یہ غدار کہاں سے آ جاتے ہیں

عبدالقادر حسن  ہفتہ 10 مئ 2014
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

مسلمانوں کی حیرت انگیز اور بے مثال حکمرانی کا دور اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ اس کا ذکر کسی مسلمان ملک کی سرزمین پر نہیں اس کی تاریخ کے کسی دور میں ہی آ سکتا ہے۔ اس وقت مسلمانوں کے خوشحال حکمرانوں کی کمی نہیں۔ ان کی خوشحالی اور شاہ خرچیوں کے قصے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ کچھ مسلمان فخر سے اور زیادہ تر شرمندہ ہو کر ان عیاشیوں کے قصے سنتے سناتے ہیں کہ ہوٹل کے کسی بیرے کو اس کی عمر بھر کی آمدنی کے برابر انعام دے دیا۔

اسلامی نظام حکومت کی برکات رفتہ رفتہ مغربی دنیا نے اپنے اندر سمیٹ لی ہیں جس کی وجہ سے یورپ اور کئی مغربی اور ترقی یافتہ ممالک اپنے معاشرتی انصاف اور سماجی ترقی پر فخر کرتے ہیں۔ جو مسلمان ملازمت اور کاروبار کے سلسلے میں ان ملکوں میں مقیم ہیں وہ برملا کہتے ہیں کہ مسلمان کہیں بھی ہوں اسلام یہاں ہے۔ ایک مسلمان حکمران کو کم ازکم جن اوصاف کا حامل ہونا چاہیے وہ کسی مسلمان ملک میں نہیں کسی غیر مسلم ملک میں ہی مل سکتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ایک خاتون وزیر اعظم کو برطرف کر دیا گیا اور ایسی کئی مثالیں ملتی رہتی ہیں جو ان ملکوں کی اعلیٰ سطح پر انصاف اور عدل کی مثالیں ہیں۔

ان غیر مسلمان ملکوں میں انصاف مسلسل جاری ہے۔ نیچے سے اوپر تک انصاف کا یہ سلسلہ چل رہا ہے اور اب یہ اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ اس کے ختم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ یہاں کے آزاد شہریوں کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ کچھ پہلے ہماری باتوں سے متاثر ہو کر برطانیہ میں مقیم چند نوجوان پاکستان آ گئے۔ یہاں انھوں نے مکان خرید لیا اور زندگی کے منصوبے بنانے لگے کہ اب اپنے وطن میں ہی محنت کریں گے۔

ایک دن پتہ چلا کہ وہ واپس جا رہے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ یہاں کی رشوت ستانی اور عام بدانتظامی سے بھاگ رہے ہیں۔ یہ تو جو ہے وہ کس پاکستانی کو معلوم نہیں۔ اب ایک خبر آئی ہے کہ حکومت سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگر ان ڈالروں میں بھی کوئی بڑا ملوث نہ ہوا تو عین ممکن ہے ہمارا اتنا غیرملکی قرضہ کم ہو جائے۔ سوئس بینکوں کو خوب معلوم ہوتا ہے کہ کون سا سرمایہ جائز کون سا چوری کا ہے۔ اگر آپ میں اتنی جان ہے کہ اپنا حق لے سکیں تو کوئی روکتا نہیں ہے۔

مجھے یاد ہے کہ الجزائر کی تحریک آزادی کامیاب ہوئی اور فرانس نے الجزائر کو آزاد کرنے کا فیصلہ کر لیا تو حکومت فرانس نے غیرملکوں میں پڑے اس الجزائری سرمائے کو لے جانے میں کوئی مزاحمت نہ کی اور مناسب کارروائی کے بعد الجزائر کے نئے حکمران اپنا یہ قومی سرمایہ واپس لے گئے۔ غیرملکی بینکوں میں پڑے اس پاکستانی سرمائے کو ہم واپس لے سکتے ہیں جو دو سو ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اپنی ضرورت کو دیکھ کر ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ یہ پاکستانی سرمایہ کس نے لوٹا اور باہر کے بینکوں میں کیوں رکھا۔ ہم تو صرف یہ پاکستانی ڈالر چاہتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہم کشکول لیے پھرتے ہیں اگر کوئی اس میں کچھ ڈالتا بھی ہے تو نہ جانے کتنی شرطیں منوا کر اور ہماری مجبوری آنکھ جھکا کر یہ سب شرطیں مان لیتی ہے۔

ان دنوں ہماری ایک معروف شخصیت اس کام پر نکلی ہوئی ہے اور جب کہیں سے قرض کی کوئی رقم منظور ہوتی ہے تو اس خوشی میں خبر چھاپی جاتی ہے۔ غور فرمایئے کہ اگر کسی نے ٹیکس بچانے کے لیے اپنے بیٹے کو چند کروڑ ڈالر قرض د ے دیا ہے تو وہ کس منہ سے کسی سے قرض مانگ سکتا ہے لیکن یہ سب چلتا ہے اور یہ جو دو سو ہزار ڈالر کے مالک ہیں وہ سب زندہ سلامت ہمارے خرچ پر زندگی بسر کر رہے ہیں سینے پر مونگ دلنا شاید اسے ہی کہتے ہیں مگر فی الحال تو جتنے ڈالر بھی مل جائیں اور اگر وہ قرض نہ ہوں تو سبحان اللہ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم اگر اپنا حساب ہی درست کر دیں تو ہمیں کس چیز کی کمی ہے۔ کھانے کو اناج ہے۔ ہم دنیا کا بہترین کپڑا بناتے ہیں اور شریفانہ زندگی کے تمام وسائل ہمیں میسر ہیں۔ سوائے دیانت داری اور عزت داری کے۔

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود ہم نے ایٹم بم بنا لیا۔ امریکا کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس کی طاقت کو ایک مسلمان ملک نے چیلنج کر دیا۔ یہ سب اس لیے کہ ایٹمی پروگرام میں ہم نے ہیرا پھیری سے انکار کر دیا اور اپنے ہنر کو کامیاب کر لیا۔ دنیا جب ایٹم بم کے خلاف مسلسل کوشش کر رہی تھی اور لگتا تھا کہ اب پاکستان یہ کام نہیں کر سکے گا تو میں نے ایٹم بم کے متعلق ایک صاحب سے اس کا خدشہ ظاہر کیا اور بڑے اضطراب کی کیفیت تو ان صاحب نے مجھ پر ترس کھا کر اور اس ادارے سے پرانے تعلق کی بناء پر میرے کان میں کہا کہ وہ تو بن بھی چکا ہے۔ میں نے مختصراً یہ ذکر اس لیے کر دیا کہ ہم بڑے کام کے لوگ ہیں اگر سیاست دان ہمیں معاف رکھیں تو ہمیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ہمارا واحد دشمن بھارت تو بندیا ساڑھی سے زیادہ کچھ نہیں۔

ہم اپنے جس دفاعی ادارے آئی ایس آئی کی جی بھر کر توہین کرتے ہیں اگر کسی بھی باہوش بھارتی سے پوچھیں تو وہ ڈرتا بھی صرف آئی ایس آئی سے ہے۔ میرے کان گواہ ہیں کہ بھارت جب زیادہ چاں چاں کر رہا تھا تو بھارت کے کسی بڑے کو ہم نے صرف اتنا بتا دیا کہ آپ جہاں کھڑے ہیں یہ جگہ بھی ہماری زد میں ہے اور یہ وہ زمانہ تھا جب بھارت پورے کا پورا ہماری ایک ضرب کی مار تھا۔ بڑا رقبہ، بڑی آبادی بڑے تعلقات یہ سب تسلیم لیکن ہمارے بڑے جب بھارت کے مقابلے میں یہ چھوٹا سا ملک بنا رہے تھے تو انھیں سب معلوم تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ انھیں اپنی قوم پر اعتماد تھا۔ ہم نے بھارت سے کوئی جنگ نہیں ہاری اور سقوط ڈھاکہ ہماری غداری کا نتیجہ تھا۔ مضبوط قوموں کو کسی غداری سے ہی قابو کیا جا سکتا ہے کسی طاقت سے نہیں۔ اب آپ 11 تاریخ کے ہنگامے کو ملاحظہ کیجیے۔ آج کی ہی خبر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔