کوئی ہے جو میرے دُکھ سمیٹے ؟؟

نصیرالدین چشتی  پير 5 مئ 2014
آپ یقین کیجئے جتنے دُکھ میں نے برداشت کیے ہیں اگر میری جگہ کوئی پہاڑ بھی ہوتا تو ریزہ ریزہ ہو چکا ہوتا۔ فوٹو فائل

آپ یقین کیجئے جتنے دُکھ میں نے برداشت کیے ہیں اگر میری جگہ کوئی پہاڑ بھی ہوتا تو ریزہ ریزہ ہو چکا ہوتا۔ فوٹو فائل

میں نے اپنی زندگی میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کے نہ ہونے کی وجہ سے اتنے دکھ اُٹھائے ہیں کہ آپ کو بتائوں تو آپ دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں ۔ مثلا پچھلے سال میں نئی گاڑی لینا چاہتا تھا،قیمت پوچھی تو 20 لاکھ تھی میں شوروم پہ پہنچا،جب پیسے گنے تو 27 روپے کم نکلے، میں نے بڑی منتیں کی کہ 27 روپے کم کر دیں لیکن اُنھوں نے میری ایک نہ سنی اور یوں مجھے گاڑی کی بجائے 22 انچ والی بغیر گدی کے سیکنڈ ہینڈ سائیکل لینا پڑی۔

میرے دوست کہتے ہیں کہ گاڑی تم پیسوں کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی غلط فہمی کی وجہ سے نہیں لے سکے کیونکہ تمھاری جیب میں 27 روپے کم نہیں بلکہ تھے ہی 27روپے۔ اب میں اُن سے کیا بحث کروں ،بھلا امیر بندہ غریبوں سے بحث کرتا اچھا تھوڑا ہی لگتا ہے۔میں دکھ شیئر کرنے بیٹھا ہوں اب دیکھیں نامیں نے دو ہزار والا پرائز بانڈ خریدا تھا ،کچھ دن قبل اس کی قرعہ اندازی ہوئی اور میں محض چھوٹے سے فرق سے کروڑ پتی بنتے بنتے رہ گیامیرئے پرائز بانڈ کا نمبر تھا 0092322 اور جو پہلا انعام نکلا اُس کا نمبر تھا 7775367  ہائے ری میری قسمت!!

میری دکھوں بھری کہانی یہیں ختم نہیں ہو جاتی،مجھے تو وہ واقعہ بھی نہیں بھولتا جب ایک معروف ہیروئن نے مجھے محبت بھرئے جذبات سے مغلوب ہو کر ’آئی لو یو‘ کہا تھا،ویسے تو اب وہ شادی کر چکی ہیں مجھے ان کے بارے میں اس قسم کی باتیں نہیں بتانی چاہیئں۔کیا فائدہ کسی کی زندگی خراب کرنے کا،لیکن معزز قارئین آپ تو میرے اپنے ہیں ،بس اتنی سی گذارش ہے کہ یہ بات جس کو بھی بتائیں اُسے تاکید کر دیجئے گا کہ آگے نہ بتائے۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ اُن دنوں میں اور وہ ہیروئن ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے، وہ مجھے پیار سے عامر خان کہا کرتی تھی حالانکہ مجھ میں اور عامر خان میں اچھا خاصا انیس بیس کا فرق ہے،میں نے کبھی ریما کو لفٹ نہیں کرائی،اگرچہ وہ کئی دفعہ کالج کے سامنے سرسوں کے کھیتوں میں مجھے گاگا کر مناتی تھی،لیکن میں بلاوجہ ناراض ہو کر منہ موڑتا رہتا تھا اور وہ گھوم گھوم کر میرئے سامنے ٹھمکے لگایا کرتی تھی،وہ مجھے کہتی تھی کہ تم دنیا کے طاقتور ترین آدمی ہو کہتی تو وہ سچ تھی ۔میں نے اس کے سامنے بُوہڑ کے درخت کو فلائنگ کک بھی لگا کر دکھائی تھی اُسی روز مجھے پہلی دفعہ پتا چلا تھا کہ آیوڈیکس کتنے کی ملتی ہے۔

ایسے میں ایک دن ’وہ‘ پانی والا پستول لیئے کھڑی تھی کہ اس نے مجھ سے انگریزی میں محبت کا اظہار کیا۔ انگریزی مجھے بڑی اچھی لگتی تھی۔ مجھے تو انگریزی میں کوئی گالیاں بھی دے تو میں جھوم اُٹھتا ہوں۔ اس کی بات سن کر میں خوش تو بہت ہوا لیکن چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظاہر کچھ نہیں ہونے دیا اور منہ بنا کر کہا ’’ میں تم سے محبت نہیں کرتا‘‘ میرا خیال تھا کہ وہ میری بات سن کر رو پڑے گی اور میرے پائوں پڑ جائے گی۔ لیکن اُس نے تو ایک عجیب و غریب کام کیا یکدم اُٹھ کھڑی ہوئی۔ دانت پیس کر میری طرف دیکھا اور نشانہ لے کر پانی والی پستول سے میری دائیں آنکھ پر فائر کیا ۔آپ آج بھی میری دائیں آنکھ غور سے دیکھیں تو آپ کو اس میں سے پا نی کے قطرئے ٹپکتے نظر آئیں گے۔میں گھبرا گیا لیکن اس نے میرے زخمی پیر پر زور سے اپنا پیر مارا اور چلا کر بولی میں بھی لعنت بھیجتی ہوں تم پر’’بڑا تیرا سندھی کھوتے ورگا منہ اے‘‘ مجھے اُس کے اس رویے پر غصہ تو بہت آیا لیکن اس سے پہلے کہ میں اُسے کچھ کہتا وہ چلی گئی اور دوبارہ معمرراناکے ساتھ ’’گھونگٹ‘‘ میں ہی نظر آئی۔

میں نے کبھی کسی سے اپنا دکھ بیان نہیں کیا۔ لیکن 25 مارچ میری زندگی کا دن ہی کچھ ایسا ہے کہ میری آنکھیں بھر آئی ہیں،میں بتانا چاہتا ہوں کے میں ٹوٹ چکا ہوں،بکھر گیا ہوں،مجھے آج تک سچا پیار نہیں ملا۔ شمائلہ، عائشہ، روبی، ارم، سونیا، عالیہ، تانیہ، نورین، نوشین، عنبرین، جویریہ ،فائزہ اورسائرہ وغیرہ نے بڑی کوشش کی لیکن شاید سچا پیار میری قسمت میں تھا ہی نہیں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا اس دنیا میں کوئی میرے جیسا دُکھی اور بدقسمت بھی ہو سکتا ہے؟ مجھے اعتراف ہے کہ مجھے اگر سچا پیار ہوا تھا تو صرف سیٹھ برکت کی 40 سالہ لنگڑی بیٹی عالیہ سے،جس کا چہرہ بچپن میں تزاب گرنے سے جُلس چکا تھا۔میں نے اسے تمام تر خامیوں کے باوجود یقین دلایا کہ میں اُسے ہر وقت خوش رکھوں گا،کبھی نہیں رونے دوں گا۔ لیکن میرے تما تر بڑے پن اور انسانیت کے عظیم مظاہرے کے باوجود اُس کے باپ نے جب مجھے 4کروڑ اور ایک ’’پراڈو‘‘ دینے سے انکار کر دیا تو میں سمجھ گیا کہ اس دنیا سے دل لگانا فضول ہے۔ یہاں سب اپنی اپنی دوزخ بھر رہے ہیں نیک انسانوں کا اب یہاں کوئی کام نہیں رہ گیا۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ سیانے ٹھیک کہتے ہیں کہ یہ دنیا مجھ جیسے نیک اور جنتی لوگوں کی وجہ سے چل رہی ہے،لیکن کبھی کسی کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ میں اور میرے جیسے دوسرے پُرنور لوگ کیسی کیسی آزمائشوں اور تکلیفوں سے گزر رہے ہیں۔ لیکن کبھی حرف ِشکایت زباں پر نہیں لاتے۔ آپ یقین کیجئے جتنے دُکھ میں نے برداشت کیے ہیں اگر میری جگہ کوئی پہاڑ بھی ہوتا تو ریزہ ریزہ ہو چکا ہوتا۔مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب صرف 7کروڑ نہ ہونے کی وجہ سے میں ڈیفنس میں دو کنال کا بنگلہ نہ لے سکا ،اور وہ دن بھی یاد ہے جب کترینہ کیف نے مجھے مسڈ کال ماری تھی لیکن میرے پاس اُسے جوابی کال کرنے کیلئے بیلنس نہیں تھا۔

پتا نہیں کیوں مجھے لگتا ہے کہ میں صرف دُکھ اُٹھانے کیلئے ہی اس دنیا میں بھیجا گیا ہوں ،میری چھوٹی چھوٹی خواہشیں بھی پوری نہیں ہو پاتیں۔ مثلا میری ایک چھوٹی سی خواہش ہے کہ بل گیٹس مجھے مائیکروسافٹ کا چیئرمین بنا دے،مجھے تو نہ صرف کمپیوٹر آن کرنا آتا ہے بلکہ میں تو ’’فیس بک‘‘ بھی استعمال کر سکتا ہوں،اور تو اور مجھے تو اب یہ بھی پتا چل گیا ہے کہ اپنے ای میل اکائونٹ کا پاس ورڈ کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے،خیر چھوڑیں جو چیز نصیب میں ہی نہیں اس کا کیا ذکر کرنا،مجھے تو بس اتنا پتا ہے کہ یہاں ٹیلنٹ کی کوئی قدر نہیں جو بندہ منہ سے پیپسی کھول سکتا ہو،کریم والے بسکٹ کے دو حصے کھول کے چھ کے بارہ بسکٹ کر سکتا ہو،پانی کی ٹونٹی کی تیز دھار روکنے کیلئے اس پر ــ’’ٹاکی‘‘ باندھ سکتا ہو، بغیر کنگھی کے اپنی کمر کھجا سکتا ہو،منہ سے طبلہ بجا سکتا ہو،ایک منٹ میں دو درجن آم ’’پولے‘‘ کر سکتا ہو۔اور پھر بھی اسے ٹیلنٹ نہ تسلیم کیا جائے تو بھئی ’’ دُرفٹے منہ‘‘ اس دنیا کے۔

آخر میں قارئین آپ کو بتانا مناسب سمجھوں گا کہ اوپر آپ نے میرے جتنے بھی دکھ بھرے وقعات پڑھے ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تمام فرضی کہانیاں ہیں، یہاں ان کہانیوں کو بیان کرنے کا میرا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑے مسائل سمجھ کر زندگی بھر انہیں کوستے رہتے ہیں جبکہ درحقیقت ان مسائل کی نہ کوئی اہمیت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی وقعت۔ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو ہزاروں تکلیفوں اور آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود بھی اپنی زبان سے ’اف‘ تک نہیں کہتے ۔ لہذا ان چھوٹی چھوٹی پریشانیوں پر کو کھینچنے کے بجائے اگر ہم عقل و فہم کا استعمال کر کے ان کا بروقت حل تلاش کرلیں تو خود بھی خوش رہ سکتے ہیں اور اپنے آپ سے منسوب دوسرے لوگوں کی بھی خوشی کا باعث بن سکتے ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔