خفیہ ایجنسیاں ، میڈیا، عدالتیں

اوریا مقبول جان  بدھ 7 مئ 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

خفیہ ایجنسیوں اور میڈیا کا ایک طویل مدت سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور آج بھی قائم ہے۔ جمہوری نظام کے علمبردار دو بڑے ملک، امریکا اور برطانیہ اپنی خفیہ ایجنسیوں ’’سی آئی اے‘‘ اور’’ ایم آئی سکس‘‘ کے وسیع خفیہ نظام اور سیاست و حکومت پر ان کے اثرات کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب میڈیا چند اخبارات، رسائل چند ریڈیو اور ٹیلی ویژن چینلز تک محدود تھا۔ اس زمانے میں سی آئی اے ابھی وجود میں نہیں آئی تھی، لیکن عوامی رائے عامہ کو امریکی مفاد کے تابع کرنے کے لیے امریکی صدر ٹرومین نے1946میں’’ Central Intelligence Group‘‘ بنایا تھا۔ لیکن اگلے سال ہی یعنی 1947میں امریکا میں(National Security Act) پاس ہوا، جس کے تحت سی آئی اے وجود میں آئی۔

اس ایکٹ کے آرٹیکل102(a)میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو وسیع اختیارات دیے گئے، جن میں رائے عامہ کو ہموار کرنا بھی شامل تھا۔ وائٹ ہائوس نے1954میں سی آئی اے کو نفسیاتی آپریشن کا اختیار دیا گیا۔ یہ آپریشن کا مقصدپراپیگنڈا اور میڈیا کوقومی مفادات کے تابع کرنا تھا۔ ان میں تین اقسام کے پراپیگنڈے شامل تھے۔1) سفید (White) وہ تھا جس کی منظوری وائٹ ہائوس دیتی ا ور ہر طرح کی واضح اور خفیہ اطلاعات اس میں شامل ہوتیں۔2) گرے(Grey)۔ اس پراپیگنڈے میں ’’سی آئی اے‘‘ کو اختیار حاصل تھا کہ اطلاع کا ماخذ نہیں بتایا جائے گا مگراس کا مقصد ان ہاتھوں کو روکنا ہوگا جو امریکی خارجہ پالیسی اور امریکی مفاد کے خلاف ہوں۔ 3)کالا(Black)۔ یہ ایسی اطلاع ہوتی ہے جو بظاہر امریکی حکومت کی پالیسی کے خلاف ہوتی ہے اور امریکی حکومت عوام کے سامنے واضح انکار کر سکتی ہے۔

ایسی اطلاعات عموماً گھڑی ہوئی ہوتی ہیں لیکن جن لوگوں کے سامنے پیش کی جاتی ہیں انھیں یوں لگتا کہ یہ مصدقہ ہیں۔ اس کے لیے دنیا بھر میں اخبار نویسوں کو خریداجاتا ہے اور انھیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔1973میں’’ سی آئی اے‘‘ نے خود واشنگٹن اسٹار نیوز کو یہ اطلاع فراہم کی کہ دنیا بھر میں30امریکی صحافی ایسے ہیں جو دراصل ان کے ملازم ہیں۔ یہ سب کے سب ایک گروپ (Congress for cultural freedom) کے ممبران تھے۔ یہ تمام صحافی اپنے مضامین یا خبریں سی آئی اے کو دکھائے بغیر اخباروں میں شایع ہونے کے لیے نہیں دے سکتے تھے۔

نوے کی دہائی میں جنوبی امریکا میں ایک خاص قسم کی تفریح اور فحش اقدار کے فروغ کے لیے ’’سی آئی اے‘‘ نے ’’Chase brandan‘‘ کے نام سے ایک پراجیکٹ کا آغاز کیا جس کے تحت ہالی ووڈ سے اپنے مخصوص مفادات کے تحت فلموں کی تیاری تھی۔ اس کے تحت بہت سی فلمیں بنائی گئیں جن میں(The sum of all fears)(The Recruit)(Enemy of the state)اور(Bad Company) جیسی فلمیں شامل تھیں ،جنھیں خصوصی طور پر مشہور ٹی وی چینلوں پر بھی چلوایا گیا تا کہ اس پورے علاقے کو معاشرتی طور پر اپنے رنگ میں رنگا جا سکے۔

کیمونسٹوں کے خلاف مضمون لکھوائے گئے۔ خبریں لگوانے اور لوگوں کو کیمونزم سے مخرف کرنے کے لیے’’Operation Mockingbird‘‘کا1951 میں آغاز کیا گیا۔1983میں دنیا بھر میں جمہوریت کے زبردستی نفاذ کے لیے (National Endowment for Democracy) قائم کیا گیا جس کے تحت دنیا بھر کی این جی اوز، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کو فنڈز فراہم کیے گئے۔

1963میں امریکی صدر جان ایف کینڈی کا قتل ہوا۔ انگلیاں سی آئی اے کی طرف اٹھنے لگیں۔ صدر جانسن نے29نومبر1963کی چیف جسٹس ایرل وارن کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا۔ لیکن ’’سی آئی اے‘‘ نے اس کمیشن کو کسی بھی قسم کی معلومات دینے سے انکار کر دیا۔امریکی کانگریس کے دبائو کے باوجود بھی ’’سی آئی اے‘‘ نے اپنے دروازے نہ کھولے۔ کمیشن کی رپورٹ آئی تو سی آئی اے نے اس کے مخالف کتابوں اور مضامین کا ایک طویل سلسلہ شروع کروایا۔ پھر ان کتابوں کے دفاع کے لیے ایک بہت بڑے عملے کو ملازم رکھا۔ صحافیوں کو سرمایہ فراہم کیا جو ان کتابوں پر تبصرے تحریر کرتے تھے۔

برطانیہ کی ایم آئی سکس اور ایم آئی فائیو کی سرگرمیوں کی روداد بھی کچھ اس سے مختلف نہیں۔ بلکہ اس کی تاریخ امریکا سے کہیں زیادہ قدیم ہے، جس میں لارنس عریبیہ جیسے کردار آتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال(Operation Rockingham) ہے۔ اس کے تحت عراق کے تباہ کن ہتھیاروں کے بارے میں گھڑی ہوئی معلومات فراہم کرنا تھا۔ اس کے ذریعے تمام میڈیا، حکومتی اداروں یہاں تک کہ وزیراعظم تک کو گھڑی ہوئی دستاویزت ، ویڈیو فلموں اور دیگر معلومات کے ذریعے قائل کیا گیا کہ عراق کے پاس مہلک ہتھیار ہیں اور وہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔ پورے ملک کے میڈیا میں موجود اس خفیہ ایجنسی کے افراد نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ برطانیہ میں لاکھوں افراد بھی سڑک پر باہر نکلے لیکن پارلیمنٹ کے ارکان یہی یقین کرتے رہے کہ اگر عراق پر حملہ نہ کیا گیا توکل اس کے ہتھیار برطانیہ کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔

اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ خفیہ ایجنسیوں اور میڈیا کا یہ تعلق جسے قومی مفاد کے لیے تریتب دیا جاتا ہے وہ ان دونوں ملکوں کے عدالتی نظام پر بھی اپنا اثرو رسوخ رکھتا ہے۔ ان دونوں ممالک کی حکومتوں اور آزاد عدلیہ نے ان خفیہ ایجنسیوں کے لیے خفیہ عدالتیں(Secret Courts) قائم کر رکھی ہیں برطانیہ میں25اپریل2013کو جسٹس انیڈ سیکیورٹی ایکٹ کے تحت ان عدالتوں کے قیام کی اجازت دی گئی۔ اس کے لیے ایک قانونی طریقہ کار اختیار کیا گیا جس کا نام(Closed Material Procedures) رکھا کیا۔

اس کے مطابق کسی مجرم کے خلاف خفیہ ایجنسی کچھ ایسا مواد عدالت کے سامنے رکھ سکتی ہے، جس کو صرف عدالت یا ایسے وکیل دیکھ سکتے ہیں جن کو کلیرنس مل چکی ہو۔ مجرم کو اپنے خلاف جرائم کی مکمل فہرست بھی پیش نہیں کی جاتی۔ ان عدالتوں کا حال یہ ہے کہ وہاں اب گواہ پیش نہیں ہوتے بلکہ جاسوس پیش ہوتے ہیں۔ امریکا میں تو ایسی عدالتیں 1978سے قائم ہیں جنھیں(Intelligence surveillance Courts) کہتے ہیں۔2009میں ان عدالتوں کے اختیارات میں اتنا اضافہ ہواہے کہ اب اسے متوازی سپریم کورٹ کہا جاتا ہے۔

خفیہ ایجنسیوں، میڈیا اور عدالتوں کا یہ گٹھ جوڑ دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں قومی مفاد کے نام پر پایا جاتا ہے۔ کس کو الیکشن میں جتوانا ہے، کیسے جتوانا ہے، کہاں سے کارپوریٹ کا پیسہ کس سیاسی لیڈر تک تک پہنچانا ہے۔ مفادات کے تحفظ کی بات آئے تو کینڈی اور ڈیانا کو بھی عبرتناک موت سے ہمکنار کرنا ہے۔کہاں جنگ لڑنا ہے، کس سے دوستی کرنا ہے، کس سے دشمنی نبھانا ہے اس کا فیصلہ بھی کرتی ہیں لیکن لگتا ایسا ہے کہ یہ سب جمہوری طور منتخب حکمران کر رہے ہوتے ہیں۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ ایک وسیع مہم ، میڈیا، اندورنی دبائو کے ذریعے ان جمہوری حکمرانوں کے منہ میں اپنے الفاظ ڈالے جاتے ہیں اور یہ ارکان پارلیمنٹ اسے قومی فریضہ سمجھ کر ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ہے اس پوری دنیا پر چھائے ہوئے جمہوری نظام کی حقیقت اور حیثیت۔یہ ہے اس دنیا کا مروجہ سیاسی نظام۔

لیکن اس سب کے باوجود کہ ان تمام ملکوں میں خفیہ ایجنسیاں کو قومی مفاد کے نام پر یہ سب اختیارات حاصل  ہیں۔ ان کے خلاف آوازیں بھی اٹھتی ہیں۔ لیکن کہیں نہیں ہوسکتا کہ سردجنگ کے زمانے میں امریکا میں کوئی صحافی یا میڈیا گروپ یہ تصور بھی کرے کہ وہ روس کے سرمائے یا اشارے پر اخبار نکالے یا ٹیلی ویژن چینل۔ کسی ایسی پالیسی کے خلاف مہم چلائے جس کو اس ملک نے قومی مفاد کے طور پر اپنا لیا ہو۔ دنیا کا وہ آزاد میڈیا جس کا بہت بول بالا ہے سوچ بھی نہیں سکتا کہ اسامہ بن لادن کی زندگی پر کوئی آزادانہ ڈاکو مینٹری ہی بنالے اور اسے مسلسل نشر بھی کرے۔

ایک پروڈیوسر نے ایسی فلم بنانے کی کوشش کی اور اس کا جوحشر ہوا وہ ایک طویل داستان ہے۔دنیا کے بڑے سے بڑے جمہوری ملکوں میں خفیہ ایجنسیاں، میڈیا اور عدلیہ آمنے سامنے نہیں آتیں۔ ایسا وقت صرف  وہیں آتا ہے جہاں لوگوں کو میڈیا کی نئی نئی طاقت کا نشہ چڑھتا ہے۔ وہ اس سے اپنے آپ کو بادشاہ گر، پالیسی ساز اور حکومتیں بنانے گرانے والا سمجھ بیٹھتے ہیں۔ایسے لوگوں کو اپنے اردگرد دیکھ لینا چاہیے۔ تا ریخ پڑھ لینی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔