آگے پیچھے ہونے والی کرسی

طلعت حسین  پير 9 جون 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

نواز شریف حکومت کی ادائیں دیکھ کر مجھے آگے پیچھے جھولنے والی آرام کرسی یاد آ رہی ہے۔ اگر آپ محض حرکت کو معیا ر بنائیں تو یہ کرسی کسی گاڑی سے زیادہ یا اُس کے قریب قریب متحر ک رہنے کی استطا عت رکھتی ہے۔ مگر تمام توانائی صرف کرنے کے باوجود اس کی چال صفر ہے۔ یہ نہ اپنی جگہ چھوڑتی ہے اور نہ اس پر براجمان ہو کر کوئی ایک انچ آگے بڑھ سکتا ہے۔

یہ ہلتی ضرور ہے مگر جا تی کہیں نہیں۔ آگے پیچھے۔ آگے پیچھے۔ بس یہی کرتی رہتی ہے۔ مسافت طے کیے بغیر سفر کا مزا دینے والی یہ ایجاد ان من موجیوں کے لیے بنائی گئی ہے جو خود کو اس مسحور کن دھوکے میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں کہ اُن سے زیادہ مشقت کرنے اور جان توڑنے والا کوئی اور نہیں ہے۔ لہٰذا وہ جو اُن پر سستی اور کاہلی کا الزام لگاتے ہیں۔ اُنکی نقل و حرکت سے جلتے ہوئے بغض میں سچائی سے منہ پھیر رہے ہیں۔

نواز لیگ بڑے قومی معاملات پر اس کرسی جیسی کیفیت میں  مبتلا نظر آتی ہے۔ ظاہراً بھاگ دوڑ اور گہما گہمی کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ساکن ہے۔ اس نکتے کی وضاحت کے لیے کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ جیو بحران دیکھ لیں۔ ظاہراً کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ شروع میں خطرناک اور فتنہ انگیز خا موشی اختیار کرنے کے مداوے میں ہر طرح کے پاپڑ بیلے گئے۔ وزیر اعظم اور کابینہ کے تمام اراکین اس معاملے کو اصولی بنیادوں پر سلجھانے اور انصاف کرنے کے لیے میدان میں کود پڑے۔ میا ں نواز شریف نے فوج کی تعریفوں کے پل باندھ کر اُس پل صراط کو عبور کیا جس کے بیچ انھوں نے خود کو لا کھڑا کیا تھا۔ شہید فوجیوں کے جنازوں تک میں شرکت کی۔ وزیر اطلاعات ہر دروازے پر دستک دیتے ہوئے نظر آئے۔ دبئی کا سفر بھی کر ڈالا۔

وزارت دفاع، دفاعی اداروں کے حق میں سینہ سپر ہو گئی۔ جیو کی طرف سے ہونے والی ہرزہ سرائی پر شدید سزا اور قلمی بندش کو اپنا ہدف بنایا۔ خواجہ آصف، جنا ب وزیر دفاع نے اپنے دستخطو ں سے اس ادارے کے خلاف شکایت پیمرا تک بھجوائی۔ اور اب  جزوی معطلی کے فیصلہ پر عدم اطمینان کرتے ہوئے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ یعنی حرکت کا فقدان نظر آیا۔ مگر نتیجہ کیا نکلا؟ پیمرا، جس نے قانونی طور پر اس تنازعے کو حل کرنا ہے۔ بدترین تنازعے کا خود شکار ہو چکی ہے۔ ایک گروپ نے ایک سزا تجویز کی ہے تو دوسرے نے دوسری۔ دونوں ایک دوسرے پر غیر قانونی ہو نے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ ادارے کا سربراہ عبوری ہے۔

پرویز راٹھو رکے ہاتھ میں پیمرا کی لگام ہے (یہ وہی جوانمرد ہے جس نے مرحومہ بے نظیر بھٹو کے پہلے لانگ مارچ پر اسلام آباد میں لاٹھیوں کی بارش کرائی۔ کیا مرد، کیا خواتین سب کو جمہو ری انداز میں ’دھو‘ ڈالا۔ بے نظیر راٹھور صاحب کی انتقامی کا رروائی کی زد میں بری طرح آئیں مگر چونکہ حوصلے میں چھ مردوں پر بھاری تھیں۔ لہذا اُن کی تمام تر کوششوں کے باوجود حصار توڑ کر راولپنڈی کی طرف روانہ ہو گئیں۔ راٹھور صاحب اُس وقت میا ں نوازشریف کے بہت قریب تھے آج بھی اُن کی وفاداری میں کمی نہیں آئی) پیمرا کے فیصلے پر اندرونی تنازعے نے بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

متاثرہ ادارہ اس کو ماننے سے انکار کر رہا ہے۔ اُس کی طرف سے آتشیں الفاظ سے بھرے ہوئے اسلحے کا استعمال بدستور جاری ہے۔ آئی ایس آئی اور پیمرا کے خلاف ہرجانے کا دعوی اُسی پالیسی کا تسلسل ہے جس نے اس مسئلے کو جنم دیا۔ دوسری طر ف فوج بھی اس جزوی سزا پر انتہائی غیر مطمئن ہے۔ وہ اس کو دوستانہ معاہدے کا حصہ گردانتی ہے۔ دوسرے  الفاظ میں ہفتوں کی کوشش کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کوئی نتیجہ یا حل نہیں نکلا۔

ایک اور مثال طالبان کے ساتھ بات چیت کے عمل کی ہے۔ گزشتہ دنوں میں تشویش اور امید دونوں سے بھری ہوئی ایسی دلچسپی کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ جیسے اس سے بڑھ کر کوئی اور ترجیح ہے ہی نہیں۔ میڈیا سے بات چیت، بیانات، بحث، دورے، کمیٹیاں، میٹنگز، املاک، ڈرافٹ، نا راضگیاں، اتفاق رائے، کیا کچھ نہیں ہو رہا تھا۔ امن کی عید مسرت کی خبریں بنوا بنوا کر قوم کو ایک نہیں، بارہ رمضان کے برابر صبر کے روزے رکھ وائے۔ سب کو اکٹھا کیا خود ادھر گئے اُن کو پاس بلایا۔ اور تو اور عمران خان سے بھی ملاقات کر ڈالی۔ بین الاقوامی اخبارات میں بھی ہرروز خبریں چھپنے لگیں۔

قومی ذرایع ابلاغ نے پلکیں جھپکنا بند کر دیں کہ کہیں باریک چاند جھلک دکھانے کے بعد پردہ نہ کر جائے۔ مگر نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ نتیجہ نہیں نکلا۔ آج ملک کا یہ حصہ امن سے اتنا ہی دور ہے جتنا پہلے تھا۔ بلکہ حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ جو دھڑے پہلے ریاست پاکستان کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے سلامتی اور تحفظ کے کم سے کم نکات پر اتفاق کرتے تھے وہ اب سرکشی پر آمادہ ہیں۔ طاقت کا استعمال ہو بھی رہا ہے اور نہیں بھی۔ کارروائیاں کب اور کیوں شروع ہو گئی ہیں اور کیسے ان میں وقفہ لا کر جرگوں کو دوبارہ سے فعال کر دیا جاتا ہے۔

ان پہلووں پر مکمل خاموشی بلکہ مکمل تاریکی ہے۔ پچھلے سال سے شروع ہونے والی امن جدوجہد میں سے کیا حاصل ہوا اب یہ معاملہ سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ وہ تمام دعوے اور امید افزاء بیا نات اب سکوت میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ جن کی گونج کبھی تمام ملک میں سنائی دیتی تھی۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ آخری مرتبہ میں نے ان مذاکرات کے بارے میں کسی بھی وزیر کے منہ سے پچھلے ہفتوں میں کوئی تفصیلی بیا ن سنا ہو۔ سب کچھ وہیں کا وہیں ہے۔ نہ جنگ ہے نہ امن۔ نہ بات چیت ہے نہ کارروائی۔

یہ ’آگے پیچھے۔ آگے پیچھے‘ کی پالیسی آپ کو ہر اہم مسئلے پر نظر آئے گی۔ حکمرانوں کے پاس کرسی تو ہے مگر وہ اس سے صرف جھولے کا کام لے رہے ہیں۔ شاید وہ سمجھتے ہو ں کہ جنبش چاہے کیسی ہی ہو اس کا ہونا ہی کافی ہے۔ حکومت کرنے کے لیے اس کے سوا کچھ کر نے کی ضرورت نہیں۔ اللہ کرے گا کسی بھولی بسری نیکی کے صدقے میں اس کارروائی میں برکت پڑ جائے گی۔ ایک ہی جگہ پر آگے پیچھے‘ آگے پیچھے۔ اللہ بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ کرسی ہے‘ آرام کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔