چَک دے پھٹے

اکرام سہگل  بدھ 2 جولائی 2014

اٹھارویں صدی میں خالصہ سکھوں نے انگریز کے خلاف گوریلا جنگ شروع کر رکھی تھی وہ پنجاب میں نہروں پر لکڑی کے پھٹوں سے عارضی پل بناتے جس پر سے گزر کر وہ انگریزوں پر شب خون مارتے اور واپس آ کر وہ پھٹے اٹھا دیتے تا کہ ان کا تعاقب نہ کیا جاسکے۔ یہ اصطلاح ’’چَک دے پھٹے‘‘ اب عام طور پر کسی کا گھر گرانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ سکھوں نے پنجاب پر 1849ء تک تقریباً پچاس برس حکومت کی۔ ان کا دارالحکومت لاہور تھا۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ تقریباً 150 سال سے کچھ زیادہ عرصہ بعد شریف فیملی پورے پاکستان پر حکومت کر رہی ہے اور ان کی فیملی بھی اپنی اساس لاہور میں رکھتی ہے۔

منظر بدلتا ہے۔انگلستان کے بادشاہ ہنری دوئم نے کنٹربری کے کیتھڈرل میں آرچ بشپ آف کنٹربری تھامس بیکٹ کو 29 دسمبر 1170ء کے دن قتل کرا دیا تھا حالانکہ تھامس بیکٹ بادشاہ کا سابق دوست تھا جسے بادشاہ نے آرچ بشپ آف کنٹربری کے طور پر تقرر کیا تھا۔ بیکٹ بادشاہ کا ایسا دوست تھا جو بادشاہ کے لیے اس کی بے راہ رویوں کے سامان فراہم کیا کرتا تھا مگر اب اس مقدس درجے پر متمکن ہونے پر اس نے بادشاہ کے پرانے مشاغل کے لیے اس کا یس مین بننے سے انکار کر دیا تھا جس کو بادشاہ نے غداری کے مترادف قرار دیا۔

بادشاہ کا کہنا کون مجھے اس مداخلت بے جا کرنے والے پادری سے نجات دلائے گا۔ اور یوں اس کے چار نائٹس نے بیکٹ کو گرجے میں ہی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مولانا طاہر القادری بھی ایک زمانے میں شریف فیملی کے بہت قریب تھے اور وہی ان کو سپانسر کرتے تھے لیکن اب ان کا پاکستان عوامی تحریک کے لیڈر کے ساتھ ویسا تعلق نہیں رہا۔ بادشاہ ہنری کے نائٹس (سورمائوں) اور شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار پنجاب پولیس میں حیرت انگیز حد تک مماثلت ہے جس نے 17 جون 2014ء کو ماڈل ٹائون لاہور میں انتہائی نزدیک سے گولیاں چلا کر قادری کے 8 پیروکاروں کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ (3 بعد میں جاں بحق ہوئے) ان میں دو عورتیں بھی شامل تھیں جن میں سے ایک حاملہ تھی۔

شہباز شریف اس قتل و غارت کے بارے میں اپنی بریت کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ پنجاب میں ان کی مطلق العنان حکمرانی ہے۔

لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس معاملہ سے لاتعلق ثابت کرنے کے لیے انتظامیہ کو بڑا زور لگانا پڑے گا۔ مسلم لیگ ن کے  جانے پہچانے  سرگرم کارکن گلو بٹ کو ٹی وی پر درجنوں کاریں ڈنڈے سے توڑتے دکھایا گیا جب کہ پولیس دیکھ کر مسکراتی رہی حتیٰ کہ برسر عام اس کو گلے ملتی رہی جیسے وہ چہیتا بیٹا ہو۔ یہ وقوعہ جلیانوالہ باغ جیسا تو نہیں تھا جیسے کہ بعض لوگوں کا دعویٰ ہے لیکن اس تیونسی ٹھیلے والے محمد بوزازی کو یاد کریں جس نے 4 جنوری 2011ء کو خود کو زندہ جلا کر ’’عرب بہار‘‘ کا آغاز کردیا تھا۔

ماڈل ٹائون اور گلو بٹ اب ذہن سے اوجھل نہیں ہوں گے اورحکومت جو چاہتی تھی کہ ’’چک دے پھٹے‘‘ اس سے آخر تک فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔

پی پی پی پنجاب کے بعض لیڈر زرداری کی تابعداری سے انکار کرتے ہوئے شریف برادران کی طرف راغب ہو رہے ہیں جو کہ دھڑا دھڑ مال کمانے میں مصروف ہیں۔ زرداری ’’چک دے‘‘ جیسی کسی حرکت سے کشتی کو ہچکولے نہیں کھلانا چاہتے۔ کراچی میں ہزاروں ایکڑ اراضی کی لیز ختم ہونے اور اس کی مشکوک ملکیت کے پیش نظر یہاں بہت بڑے رقبے پر لینڈ مافیا کے قبضے کی کوشش شروع ہو گئی ہے۔

سندھ کے ریونیو ڈپارٹمنٹ کے مطابق کراچی میں 59703 ایکڑ اراضی پر ناجائز قبضہ تھا تاہم یہ محکمہ سپریم کورٹ کو مطمئن نہیں کرسکا کہ آخر ساٹھ ہزار ایکڑ کے لگ بھگ اراضی میں سے صرف 2864 ایکڑ ہی کیوں بازیاب کرائی جا سکی جسے سرکاری طور پر ناجائز قبضہ قرار دیا گیا تھا لیکن اس سارے معاملے میں وفاقی حکومت کی آنکھیں، کان اور زبان بند ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ آخر وفاقی حکومت سندھ یا زرداری کے بارے میں کوئی برائی دیکھتی ہے نہ سنتی ہے۔

ہمارے بد خواہ پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور ان کی نظریں ہمارے ایٹمی اثاثوں پر ہیں۔ وہ جو پاکستان کو جنگ وغیرہ میں الجھا کر اس کے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں انھوں نے سب سے پہلے آئی ایس آئی کو ہدف بنایا جوکہ ہمارے دفاع کی پہلی لائن ہے۔

پاکستان کے بعض سیاستدان اور بعض میڈیا والے بھی اپنے مختلف مفادات کے باعث ہمارے بیرونی دشمنوں کا ساتھ نبھا رہے ہیں۔

پی ایم ایل (این) کی طرف سے میڈیا کی آئی ایس آئی اور آرمی کے خلاف قابل مذمت مہم کی خاموش حمایت کے بارے میں جس قدر کم کہا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ آرمی چیف نے قومی سلامتی کے خلاف خطرات سے جنگ کرنے کے بارے میں جس عزم کا اظہار کیا ہے اس کا بین السطور جائزہ لیا جانا چاہیے۔ سیاستدان اپنے سابقہ آرمی چیف پر غداری کے الزامات عائد کر رہے تھے جس کو میڈیا میں بھی بہت منفی کوریج دی گئی۔ عوام میں یہ سوچ پھیلی نظر آتی ہے کہ شریف برادران کا اصل ایجنڈا آرمی کو اس کے حجم کے مطابق تراشنا ہے لیکن معاملات ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔ مشرف کے وکیل نے ’’سسلیئن ڈیفنس‘‘ کا ذکر کر کے پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔ قادری ممکن ہے انھی کی تخلیق ہو جب کہ سیاسی طور پر شریف برادران بھی خاکی وردی والوں کی تخلیق ہیں۔ اس طرح تو الماری میں بہت سے ڈھانچے گھسیٹ کر باہر نکالے جا سکتے ہیں۔

شریف برادران کے لیے بہت کچھ ہو رہا ہے۔ چین بہت سے منصوبوں کے لیے پیسے لگا رہا ہے۔ روس ہمیں پہلی مرتبہ چین  کے نکتہ نظر سے دیکھ رہا ہے اور بھارت کے ساتھ کشیدگی کے کم ہونے کے امکانات بھی  پیدا ہو رہے ہیں۔ اقتصادی صورتحال اگرچہ اب بھی مستحکم نہیں تاہم اس کی بہتری کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ زبیر عمر کی زیر قیادت ایک فرسٹ کلاس نجکاری ٹیم پاکستان کے سرکاری اثاثوں کو اچھی قیمت پر غیر ملکیوں کو فروخت کر رہی ہے جس کو اہم کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔ ایک دیانتدار آدمی کو پکڑیں جس میں اہلیت بھی ہو تو وہ آپ کو مثبت نتائج دے گا۔ جس طرح کیپٹن شجاعت عظیم نے پی آئی اے کی حالت بدلنا شروع کر دی ہے۔ اسی طرح اگر بعض دیگر افراد جن کی شریف فیملی سے رشتہ داریاں نہ ہوں قابل اعتماد مناصب پر تعینات کر کے اچھے اور مثبت نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

جب امریکی افواج کے افغانستان سے نکلنے کے بعد جو خلا پیدا ہو گا تو ہم پر دبائو بڑھ جائے گا۔ شام، عراق، لیبیا وغیرہ کا حال برا ہے۔ جنرل پیٹریاس نے جس عراقی فوج کی تربیت کی تھی اور جس کا بہت ڈنکا بجایا گیا تھا مگر اب وہ اسلامی ریاست عراق اور الشام (آئی ایس آئی ایس) کے مقابلے میں لڑکھڑا رہی ہے۔ اب جغرافیائی اور سیاسی صورتحال تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس حوالے سے اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے کہ 2014ء کے بعد افغان سیکیورٹی فورسز کی کیا حالت ہو گی۔ ہمارے اپنے مسائل اور امریکا کے ہمارے بارے میں تحفظات کے باوجود اس علاقے کے استحکام کے لیے پاک فوج پر ہی انحصار کیا جائے گا۔

اسلام آباد کا ڈی چوک ممکن ہے تحریر اسکوائر نہ بن سکے لیکن اگر ماڈل ٹائون جیسا زیادتی کا کوئی اور واقعہ پیش آ گیا تو اس سے ان کے لیے نہ صرف یہ کہ سیاسی مسائل پیدا ہوں گے بلکہ عین ممکن ہے کہ معاملات مکمل طور پر ہاتھ سے نکل جائیں جب کہ باہر موسم گرما کی حدت ناقابل برداشت ہے۔ تاہم جب لوگ یہ محسوس کرنے لگیں گے کہ بس بہت ہوگیا تو عین ممکن ہے کہ آرمی بھی ’’اسٹینڈ بائی‘‘ پوزیشن پر رہے اور انھیں نکلنے کا راستہ نہ دے سکے۔

مشرف کو پرواز کی اجازت دیکر اسے گوشہ گمنامی میں دھکیل دینے اوربعض وزیروں کی زبان کو لگام دینے سے شریف برادران کو اپنی ’’چک دے پھٹے‘‘ والی خواہش کو کنٹرول کرنا ہوگا ورنہ یہ خودکشی کے مترادف ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔