اک دشت ہے مکان سے میرے ملا ہوا۔۔۔

رفیع اللہ میاں  جمعـء 18 جولائی 2014

موسم کوئی بھی ہو، غزل اپنی بہار ضرور دکھاتی ہے۔ چھوٹے سے مصرعوں میں احساس اور تمنا کی اتنی شدت سمٹ آتی ہے کہ پس ِ نقطہ کائنات جیسی وسعت کا ادراک ہونے لگتا ہے۔ ایسے ہی چند اچھے اشعار کا تذکرہ ہے جو سحرتاب رومانی کے دو مجموعوں ’’گفتگو ہونے کے بعد‘‘ اور ’’ممکن‘‘ کی غزلوں میں جگمگاتے ملتے ہیں۔

اپنی ابتدائی شاعری کے آئینے میں سحرتاب ایک ٹھنڈے دل و دماغ کا آدمی ہے جو سماج اور سماجی رویوں کا مشاہدہ کسی درویش کی لاتعلقی جیسے انداز میں کرتا نظر آتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے ذہن کی دنیا میں انھیں پرکھتا ہے اور پھر کسی موقع پر وہ شعری احساس کا روپ دھار کرشعر کی صورت میں ایک تبصرہ بن کر ظہور کرتا ہے۔ اس کے بہت سارے اشعار پر تبصرے کا گمان ہوتا ہے، درحقیقت یہ اس کے طرز ادا کا مظہر ہے۔ ایسے بہت سارے اشعار ہیں جو حالات پر ایک تبصرے کی طرح محسوس ہوتے ہیں۔ ’’مقتول کی تو لاش سڑک پر پڑی رہی،قاتل کو ہر طرح سے تحفظ دیا گیا۔

ممکن ہے کل گواہی بھی میرے خلاف دے، جو شخص کہہ رہا ہے مجھے معتبر ابھی۔ پہلے پہل تو ایک سپاہی باغی تھا، رفتہ رفتہ سارا لشکر ٹوٹ گیا‘‘۔ لیکن جن اشعار میں اس کا شعری وجدان عروج پر رہا ہے وہاں شعری غنائیت یا شعری سرور واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اسے اپنے معاشرے اور اپنی ذات کے اندر شکست و ریخت کا ادراک ضرور ہے لیکن وہ اس کا اظہار کسی درویش کی طرح کرتا ہے۔ سماجی غفلت کا اظہار بھی اس کے ہاں ایک تبصرے کی طرح ملتا ہے‘ ابتدا میں اس کے ہاں نہ چوٹ ہے نہ ضرب کاری۔ سماجی انتشار یا تباہی پر بھی یا تو تبصرے کے انداز میں یا گفتگو کے انداز میں اپنے خیال کو شعری روپ دینے کا رجحان ہے۔

’’مرے سب لوگ مارے جارہے ہیں، مری آنکھوں میں خوں اترا ہوا ہے‘‘ اس طرح کے شدید ردعمل والے اکا دکا اشعار میں بھی سحرتاب کا لہجہ وہی تبصرہ کرنے یا خبر دینے کا سا ہے۔ خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی غزل کی روانی میں عصری احساس کو اس طرح سموتا ہے کہ قاری چونک پڑتا ہے۔ اس کی شکایت بھی تبصرے کے انداز میں سامنے آتی ہے۔’’بات دل کی تھی دل سے ہوجاتی، بیچ میں تم دماغ لے آئے‘‘اس قسم کے نہایت بے ساختہ تازہ کاری سے معمور اشعار سحرتاب کی شناخت بنتے جارہے ہیں۔

سحرتاب کے پہلے مجموعے کو مشق سخن قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اس مشق نے نہ صرف اس کے اسلوب کے ابتدائی خدوخال کو تشکیل دینے میں مدد دی ہے بلکہ کئی ایک نہایت اچھے اشعار بھی سامنے آئے ہیں۔ شعری سفر کی اس ابتدا میں خیال اور تکنیکی کمزوری محسوس کی جاسکتی ہے لیکن یہ سفر جیسے جیسے آگے بڑھا ہے، پختگی کے ساتھ ساتھ شعری لب و لہجے میں نکھار بھی آتا گیا ہے۔

’’آئینے کے روبرو ہونے کے بعد، گفتگو کی گفتگو ہونے کے بعد‘‘ یہ شعر جو پہلی کتاب کا عنوان بھی ہے، ایسے نادر اشعار کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے جو اپنے تخلیق کار کو معتبر ٹھہراتے ہیں۔ سادہ اشعارمیں سماجی گہرائی کو ناپنے والے شعرا کی کمی نہیں ہے لیکن بے ساختہ شعری اظہار کن اشعار کو نیاپن دیتا ہے، یہ وضاحت شاعر کے شعری نظام کے قاری پر اثرانداز ہونے کی قوت محرکہ کی شدت سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ سحرتاب کے طرز ادا میں میں کشش ہے۔’’ہر چراغ زندگی کو پھونک کر، نوحہ گر ہوگی ہوا معلوم تھا‘‘

سحرتاب نے تکنیکی طور پرچھوٹی، گنی چنی بحروں کو ترجیح دی ہے اور اپنے فن کو سادہ رکھا ہے، پُرکاری سے دور۔ اس کے اشعار ابلاغ کے در پر صرف ہلکی سی دستک کے منتظر رہتے ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ سہل ممتنع میں شعر کہتے کہتے وہ کسی عام سے نکتے کو بڑے دل کش پیرائے میں بیان کرکے اس میں نیا پن لے آتا ہے۔ یہی نکتہ ہے جو سحرتاب کو بہت سارے شاعروں کے درمیان ایک شناخت دے رہا ہے۔ سحرتاب کی غزل کا اصل حسن چھوٹی بحروں والی غزل میں جھلکتا ہے۔

ادھر اس کی بحر ذرا سی طویل ہوئی اور ادھر اسپ خیال پر سے لفظوں کی باگ پھسلنے لگی اور شاعر کی سانس ٹوٹتی محسوس ہونے لگتی ہے۔’’سنگ احساس پر ٹپکا ہوا انساں کا لہو، آگ سی سینہ گیتی پہ لگا دیتا ہے‘‘ان جیسے بھاری تراکیب والے اشعار ڈھونڈھے سے ہی مل سکتے ہیں ۔ اس نے اپنی فکر سخن تاب پر نت نئے الفاظ و تراکیب کا اضافی بوجھ نہیں ڈالا چنانچہ خیال کے جنم لیتے ہی پہلے سے موجود سادہ الفاظ ایک ترتیب میں آجاتے ہیں اور شعر کے روپ میں ڈھل جاتے ہیں۔’’اپنے غم سے نجات کی خاطر، میں ترا غم تلاش کرتا ہوں ۔ پرندے آنے والی آفتوں پر، پروں میں منہ چھپاکر رو رہے ہیں‘‘

پہلے مجموعے سے دوسرے مجموعے تک آتے آتے سحرتاب کے شعری بدن نے ایک ذرا کروٹ بدلی ہے۔ اگرچہ اس نے دوسرے مجموعے کے ایک شعر میں اظہار بھی کیا ہے کہ میں عام فہم گفتگو کرتا ہوں، میں نے کسی لفظ میں گہرائی پیدا نہیں کی لیکن ایسے متعدد اشعار سامنے آئے ہیں جو قاری سے ذرا توقف کے طلبگار ہیں۔ اسی طرح ذرا سی بڑی بحروں میں ایک کے بعد ایک غزل سامنے آتی ہے۔ تبدیلی اور ارتقا، یہ دونوں عناصر اگر شعری سفر کے ساتھ ساتھ ظہور نہ کرتے جائیں تو سارا فن وقت کی دھول میں کہیں گم ہوجاتا ہے۔

مشق سخن نے ان غزلوں کو معتبر بنانا شروع کردیا ہے یہی وجہ ہے کہ چند ایسے اشعار وجود میں آنے لگے ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔’’مجھے وہ نور میسر ہے جس سے دیر تلک، میں اپنی شب کو سحرتاب دیکھ سکتا ہوں۔ شب زادگان شہر اجالا قریب ہے، جلنے لگا ہے رات کا دامن چراغ میں۔ کل تک تلاش میں تھا جو انصاف کی سحر، وہ شخص قصر شاہی سے میزان لے گیا‘‘۔

یہ شعر خاص توجہ کا مستحق ہے ’’میں اپنے خال و خد کے باب میں لکھوں تو کیا لکھوں، میں بے چہرہ تھا گھرمیں آئینہ رکھا نہیں میں نے‘‘اس شعر کو ہم اپنے قومی وجود کی بے چہرگی کے سامنے بطور آئینہ رکھ سکتے ہیں۔ کہیں ہمارے اپنے وجود میں تضادات کی ایک گہری تہ چڑھی ہوئی ہے اور کہیں بیرونی جبر ہمیں اپنا اصل چہرہ دیکھنے نہیں دیتا۔ ایک ایسی قومی صورتحال میں جہاں ہم اپنا چہرہ دیکھنے سے قاصر ہیں، یہ شعر رہنمائی کرتا ہے کہ ہم نے اپنے سامنے وہ مثالی آئینہ رکھا ہی نہیں جس میں ہم اپنا اصل روپ دیکھنے کے قابل ہوتے۔

شعری بدن کے کروٹ کا ایک مظہر سحرتاب کے طرز ادا میں آتی ہوئی غیر محسوس تبدیلی بھی ہے جو آگے جاتے ہوئے تیزی سے اپنے خدوخال واضح کرتا جارہا ہے۔ وہ کسی درویش کی مانند پرسکون لہجے میں حالات پر تبصرہ کرکے گزرجاتا تھا لیکن حالات کا جبر اس طرز ادا پر اثرانداز ہوا ہے‘اس تبدیلی کو ان اشعارمیں دیکھا جاسکتا ہے۔’’اے سحرتاب میرے شہروں میں، سارے بونوں نے قد نکالا ہے۔ اصولوں کی لڑائی لڑ رہا ہوں، مرے پیش نظر دنیا نہیں ہے۔ وہی اک بات جو اس نے کہی تھی،اسی اک بات میں الجھا ہوا ہوں‘‘۔

اگرچہ اس کے اشعار میں اب حالات کی مذمت بھی دیکھنے میں آرہی ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ اسلوب اپنے خدوخال کی وضاحت کے لیے ابھی بہت ریاضت کی متقاضی ہے۔سحرتاب کا شعری سفر ابھی جاری ہے۔ ان دو مجموعوں کے بعد وہ بہت ساری غزلیں کہہ چکا ہے۔ اس مشق سخن نے اسے کئی گوہر نایاب بخشے ہیں۔ اپنی اس گفتگو کا اختتام اس شعر پر کرتا ہوں جو شہر سخن کے دروبام پر نقش ہوتا جارہا ہے: دیوار و در سے وحشتیں جاتی نہیں سحر، اک دشت ہے مکان سے میرے ملا ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔