شمالی کوریا ؛ جہاں فوجی افسران اور عوام ایک ساتھ بیٹھے تھے

غازی صلاح الدین  اتوار 29 جون 2014
KASS کے چیئرمین اجرک اور ٹوپی پہنانے پر اتنے خوش ہوئے کہ ہمارے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر سامعین کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ فوٹو : فائل

KASS کے چیئرمین اجرک اور ٹوپی پہنانے پر اتنے خوش ہوئے کہ ہمارے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر سامعین کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ فوٹو : فائل

 15اپریل کو کوریا کے عظیم لیڈر کامریڈ کم ال سونگ کی سال گرہ پورے کوریا میں بڑے جوش ولولے سے منائی جاتی ہے۔ اس بار کوریا کے کراچی میں متعین قونصل جنرل نے مجھے بھی اس میں شرکت کی دعوت دی۔

کراچی ایرپورٹ سے ایرچائنا کی فلائیٹ 10اپریل کی رات 11بجے بیجنگ (چائنا) کے لیے روانہ ہونا تھی۔ ہم تقریباً 8بجے گاڑی میں ایرپورٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ میری اہلیہ اور دونوں بیٹیاں کنزا اور تسیبح مجھے بار بار یا دہانی کروارہی تھیں کہ آپ وہاں پہنچتے ہی ہمیں اپنا وہاں کا نمبر دیجیے گا، تاکہ ہم آپ سے رابطہ کرسکیں اور میں اپنی بیٹیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہا تھا،’’بیٹا! انشاء اﷲ میں پہنچتے ہی پہلا کام یہی کروں گا۔‘‘ 18روز کا دورہ اور ایک طویل سفر دِل مچلا جارہا تھا کہ اﷲ نے آج وہ خواہش پوری کردی ۔

جس کا ایک طویل عرصے سے انتظار تھا۔ کراچی انٹرنیشنل ایرپورٹ کے باہر ہی عوامی نیشنل پارٹی کے راہ نما بشیرجان اور ریاض گل دکھائی دیے۔ ابھی ہم ملاقات کر ہی رہے تھے کہ دور سے جاوید انصاری اپنے بریف کیس کو ٹرالی بناتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے فون سنتے ہوئے دکھائی دیے۔

اب ہمارا چار افراد پر مشتمل وفد مکمل تھا۔ ہم ایرپورٹ کے اندر داخل ہوئے۔ ایر چائنا کی فلائٹ نمبر 946، 11بج کر 20منٹ پر کراچی ایرپورٹ سے روانہ ہونا تھی۔ ہمیں 11بجے سے آدھا گھنٹہ قبل بورڈنگ کارڈ دکھا کر جہاز میں سوار کیا گیا۔ ایرچائنا کی فلائٹ میں چینی ایرہوسٹسز مسکراتے اور گردن جھکاتے ہوئے مسافروں کا استقبال کر رہی تھیں۔ ہم نے اپنی نشست سنبھالی۔ کراچی ایرپورٹ پر کوریا کے قونصل جنرل بھی ہمیں چھوڑنے آئے تھے اور دوستوں نے بتایا کہ یہ پہلی بار ہے کہ قونصل جنرل خود ہمارے سامان اور ٹکٹ کے معاملات دیکھ رہے تھے۔

ایر چائنا کا طیارہ ٹیک آف کرکے بیجنگ کی جانب رواں دواں تھا۔ سات گھنٹے کے طویل سفر کے بعد چین کے شہر چھنگتو میں طیارے کو اترنا تھا۔ وہاں سے 2گھنٹے 30منٹ کی فلائٹ سے بیجنگ پہنچنا تھا۔ کراچی اور بیجنگ کے درمیان ٹائم کا 3گھنٹے کا فرق ہے۔ بیجنگ کراچی سے 3گھنٹہ آگے ہے۔ کوریا اور بیجنگ کے درمیان ٹائم میں مزید ایک گھنٹے کا فرق ہے۔ اس طرح کوریا ہم سے چار گھنٹے آگے ہے۔ پاکستانی وقت کے مطابق ہم چین کے شہر چھنگتو رات 4بجے پہنچے، وہاں صبح کے 7بج رہے تھے۔

ایرہوسٹس نے پہلے چینی پھر انگریزی میں طیارے کے ایرپورٹ پر اترنے کی نوید سنائی اور کچھ ہی لمحوں میں ہم چین کے شہر چھنگتو میں اتر رہے تھے۔ ہمیں دستی سامان اتارنے کی ہدایت کی گئی، جب کہ دیگر سامان فوری طور پر دوسرے طیارے میں منتقل کردیا گیا۔ اب ہم انٹرنیشنل فلائٹ سے ڈومیسٹک فلائٹ میں سوار ہوئے جو ڈھائی گھنٹے کی مسافت کے بعد بیجنگ انٹرنیشنل ائیر پورٹ پہنچ گئی۔

بیجنگ میں ایک روز قیام کے بعد 12اپریل کو پیانگ یانگ (کوریا کا دارالحکومت) کی فلائٹ تھی، جو اپنے مقررہ وقت پر 11بجے روانہ ہوئی اور دو گھنٹے کی مسافت کے بعد پیانگ یانگ ایرپورٹ پہنچی۔ ایرچائنا کا طیارہ رن وے پر آہستہ آہستہ ایرپورٹ کی طرف روانہ ہوا۔ درمیان میں ایک پُل آیا جس کے نیچے ٹریفک رواں دواں تھا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ آگیا، کیوںکہ ہم اپنے ملک میں دہشت گردی کے اس ماحول میں اس قسم کے رن وے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

ایک طرف نیچے سے عام ٹریفک کا گزر تھا اور دوسری طرف اوپر پل سے طیارہ ایرپورٹ کی عمارت کی جانب رواں دواں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ طیارہ بھی اُسی ٹریفک کا حصہ ہے۔ طیارے کو ایرپورٹ کی عمارت سے دور کھڑا کرکے مسافروں کو ایک بس میں سوار کیا گیا۔ ایرپورٹ پر بڑی تعداد میں ایرکوریا اور ایرچائنا کے طیارے موجود تھے اس کے علاوہ کوئی اور طیارہ موجود نہیں تھا، بل کہ ہماری پرواز کے علاوہ کسی اور طیارے نے وہاں لینڈ نہیں کیا، کیوں کہ 1950 سے 1953 تک امریکا اور کوریا کی جنگ کے فوری بعد امریکا کی جانب سے شمالی کوریا پر پابندیاں لگادی گئی ہیں، جس کے بعد شمالی کوریا دنیا کے کسی بھی ملک سے تجارت نہیں کرسکتا۔ تاہم وہ اپنے ہمسایہ ملک چین سے تیل سمیت دیگر اشیاء کی تجارت کرتا ہے۔

شمالی کوریا کے عوام اتنی طویل پابندیوں کے باوجود اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے زندہ ہیں۔ وہ کسی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے محتاج نہیں۔ ان کی معیشت کا دارومدار اپنے اندرونی وسائل پر ہے۔ وہ چاول اور گندم کاشت کرتے ہیں۔ پن بجلی کے ان کے اپنے منصوبے ہیں۔ پانی کو وہ کسی صورت ضائع نہیں کرتے۔ اسے وہ پاور پروجیکٹس کے استعمال میں لاتے ہیں۔ بڑے بڑے پاور پروجیکٹس کے ذریعے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ پورے ملک میں ایک سیکنڈ کے لیے بھی لائٹ جانے کا تصور نہیں۔ شمالی کورین صبح پانچ بجے اٹھ جاتے ہیں اور 6 بجے اپنے دفاتر اور کاروبار پر پہنچ جاتے ہیں۔

ہر شخص اپنے ملک سے مخلص ہے۔ وہ اپنی کاروبار کی جگہ اور رہائش گاہ کے سامنے والے حصے کو وہ خود صاف کرتے ہیں۔ گھروں کے سامنے لگے درختوں کو پانی دیتے ہیں۔ اس طرح پورا پیانگ یانگ خوب صورت پھولوں کا شہر دکھائی دیتا ہے۔ ان کا قومی پھول ہمارے گلاب سے بھی بڑا ہے، جس کا رنگ لال ہے۔ اس پھول کا پودا کوریا کے عظیم لیڈر کامریڈ کم ال سونگ کو انڈونیشیا کے سربراہ ڈاکٹر سوئکارنو نے بہ طور تحفہ دیا تھا، جس کا نام KIMILSUNGIA ہے۔

قومی پھول سے کوریا کی پوری قوم عقیدت رکھتی ہے۔ 15 اپریل، جس روز کامریڈ کم ال سونگ کی 103 ویں سال گرہ کا دن تھا، ہر گھر کی گیلری اور مرکزی دروازے پر یہ پھول نمایاں طور پر دکھائی دیا۔ کوریائی قوم جس طرح ترقی کی منازل طے کر رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ دس سال میں وہ دنیا کی مضبوط و منظم قوم کی صورت میں سامنے آئے گی۔ کورین تمام پرانی عمارتوں کی جگہ جدید عمارتیں تعمیر کر رہے ہیں۔ ان عمارتوں میں تاریخی اور یادگار عمارتیں شامل نہیں، بل کہ تاریخی اور یادگار عمارتوں کو وہ جدید طرز پر وسیع کرتے ہوئے ان کی خوب صورتی میں اضافہ کر رہے ہیں۔

ہم پیانگ یانگ کوریو ہوٹل میں مقیم تھے، جو فائیو اسٹار ہوٹل ہے۔ اس 45 منزلہ عمارت کی آخری منزل پر ایک جدید طرز کا ریولونگ ہوٹل ہے، جہاں سے پورے شہر کو دیکھا جاسکتا ہے۔ صبح سویرے ہم 27 ویں منزل پر اپنے روم نمبر 27 کی سامنے والی بڑی کھڑکی کے پردے ہٹاتے تو سیکڑوں کی تعداد میںبوڑھے، بچے، جوان، لڑکے اور لڑکیاں پیدل، ٹرام پر اور بسوں میں اپنی اپنی منزل کی جانب رواں دکھائی دیتے۔ تمام ٹرامز بجلی سے چلتی ہیں۔ حالانکہ وہ ٹرامز اب بہت پرانی ہوچکی ہیں، لیکن ان کی ساخت اور رفتار میں کوئی فرق نہیں آیا۔

پیانگ یانگ ایرپورٹ کو جدید بنانے کے لیے اس کی تعمیرنو کا کام تیزرفتاری سے کام ہورہا ہے۔ ہمیں عارضی ایرپورٹ کی غیرتعمیر شدہ عمارت کے اس حصے میں لے جایا گیا، جہاں تمام مسافروں کا امیگریشن ہونا تھا۔ ایرپورٹ کی عمارت میں داخل ہوتے ہوئے اس بات کا علم ہوا کہ طیارے کے تقریباً تمام مسافر وہ غیر ملکی وفود ہیں جنہیں 15 اپریل کی سال گرہ کی تقریب میں خصوصی طور پر مدعو کیا گیا ہے۔

ہم سمجھ رہے تھے کہ ایرپورٹ پر اترنے کے ساتھ ہی ہمارا وی وی آئی پی پروٹوکول شروع ہوجائے گا، لیکن ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا۔ ہم تمام مسافر مختلف کاؤنٹرز پر لائینوں میں لگے اپنی باری کا انتظار کرتے اور آگے بڑھتے۔ سامنے بڑی تعداد میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کھڑی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی کا انتظار کررہے ہیں۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ تمام افراد ڈیموکریٹک پیپلز ریپبلک آف کوریا کی حکومت کے وہ مترجم ہیں، جنہیں پورے دورے میں وفود کے ساتھ رہنا ہے۔ امیگریشن اور تلاشی کے تمام مراحل کے بعد ہم ایرپورٹ سے باہر آئے۔ اسی دوران ہمارے مترجم مسٹر لی ہمارے قریب آئے اور ہم سے اپنا تعارف کروایا اور کہا کہ ہمارے تمام معاملات وہ دیکھیں گے۔

پیانگ یانگ کوریو ہوٹل کی لابی میں پہنچ کر تمام وفود غیررسمی تبادلۂ خیال میں مصروف ہوگئے، جب کہ بعض وفود اپنے اپنے روم کی چابی ملنے کا انتظار کررہے تھے۔ ہوٹل کی مین لابی کے بالکل درمیان کوریا کے قومی پھول بڑی خوب صورتی سے سجائے گئے تھے۔ جاپان، جرمنی، اٹلی، روس، بیلا روس، منگولیا، نائجریا، ساؤتھ افریقا، کینیا، فن لینڈ، پاکستان ، بنگلادیش، نیپال، یوکرین، میکسیکو، لاطینی امریکا اور یوگنڈا کے وفود ہمارے ساتھ طیارے میں پیانگ یانگ پہنچے تھے۔

پاکستان کے وفد کو ہوٹل کی 27 ویں منزل پر کمرے دیے گئے۔ تمام وفود کے کھانے کا انتظام تیسری منزل کے ڈائننگ ہال میں تھا۔ ظہرانے کے فوری بعد ہمیں سب سے پہلے پیپلز اوپن ایر آئس اسکیٹنگ لے جایا گیا، جہاں برف پر بچوں کو آئس اسکیٹنگ کرتے دیکھا۔ اس کے بعد کورین ہینڈی کرافٹس کی نمائش دکھانے لے جایا گیا۔ پھر گُھڑدوڑ کا کلب دکھا یا گیا، جہاں وفود میں شامل غیرملکی خواتین نے بھی گُھڑسواری کی اور تصاویر بنوائیں۔ اس طرح پہلے دن کا شیڈول مکمل ہوا اور ہمیں واپس ہوٹل پہنچادیا گیا۔ لابی میں آتے ہی تمام ممالک کے وفود کو ان کے ٹرانسلیٹرز نے دوسرے روز کا پروگرام بتایا اور ان سے کہا کہ وہ صبح اپنے مقررہ وقت پر تیار ہو کر ہوٹل کی لابی پہنچ جائیں۔

کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم سات بجے شام ڈنر کے لیے ڈائننگ ہال پہنچے، جہاں بنگلادیش، نیپال اور بھارت کے وفود سے ملاقات ہوئی۔ اب ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ کھانے کا تھا کہ کورین عوام حلال گوشت کا تصور نہیں رکھتے، بل کہ وہ بعض کھانوں میں خنزیر کے گوشت کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے ٹرانسلیٹر کو خصوصی ہدایت دی تھی کہ اس بات کو ہر قیمت پر یقینی بنائے کہ پاکستانی وفد کے کھانے میں حلال کے علاوہ اور کوئی چیز شامل نہ ہو، اس کے باوجود ہم خود بھی اس بات کا خیال رکھتے تھے۔ اگر ڈائننگ میں بوفے سسٹم ہے تو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھتے اور کسی چیز میں تھوڑی بھیSMELL محسوس ہوتی توہم ویٹر کو بلا کر پوچھتے کہ اس میں کیا شامل ہے۔

کورین کھانے بغیر مسالوں کے سادہ ہوتے ہیں، لیکن ہمارے لیے وہ چکن اور فش کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ کولڈ ڈرنک اور دودھ کی چائے کا وہاں تصور بھی نہیں۔ اس لیے میں نے جاتے ہوئے چائے کا انتظام کرلیا تھا۔ ٹی بیگ، خشک دودھ اور چینی کے ساشے اپنے بیگ میں رکھ لیے تھے، جس سے صبح اور شام کی چائے کا مسئلہ حل ہوگیا۔ شام کی چائے ہم وفد کے تمام ارکان بشیر جان کے روم میں پیتے، جہاں27 ویں منزل کی گیلری سے شہر کے مناظر دیکھتے۔ دوسرے روز چودہ اپریل کو پورے پیانگ یانگ سٹی میں کوریا کے عظیم لیڈر کم ال سونگ کی سال گرہ کی تقریبات کا آغاز ہوچکا تھا۔ پورے شہر میں بڑے بڑے سائین بورڈ لگے ہوئے تھے، جن پر مزدور، کسان اور دانش ور طبقات کے نشانات، ہتھوڑا، درانتی اور قلم کے ذریعے، جو کوریا کی ورکرز پارٹی کا نشان ہے، اس بات کی نشان دہی کی گئی تھی کہ انقلاب اور تبدیلی ان تینوں طبقوں کے اتحاد سے آتی ہے۔

پورے شہر میں قومی پرچم دکھائی دے رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک مقررہ وقت تک یہ قومی پرچم لگائے جاتے ہیں اس کے بعد انہیں احترام کے ساتھ اتار دیا جاتا ہے کہ قومی پرچم کی بے حرمتی نہ ہو۔ صبح 9 بجے سے قبل تمام وفود ناشتے کے بعد تیار ہوکر ہوٹل کی لابی پہنچ چکے تھے۔ اچانک تمام وفود کو گاڑیوں میں بیٹھنے کا کہا گیا اور ہمیں پیپلزپیلس آف کلچر بلڈنگ لایا گیا، جہاں Juche Idea Seminar منعقد ہونا تھا، جس کا موضوع تھا:

THE COUSE OF GLOBAL INDEPENDENCE KAMIL SUNGISM -KIM JONG ILL ۔ پہلے سیشن سے بنگلادیش، وینزویلا، یوگنڈا اور منگولیا کے نمائندوں نے خطاب کیا، جس کا کورین زبان میں ترجمہ بھی ساتھ ساتھ ہورہا تھا۔ یہ سیمینار ایک بہت بڑے ہال میں منعقد ہوا، جہاں کوریا کے دونوں عظیم راہ نماؤں کامریڈ کم ال سونگ اور کم جونگ ال کی بڑی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ چائے اور کافی کا وقفہ ہوا تو ہمیں ایک بڑے سے ہال میں لے جایا گیا، جہاں کافی اور چائے کے بڑے مگ رکھے تھے۔ تمام مہمان سیلف سروس کے ذریعہ ایک ڈسپوزایبل گلاس اٹھاتے، چائے لیتے اور سامنے لگی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ کر پیتے۔ یہ سب کچھ سادہ اور پروقار انداز لیے ہوئے تھا، جس سے اس قوم کی سادگی کا اندازہ ہوتا ہے ۔

چائے اور کافی کے پندرہ منٹ کے وقفے کے بعد دوسرے سیشن سے جاپان، روس، کانگو، بیلا روس اور روس کے نمائندوں نے خطاب کیا۔ اس کے بعد IIJI کے سیکریٹری جنرل، جن کا تعلق جاپان سے، ان کی تقریر ہوئی۔ اس طرح اس سیمینار کا اختتام بڑے پُروقار انداز میں ہوا۔

اس کے فوری بعد ہمیں ہوٹل لے جایا گیا، جہاں 12 بجے ظہرانہ شروع ہوجاتا تھا۔ ظہرانے کے فوری بعد تقریباً ڈھائی بجے ہمیں فلاور شو دکھانے لے جایا گیا۔ اس نمائش میں نمایاں ترین کوریا کا قومی پھول تھا۔ چار بجے کے قریب ہمیں پیانگ ہانگ چلڈرن ہاسپٹل لے جایا گیا، جس کی جدید عمارت میں جدید طرز کے آلات، بچوں کی نگہداشت اور خصوصی علاج کے شعبے دیکھے۔ اسپتال میں بچوں کے کھیلنے کے مخصوص حصوں کے ان کی تعلیم کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ سات ماہ کے قلیل عرصے میں قائم ہونے والی اس جدید بچوں کے اسپتال کو دیکھ کر آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔

کوریا میں متعین پاکستانی سفیر نے وفد کے اعزاز میں دینے والے عشائیے میں اس اسپتال کے حوالے سے ذکر پر بتایا کہ سات ماہ قبل یہ علاقہ درختوں سے اٹا ہوا تھا۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ کورین آئے اور انہوں نے تمام درختوں کو اس جگہ سے اس طرح نکالا کہ نہ ان کی ساخت خراب ہو اور نہ ہی وہ مردہ ہوجائیں، بل کہ انہیں جدید طرز کی مشینری کے ذریعے وہاں سے نکال کر کہیں اور لگادیا گیا۔ اس سے قبل ان تمام درختوں کو پلاسٹک سے لپیٹا گیا اور ان پر نمبر ڈالے گئے۔ درختوں کی کٹائی کے دوران تیز بارش میں بھی ان کے لیڈر کم جونگ مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہوتے، تاکہ ان کا جوش اور بھی بڑھ جائے۔ کورینز کی اپنی قیادت سے والہانہ عقیدت کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ ان کے لیڈر نے اگر کسی مشین کو بھی ایک بار ہاتھ لگالیا، تو انہوں نے اس مشین یا اس کے چھوٹے سے پرزے کو بھی محفوظ کرلیا۔

شام 7بجے پیانگ یانگ ہوٹل میں کورین حکومت کی جانب سے تمام غیرملکی وفود کے اعزاز میں Dinner Benquet تھا۔ سامنے کی ٹیبل خالی تھی باقی کی تمام راؤنڈ ٹیبلز پر وفود کے ارکان کو گلابی اور سرخ لباس پہنی ہوئی ویٹر لڑکیاں سر جھکا کر مسکراتے ہوئے خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔ ہر ملک کے وفد کی الگ ٹیبل تھی۔ KASSکے صدر KIN KI NAM جو کہ حکم راں جماعت ورکرز پارٹی کے سیکریٹری اور اس وقت پارٹی میں نمبر دو پوزیشن پر ہیں اور نائب صدر ای کل سانگ اپنے دیگر سینئر ساتھیوں کے ساتھ پہنچے۔ یہ تمام بڑی شخصیات بڑے نا رمل انداز میں آئیں کوئی ’’ہٹو بچو‘‘ کی آوازیں نہ گارڈوں کی قطاریں۔ ان کی آمد کے ساتھ ہی تقاریر کا سلسلہ شروع ہو ا۔

KASS کے صدر اور نائب صدر کی تقریر بہت ہی مختصر اور جامع تھی، جس کے انگریزی ترجمے کی کاپی تمام مہمانوں کی ٹیبل تک پہنچا دی گئی تھی۔ اختتامی تقریر کے فوری بعد مخصوص قسم کے چھوٹے گلاس کو اُٹھاکر خوش حالی اور آبادی کا جام پیا گیا، جسے پاکستان وفد نے پانی کے گلاس ٹکراتے ہوئے نوش کیا۔ اس طرح تقریب کا اختتام ہوا۔ اس دوران ہم نے اپنے مترجم سے بات کرلی تھی کہ ہم مہمان ِ خصوصی کو پاکستان کے صوبہ سندھ کی روایتی اجرک اور ٹوپی پہنانا چاہتے ہیں۔ اس نے اعلیٰ عہدے داروں سے بات کرنے کے بعد ہمیں اس کی اجازت دی اور باقاعدہ اس کا اہتمام بھی کیا۔ دو خوب صورت کورین لڑکیاں اجرک اور ٹوپی کے ساتھ میرے ساتھ تھیں اور میں نے جب KASSکے چیئرمین کو اجرک اور ٹوپی پہنائی تو وہ اتنے خوش ہوئے کہ ہمارے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر سامعین کے سامنے کھڑے ہوگئے اور پورا حال تالیوں سے گونج اٹھا۔ سندھی اجرک اور ٹوپی کو وہ اپنے لیے بڑے اعزاز کی بات سمجھ رہے تھے۔ بڑی دیر تک وہ مجھ سے پاکستان کے متعلق معلومات حاصل کرتے رہے، جسے ہمارے مترجم کورین زبان میں ترجمہ کرکے ان کے گوش گزار کر رہے تھے۔ کورینز کے نزدیک یہ بالکل ایک نئی روایت تھی، جسے انہوں نے بہت پسند کیا۔ میرے ٹیبل تک پہنچے تک کورین میرے قریب آکر مجھے مبارک باد دیتے رہے اور میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا کہ میں نے کورین قیادت کو پاکستانی عوام سے محبت کا پیغام بڑے خوب صورت انداز میں پیش کردیا۔

ڈنر کے خاتمے کے بعد بعد مہمان خصوصی خود مرکزی دروازے پر تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے موجود تھے۔ انہوں نے مجھے پہچانتے ہی بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔ ابھی ہم لابی تک بھی نہیں پہنچے تھے کہ ایک خوب صورت لڑکی نے میرے نزدیک آکر کورین زبان میں مہمان ِخصوصی کو پیش کیے گئے گفٹ پر شکریہ کے ساتھ کورین حکومت کی جانب سے تحفہ دیا۔ اتنی جلدی اس قسم کا تبادلہ ہمارے لیے حیرت انگیز تھا۔

15اپریل کوریا کے عظیم لیڈر کامریڈ ال سونگ کی 103ویں سال گرہ کی تقریب کا دن تھا۔ ہمیں صبح بہت جلدی تیاری کے لیے کہا گیا تھا۔ ناشتے کے بعد ہم جیسے ہی ہوٹل کی لابی میں پہنچے تو تمام مہمان لابی میں پہنچ چکے تھے۔ کورین عوام کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ پورے پیانگ یانگ کو پھولوں سے سجادیا گیا تھا۔ ہوٹل کی لابی سے تمام شاہراہوں اور خصوصی طور پرSUN HOUSEجہاں کامریڈ کم ال سونگ اور کم جانگ ال کے جسد خاکی محفوظ کیے گئے ہیں، پر اسکولوں کے طلبہ سمیت سیکڑوں لوگ گلے میں لال رومال باندھے اپنے قائد کو خراج عقیدت پیش کرنے آرہے تھے۔ چاروں طرف مختلف پھولوں سے سجا ہوا Sun Houseایک بہت بڑی عمارت ہے، جس کے ایک کمرے میں کامریڈ کم ال سونگ کا جسدِخاکی رکھا ہے اور برابر کے بہت بڑے ہال میں انہیں دیے گئے مختلف ممالک کے تحائف رکھے ہیں۔

اسی طرح کم جانگ ال کا کمرہ جس میں ان کا جسد خاکی رکھا ہے۔ برابر کے ہال میں ان کے استعمال میں آنے والی تمام اشیاء حتیٰ کہ وہ ٹرین جس میں ان کا انتقال ہوا، بالکل اسی طرح محفوظ ہے، جس حالت میں وہ اُس وقت تھی۔ ٹرین کا وہ مخصوص کمرہ جس میں کم جانگ ال فائلیں دیکھتے تھے، اُن کا چشمہ، سگریٹ اور لائٹر، دیگر اشیاء جو وہ استعمال کرتے تھے بالکل ویسی ہی اپنی جگہ موجود تھیں۔ ایک قلم سے لے کر قیمتی اشیاء تک جو انہیں تحفے میں ملیں انہوں نے وہ قومی خرانے میں جمع کروادیں۔ ایک جگہ دو موبائل فون خوب صورت ڈبے میں رکھے تھے۔ ساتھ ہی ایک مشہور کمپنی کے مالک کا نام بھی لکھا ہوا تھا۔ ہمارے مترجم نے بتایا کہ اس مشہور کمپنی کے مالک نے دو فون اس لیے دیے کہ ایک فون وہ قومی خرانے میں جمع کروادیں اور دوسرا خود استعمال کریں۔ کمپنی کے مالک نے کامریڈ کم ال سونگ سے یہ گزارش بھی کی تھی، لیکن انہوں نے دونوں موبائل فون قومی خزانے میں جمع کروادیے۔

شمالی کورینز کی قیادت مارشل کم جانگ کررہے ہیں جو کم جانگ ال کے فرزند ہیں، جب کہ کورینز اس بات پر ناگواری کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے جب تک دنیا قائم ہے کورین قوم کی قیادت کامریڈ کم ال سونگ ہی کرتے رہیں گے۔ انہوں نے ہمارے لیے جو گائیڈ لائن متعین کی ہے، وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے، جب کہ موجودہ حکم راں مارشل کم جانگ ان خود کو ورکرز پارٹی کا سیکریٹری کہلاتے ہیں۔ وہ بھی ایک عام کارکن کی طرح اپنے سینے پر دونوں آنجہانی راہ نماؤں کی تصویر والا مخصوص بیج لگاتے ہیں، جو ہم تمام تر کوشش کے باجود حاصل نہیں کرسکے۔ کورینز کا کہنا تھا کہ یہ بیج ہمارے کارکن کے علاوہ کسی اور کے لیے نہیں۔ مختلف ممالک سے آئے ہوئے وفود کو انہوں نے جو بیج لگائے جو وہ صرف کامریڈ کم ال سونگ کی تصویر پر مبنی تھے، جس سے پتا چلتا تھا کہ ہم غیرممالک سے آئے مہمان ہیں۔

وہاں ایک ایسا واقعہ ہوا جسے میں کبھی نہیں بھلا پاؤں گا۔ ہمیں اس میوزیم میں لے جایا گیا جہاں ڈیموکریٹک پیپلز ریپبلک آف کوریا اور امریکا کے درمیان 1950ء سے 1953تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران امریکا کے جو ہیلی کاپٹر کورین فوج نے گرائے، وہ ہتھیار، گولا بارود اور وردیاں جو امریکی چھوڑکر بھاگ گئے، انہیں محفوظ کرلیا گیا ہے۔ اس میوزیم میں ایک گول ہال کے درمیان نشستیں رکھی گئی ہیں۔ وہاں سے بیٹھ کر آپ اس پوری جنگ کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ ریوالونگ میوزیم میں اندھیرا کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسکرین پر نہیں بلکہPANORAMAکے جدید انداز میں جنگ سے ہونے والی تباہی کے مناظر سمیت ایک مکمل جنگ دکھائی جاتی ہے۔

بم باری، عمارتوں میں بے گناہ افراد کے مارے جانے کے مناظر کے علاوہ ریل کے پلوں اور کھیتوں میں کام کرنے والوں کو بم باری سے جس طرح مارا گیا وہ مناظر دیکھ کر روح کانپ اُٹھتی ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں امریکن فوج کی وردیاں دکھائی جارہی تھیں اچانک بنگلادیشی وفد کے ایک رکن نے پاکستانی افواج کے متعلق غلط زبان استعمال کی۔ میں سمجھ رہا تھا کہ وہ اپنی بات کر کے خاموش ہوجائے گا لیکن اس نے بات کو بڑھانے کوشش کی، جس پر میں نے اُسے shut upکہا، جس پر کورینز سمیت تمام ممالک کے وفود حیرت زدہ رہ گئے۔ میں نے اس بنگلادیشی سے اُردو میں کہا کہ ہم کسی اور ملک میں ہیں اور آپ کو یہ بات زیب نہیں دیتی۔

اگر آپ کو بحث کرنی ہے تو آپ میرے روم میں آئیں یا ہم بنگلادیش آکر آپ سے بات کرنے کو تیار ہیں۔ ماحول بڑا تلخ ہوگیا تھا۔ سب خاموش ہوگئے، لیکن کسی نے کوئی سوال نہیں کیا۔ بعد میں ہوٹل کی لابی میں ہمارے مترجم نے پاکستانی وفد کے سینئر ممبر جاوید انصاری سے پوچھا کہ مسٹر غازی اتنے غصے میں کیوں تھے؟ جاوید انصاری نے بتایا کہ پاکستان اور بنگلادیش کا مسئلہ بالکل نارتھ اور ساؤتھ کوریا کی طرح کا ہے۔ اس لیے بنگلادیشی وفد کے رکن نے پاکستانی فوج کے متعلق جب نازیبا الفاظ استعمال کیے تو مسٹر غازی نے فوری Shut upکال دی ورنہ بات بہت خراب ہوجاتی۔ اس واقعے کے بعد بنگلادیش کو ہمارے پول سے نکال کر کسی اور پول میں ڈال دیا گیا، جس سے بڑی حد تک تلخی ختم ہوگئی، لیکن ڈائننگ ہال میں ہم ایک دوسرے کو غصے سے ضرور دیکھتے تھے۔

نارتھ کوریا کے بارے میں پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہاں اظہار رائے کی آزادی نہیں، لیکن ایک بڑی اہم چیز جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی کہ نارتھ کوریا میں BBCاور CNN کے علاوہ، الجزیرہ ٹی وی، جاپانی اور روسی نشریات پر کوئی پابندی نہیں، جب کہ چین میںBBCاور CNNکی نشریات پر پابندی عاید ہے۔ کراچی میں سنیئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر پر حملے اور جیو پر پابندی کی خبر ہم نے BBC پر کوریا کے ہوٹل میں دیکھی، جب کہ بیجنگ میں ان کا اپنا کنٹرول ٹی وی CCTVکے علاوہ اور کوئی چینلز نہیں آتا CCTV ONE,CCTV TWO,CCT NEWS, کے علاوہ آپ کوئی اور غیرملکی نشریات دیکھ نہیں سکتے۔ کورین معاشرہ مکمل طور پر ایک سوشلسٹ معاشرہ ہے۔

اجتماعی قیادت، اجتماعی آزادی اور اجتماعی فوائد، یعنی ہر شخص کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو کہ ہمارے ہاں صرف حکم رانوں کے لیے مخصوص ہیں۔ کامریڈ کم ال سونگ کی JUCHE IDEA پالیسی کا بنیادی نکتہ بھی یہ ہے کہ حکومت، فوج اور عوام مل کر ہی قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ اس پالیسی کے تحت فوج حکومت اور عوام کا حصہ ہے۔ فوج اور عوام کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے جس کا مظاہرہ ہم نے ایک سرکس شو کے ہال میں دیکھا، جہاں فوجی افسران اور عوام ایک ساتھ بیٹھے تھے۔ ان کے درمیان کہیں کوئی دوری نہیں تھی۔

1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کے انہدام نے پوری دنیا میں اس بحث کو عام کردیا کہ دنیا میں کمیونسٹ اور سوشلسٹ نظام قطعی طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ نارتھ کوریا پر پابندیوں کے باوجود ملک کی بڑھتی ہوئی ترقی دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نظام کبھی ناکام نہیں ہوتے، بل کہ نظام کو چلانے والے ناکام ہوتے ہیں۔ بالکل اس طرح اگر کوئی یہ کہے کہ پاکستان میں جمہوریت ناکام ہوچکی ہے تو ایسا بالکل نہیں، جمہوریت ناکام نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر آمریت مسلط کرنے والے ناکام ہوچکے ہیں۔

جمہوریت اگر ناکام ہے تو دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر جمہوری نظام کے علاوہ اور کوئی نظام کیوں رائج نہیں؟ ہمیں اپنے رویوں اور سوچ کو بدلنا ہوگا۔ اگر ہم سرداری اور جاگیرداری نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں تو اپنے اندر سے قیادت پیدا کرنا ہوگی، جس طرح کامریڈ کم ال سونگ کی قیادت، جنہوں نے ایک چھوٹے سے گاؤں میں جنم لیا۔ ان کے آباء واجداد نے جاپان سے لڑتے ہوئے کوریا کو آزاد کروایا، جب کہ کامریڈ کم ال سونگ نے امریکا جیسی سپرپاور کے سامنے اپنی قوم کو سرخ رو کیا۔ اس لیے یہ کہنا کہ قیادت کا کوئی رول نہیں ہوتا غلط ہے۔ قیادت گائیڈ لائن اور اہداف کا تعین کرتی ہے۔ قوم میں تنظیم پیدا کرتی ہے، جس سے وہ اپنی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے خود کو زندہ قوم کی حیثیت سے سامنے لاتی ہے اور نارتھ کوریا کی ترقی اس کی زندہ مثال ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔