں کو تاگے میں پرونا‘ یہاں بھی خیالات کو ایک ایسے پیرائے میں الفاظ کا روپ دینا ہوتا ہے کہ ان میں موتیوں کے ہار جیسی دل کشی پیدا ہوجائے۔ ایسے نگینے بھی ہیں جو مل کر جگمگائیں تو سراٹھاتے شعلے محسوس ہوں۔ تنظیم کا مطلب بلاشبہ اوزان نہیں ہوسکتا لیکن اس کا مشتق ’نظم‘ اپنے معنوی پس منظر میں اس تنظیم کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ہمیں شاعری میں احساسِ لطیف اور لفظیات کی سطح پرنظر آتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ نظم کی کسی بھی ذیلی صنف کو صرف نظم کیوں نہ کہا جائے؟ تو بلاشبہ یہ نظری مسئلہ ہے۔ لیکن ’نثری نظم‘ کی اصطلاح کو نظری غلطی کیسے قرار دیا جائے؟ مندرجہ بالا گفتگو کے تناظر میں تو ایسا کوئی قرینہ نہیں ہے۔ شعر کی اپنی ایک زبان ہے جو بے حد حساس ہوتی ہے۔ ادب پڑھنے والے قاری کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ وہ شاعری پڑھ رہا ہے یا نثر؛ زبان خود اسے بتادیتی ہے کہ میں نثر ہوں یا نظم۔ روزمرہ گفتگو میں ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے‘ تم تو گفتگو میں بھی شاعری کرتے ہو۔

یہ زبان ہی ہے جو پہلے شخص کو چونکاکر یہ تمیز کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ نثر سے کچھ سوا ہے لیکن نظری مسئلہ ہونے کے باوجود اس حقیقت سے فرار ممکن نہیں ہے کہ ہر چیز کی درجہ بندی کرنا انسانی ضرورت اور مجبوری ہے اوریہ اس کی نفسیات کا حصہ ہے۔ اس لیے نظم کہتے یا لکھتے وقت شاعر کو ایک لمحے کے لیے ہی سہی، درجہ بندی کا خیال ضرور آتا ہے یعنی کلاسیفکیشن سب سے پہلے شاعر خود اپنے شعور میں کرتا ہے۔ یہ ہمارا تنقیدی شعور ہوتا ہے جو ہمیں بہت واضح ساخت کی تمیز سے آشنا کرتا ہے اور ہم اسے قبول بھی کرتے ہیں؛ مثلاً غزل اورنظم۔ یہ کلاسیفکیشن کوئی معیوب بات نہیں ہے لیکن نثری نظم کے حوالے سے جو مزاحمت اٹھی، اس نے شاعروں کو رد عمل پر مجبور کیا۔

شاعر خالص نظم لکھتا ہے، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ وہ شاعری کی زبان استعمال کررہا ہے‘ یہی اس کے لیے کافی ہے اور اسے نظری مسائل میں الجھنے کی ضرورت نہیں لیکن اصطلاحات اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں، یہ مختلف اشکال کی جو ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دیتی ہیں، کی وضاحت کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ ایلیٹ نے انیس سو انسٹھ میں ایک انٹرویو میں کہا: ’میری شاعری میرے ممتاز امریکی ہم عصروں سے کہیں زیادہ مماثل ہے‘ بہ نسبت وہ جو برطانیہ میں لکھا گیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگرمیں برطانیہ میں پیدا ہوتا تو میری شاعری اتنی اچھی نہ ہوتی۔‘ مطلب یہ ہے کہ شاعر کو بہرحال اپنی شاعری کے لب و لہجے‘ اسلوب اور ساخت کا شعور ہوتا ہے۔

نثری نظم نے اپنے بے پناہ امکانات اور ٹھوس پن سے اچھے اچھے مخالفین کے چھکے چھڑا دیے ہیں؛ اس کے خلاف اب لب کشائی آسان نہیں رہی ۔ اس کارواں کو ایسے پاسباں ملے ہیں کہ اس پر شب خون مارنا ممکن نہیں رہا۔ یہ کارواں دشت کو پار کرتا ہے تو اس کے سامنے سنگ لاخ وادیاں سر اٹھائے کھڑی ملتی ہیں۔ جب ان وادیوں سے نکلتا ہے تو آگ کا سمندر تیر کر پار کرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر شاعر کے پاس زاد ِراہ کے طور پر نثری نظم کا حوصلہ اور استعداد نہ ہو تو چند ہی قدم اٹھانے کے بعد اس کی سانسیں اکھڑ جاتی ہیں۔ وہ اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔

میں چند ایسے نام گنواسکتا ہوں جو آج یہ زاد ِراہ لیے‘ پابند نظموں کے ساتھ ساتھ شاندار نثری نظم بھی تخلیق کررہے ہیں۔ ان میں نصیر احمد ناصر، احسن سلیم، دانیال طریر، جمیل الرحمن، فہمیدہ ریاض، ابرار احمد، راجہ اسحق اور فہمیدہ شاہین ایسے شاعر شامل ہیں جو تخیل کی اڑان کو نت نئی‘ ان دیکھی سرزمینوں کا ادراک دے کر اپنے ماحول کو لطف و انبساط کے ساتھ ساتھ پتھروں سے اٹی راہ گزر میں راستہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔