تعلیم کا مطلب علم اور تجربے کو دانائی اور عشق میں تبدیل کرنا ہے

توحید احمد  اتوار 20 جولائی 2014
عظیم متشرق آنماری شمل کی زندگی کی کہانی اُنہیں کی زبانی۔ فوٹو: فائل

عظیم متشرق آنماری شمل کی زندگی کی کہانی اُنہیں کی زبانی۔ فوٹو: فائل

ڈاکٹر آنماری شمل (1922-2003ء) شاید مغربی دُنیا کی عظیم ترین مستشرق تھیں۔ اسلامی دُنیا کی بڑی ثقافتیں اور زبانیں ان کی نظر میں تھیں۔

جرمن ان کی مادری زبان تھی لیکن اس کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی، سویڈش، ڈچ اور عربی، فارسی، ترکی، ہندی، اُردو، سندھی، پنجابی، پشتو پر انہیں دسترس حاصل تھی۔ 100 سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں اور 1000 سے زیادہ مقالے لکھے۔ رومی اور اقبال ان کے پسندیدہ شاعر تھے جن کے کلام سے انہوں نے فیض حاصل کیا اور ان پر ڈھیر ساری کتابیں شائع کیں۔

پاکستان پر ان کے بہت سارے احسان ہیں جس میں ان کی 1965ء میں شائع ہونے والی جرمن زبان کی کتاب شامل ہے جس کا عنوان تھا ’پاکستان‘ ہزار دروازوں والا ایک قلعہ ’’جس کا اُردو ترجمہ شاید ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا۔ لاہور میں جیل روڈ پر کنال سے لے کر مال روڈ تک کی سڑک کو 1982ء میں ان کا نام دیا گیا تھا جس کا ذکر ڈاکٹر شمل نے اس لیکچر میں بھی کیا۔ افسوس اس کا اب کوئی نشان نہیں ملتا۔ ’’میری علمی زندگی کا سفر‘‘ ان کے ایک سوانحی لیکچر کا ترجمہ ہے جو انہوں نے 1993ء میں American Council of Learned Societies کے سالانہ اجلاس منعقدہ ولیمس برگ، ورجینیا میں انگریزی زبان میں دیا تھا۔

ڈاکٹر آنماری شمل کے اس سوانحی لیکچر کو پاکستان کے سابق سفارتکار توحید احمد نے اردو میں منتقل کیا ہے۔ سفارتکاری سے طویل وابستگی کے ساتھ علم و ادب کا گہرا شغف ان کا امتیاز رہا۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وسطی جرمنی کے ایک خوبصورت شہر ایر فرٹ میں ایک ننھی سی لڑکی رہتی تھی۔ ایرفرٹ میں کئی عظیم گاتھی گرجا گھر تھے، وہ شہر باغبانی کے لئے مشہور تھا۔ قرون وسطٰی کا عظیم صوفی مائسٹر اکہارٹ یہاں پر درس دیا کرتا تھا۔ مارٹن لوتھر نے اسی شہر میں واقع آگسٹیس خانقاہ میں راہب کے طور پر حلف اُٹھایا اور اس کی فصیلوں کے اندر کئی سال گزارے۔ گویتھے نے بھی ایر فرٹ ہی میں شہنشاہ نپولین سے ملاقات کی کیونکہ کلاسیکی جرمن ادب کے مراکز وائمر اور جینا ایر فرٹ کی قریب ہی کچھ گھنٹے کی گھڑ سواری یا بگھی کی مسافت پر واقع تھے۔

اس ننھی بچی کو مطالعہ اور ڈرائنگ کا شوق تھا لیکن وہ کھلی ہوا میں کھیلنے کودنے کو قطعاً پسند نہ کرتی تھی۔ چونکہ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اور واحد اولاد تھی جو انہیں کافی ادھیڑ عمر میں نصیب ہوئی تھی، انہوں نے اپنی بیٹی کو بے حد پیار اور شفقت سے پالا پوسا۔ اس کا والد وسطٰی جرمنی کے شہر ارزگے برگے کے قریب محکمہ ڈاک و تار میں ملازمت کرتا تھا۔

اس کی والدہ کا شمالی جرمنی میں ہالینڈ کے بارڈر کے قریب رہائش پذیر ایک ایسے خاندان سے تعلق تھا جو صدیوں سے جہاز رانی کے پیشے سے منسلک تھا۔ والد ایک نرم رو اور شریف شخص تھا، مختلف مذاہب کے صوفیانہ ادب کا شوقین جبکہ والدہ شمالی جرمنی کی کٹّر پروٹسٹنٹ روایات میں پلی بڑھی تھی۔ نانی کے گائوں میں گرمیوں کی چھٹیاں گزار کر خوب مزہ آتا جہاں یہ رشتہ دار راس افریقہ کے گرد اور ہند کی جانب خطرناک بحری سفر یا پھرقیمتی سامان سے لدے نانا کے کھٹارا جہاز کو سو دن سے زیادہ سفر کے بعد ڈوبنے کے قصوں سے لطف اندوز ہوتی تھی۔

والد اور والدہ دونوں شاعری کے دلدادہ تھے اور والد صاحب تو اتوار کی دوپہروں میں جرمن شاعری اور بعد میں فرانسیسی کلاسیکی ادب باآواز بلند پڑھ کر سناتے۔

اس ننھی لڑکی کے پاس پریوں کی کہانیوں کی ایک کتاب تھی جو 1872ء میں شائع ہوئی تھی۔ سات سال کی عمر میں وہ اس کتاب کی پرانی طرز کی لکھاوٹ (جس کی باقاعدہ اصلاح 1900 میں کی گئی) سے ہجوں کی غلطیاں نکالتی، یوں اُس نے زندگی میں آئندہ چل کر ہزار ہا مضمونوں کے پروف پڑھنے کے لئے خود کو تیار کیا۔ اس کتاب کی ایک کہانی تو اسے ازبر ہو گئی تھی جو اسے زندگی بھر کسی دوسری کتاب میں دیکھنے کو نہ ملی۔

اس کا عنوان تھا ’’پدمانا با اور حسن‘‘ ایسے ہندی بھگت کی کہانی جو کبھی دمشق آ کر ایک عرب لڑکے کو روحانی زندگی کے اسرار بتاتا ہے اور اسے ایک ایسے زیر زمین مال خانے میں لے جاتا ہے جہاں عظیم بادشاہ کا تابوت رکھا تھا، اور ہوش اُڑا دینے والے جواہرات سے بھرا پڑا تھا۔ اس تابوت پر یہ عبارت کندہ تھی ’’لوگ سوئے ہوئے ہیں اور موت آنے پر جاگ اُٹھیں گے‘‘ دس سال بعد جب اس ننھی سی لڑکی کی عمر 18 سال کو پہنچی تو اسے معلوم ہوا کہ یہ الفاظ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی ایک حدیث ہے جو اسلامی دُنیا کے صوفیاء اور شعرا بہت پسند کرتے ہیں۔

اس لڑکی کو اسکول جانا اچھا لگتا تھا جہاں فرانسیسی اور لاطینی جیسی زبانیں اس کے پسندیدہ مضمون تھے۔ جب وہ پندرہ سال کی ہوئی تو اسے عربی زبان کا ایک اُستاد مل گیا۔ پہلے ہفتے ہی میں وہ عربی مطالعہ کی دلدادہ ہو گئی کیونکہ استاد نے اسے نہ صرف عربی گرائمر سے روشناس کرایا بلکہ اسلامی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں بھی معلومات بہم پہنچائیں۔ عربی کا سبق ہر جمعرات کو ہوتا تھا جس دن کا اسے اندر ہی اندر شدت سے انتظار رہتا تھا۔

اس بات کا اخفاء اس لیے ضروری تھا کہ اُس وقت کے جرمنی میں کسی جرمن کا سامی سلسلے کی کسی زبان کا سیکھنا پسندیدہ بات نہ تھی۔ آگے چل کر اس لڑکی نے ایک سال میں دو جماعتوں کے امتحان پاس کر کے 16 سال کی عمر میں ہائی اسکول ختم کر لیا۔ افسوس کہ اسے انگریزی زبان کا سات سالہ کورس صرف چھ ماہ میں ختم کرنا پڑا جس کی وجہ سے ہائی سکول کے بہترین مجموعی نتیجہ میں سب سے کم نمبر انگریزی میں تھے۔ شاید اسی لئے ربّ کریم نے ضروری سمجھا کہ آگے چل کر اسے ہارورڈ یونیورسٹی بھیجا جائے تاکہ اس کی انگریزی کچھ بہتر ہو سکے۔

جنگ کے دوران برلن میں پڑھائی جاری رکھنا کم از کم میرے لئے تلخ سیاسی حقائق سے دور رہنے کے برابر تھا۔ میرے استاد اپنے اپنے شعبہ کے چوٹی کے ماہرین میں شمار ہوتے تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر ہماری فیکلٹی میں ایک خاتون پروفیسر بھی تھیں آنماری فون گابیں (جن کا 1993ء میں انتقال ہوا) جنہوں نے مجھے تُرک علوم سے روشناس کرایا۔ میں ان کی بہت ممنون ہوں اور انہیں اپنی ’’آپا‘‘ کا درجہ دیتی تھی۔ رچرڈ ہارٹمین نے کلاسیکی عربی اور عثمانی ترک زبانوں کے تاریخی اور تنقیدی رویوں کی تعلیم دی۔ ہانس ہائیزش شیڈر جو ایک عبقری پروفیسر تھا ہمیں عمومی تاریخ اور ثقافت کی تعلیم کی اوج تک لے گیا۔

مولٰینا رومی میں میرے شوق کو دیکھتے ہوئے (جو شوق رکرٹ کے مولٰینا کی نظموں کے آزاد تراجم سے بھڑکا تھا) اس نے مجھے مشورہ دیا کہ میں آر۔ اے۔ نکلسن کے دیوان شمس تبریز کی نظموں کے انتخاب کا انگریزی ترجمہ اور لوئی ماسی نیوں کے شہید صوفی منصور حلاج کے مطالعات کو پڑھوں۔ تین ماہ بعد 1940ء کی کرسمس پر میں نے رومی اور حلاج کے چند اشعار کا جرمن ترجمہ کر کے پروفیسر شیڈر کو حیران کر دیا۔

اسی ضمن میں شیڈر نے مجھے جان ڈن کی شاعری پڑھنے کا مشورہ بھی دیا جس نے مجھے ایسا مسحور کیا کہ 20 سال بعد میں نے اس کی نظموں کا جرمن ترجمہ شائع کیا کیونکہ اس کا اسلوب میرے محبوب فارسی شعرا کے بہت قریب ہے۔

جنگ کے گہرے بادل اب زیادہ سے زیادہ ہیبت ناک ہوتے جا رہے تھے اور بمباری شدت پکڑتی جا رہی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میں برلن کی جلتی ہوئی گلیوں میں چار گھنٹے دیوانہ وار اپنے ایک ہم کار کی تلاش میں ماری ماری پھرتی رہی تھی یا پھر ان دوستوں کی پناہ کاانتظام کرتی جن کا سب کچھ جنگ میں میں برباد ہو گیا تھا۔ وزارت خارجہ میں جن تاروں کی کوڈ کشائی کرتی ان سے بگڑتے ہوئے سیاسی حالات کی بابت معلومات حاصل ہوتی رہتیں۔

ہمارے وزارت خارجہ کے دفتر کو سیکورٹی کے بگڑتے ہوئے حالات کے پیش نظر برلن سے وسطی جرمنی منتقل کر دیا گیا۔ سیکنی کے ایک چھوٹے سے گائوں میں ہمیں امریکنوں نے گرفتا ر کر لیا۔ ایک تہہ خانے میں ہم نے ایک ہفتہ قید میں گزارا۔ جنگ بندی کے دن ہمیں مار برگ کے شہر منتقل کر دیا گیا جہاں ہم نے یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں گرمیوں کے موسم کی قید کاٹی جو ہماری خوش بختی تھی کہ کم از کم ہمارے سر پر چھت تھی گو خوراک کی سخت راشن بندی تھی۔ ہم نے جلد ہی ایک قسم کی کیمپ یونیورسٹی قائم کر لی جہاں ہم اس چھوٹی سی عجیب و غریب کالونی میں رہن سہن کے گُر ایک دوسرے سے سیکھتے سکھاتے تھے۔

ایک دن وہاں ایک اہم ملاقاتی ہم سے ملنے آیا۔ وہ دینیات کا مشہور مورخ اور حال ہی میں پھر سے کھلنے والی ماربرگ یونیورسٹی کی آرٹس فیکلٹی کا ڈین فریڈرشنی ہائیلر تھا۔ اس نے مجھے اپنے گھر بلایا اور پوچھا کہ کیا میں ماربرگ میں قیام کرنا چاہوں گی۔ ان کو عربی اور اسلامیات کے ایک پروفیسر کی ضرورت تھی کیونکہ ان کا پچھلا پروفیسر کٹّر نازی نکلا تھا۔ میں ششدر رہ گئی 12 جنوری 1946ء کو میں نے 24 سال کی عمر میں اپنا پہلا لیکچر دیا۔ اس قدامت پسند شہر مار برگ میں اس واقعہ نے کافی کھلبلی پیدا کی۔

مشرقی لسانیات کے ایک جدید طالب علم کے لئے یہ ناقابل یقین ہو گا لیکن ہم اُس وقت تک کبھی کسی عرب شخص کو نہ ملے تھے،چہ جائیکہ کسی عرب ملک کی یونیورسٹی میں کچھ وقت گزارا ہو۔ بعد از جنگ جرمنی میں کسی ہمسائے ملک تک کا سفر بھی ایک عظیم وقوعہ ہوتا تھا۔ اس قسم کا وقوعہ 1950ء میں پیش آیا جب میں نے ایمسٹرڈیم کے شہر میں منعقدہ مذہب کی تاریخ پر پہلی عالمی کانفرنس میں شرکت کی جس کے دوران مجھے اس میدان کے چوٹی کے ماہرین کی تقاریر سننے کو ملیں۔ ان میں لوئی ماسی نیوں بھی شامل تھا جو مجھے گوشت پوشت کے بغیر ایک سفید ہیولاٰ ہی نظر آیا۔ ایک ایسا صوفی جس نے افتاد گان خاک کے حق میں مسلسل جدوجہد کی، الجزائری مسلمانوں کی حمایت میں کھڑا ہوا اور ایک ایسا صوفی تھا جس کی ذات میں جنون اور محبت یکجا ہو گئے تھے۔

کچھ عرصہ بعد مار برگ یونیورسٹی کے کلیہ الہیات نے مجھے مذہب کی تاریخ کے مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی۔ لیکن اس کے کچھ دیر بعد ہیین صوبہ کے پروٹسٹنٹ گرجے کے مقتدروں نے یونیورسٹی کو اس مضمون میں اس قسم کی ڈگری عطا کرنے سے منع کر دیا کیونکہ غیر عیسائی مذاہب کے مطالعہ کی جانب یونیورسٹی کے آدرش گرجا کے رویہ سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ اس رویہ میں کیا یہ خوف پنہاں نہیں تھا کہ کہیں ایک غیر پروٹسٹنٹ ایک پروٹسٹنٹ یونیورسٹی سے کوئی ڈگری نہ حاصل کر لے؟

1951ء کی بہار میں مجھے مختصر دورہ پر سوئیٹرز لینڈ جانے کا اتفاق ہوا جہاں میری ملاقات فلسفی روڈولف پان وٹز سے ہوئی جس کے مسحور کن نظام استدلال سے جرمن خواں دُنیا میں بہت کم لوگ واقف تھے۔ اس نے مجھے ہند مسلم فلسفی محمد اقبال کے خیالات کے بہتر فہم سے شناسا کیا۔ اسی وقت میری ملاقات صوفی ازم کے عظیم استاد فرٹنر مائیر سے ہوئی جو کہ ہر ایک کا مرغوب ماڈل تھا جس سے آگے چل کر ایسی عظیم دوستی بنی جو آج تک قائم ہے۔

1952ء میں ایک عہد ساز وقوعہ ہوا یعنی میرا پہلی بار تُرکی جانا ۔ مجھے استنبول میں اسلامی مناجات کے چند مخطوطات پر تحقیق کے لئے ایک مختصر وظیفہ ملا۔ پہلی ہی بار مجھے استنبول سے عشق ہو گیا۔ ترک دوستوں کی عظیم مہمان نوازی نے میرا دل موہ لیا۔ اس پہلے عرصہ کے خاتمے پر میرے پاس کچھ رقم بچ گئی تھی کہ میں اپنے دل کی خواہش پوری کر سکوں۔ میں جہاز کے ذریعے قونیا میں مولینا جلال الدین رومی کے مزار پر حاضر ہوئی۔

اتنا عرصہ ان کی ولولہ انگیز شاعری کو پڑھتے اور ترجمہ کرتے ہو گئے تھے کہ مجھے بہرحال قونیا جانا ہی تھا جو اس وقت ایک چھوٹا سا خاموش شہر تھا۔ جس نے مجھے نادم نہیں کیا (جیسا کہ وہ اب کرتا ہے کیونکہ وہاں اب ہر جانب روح کش فلک بوس رہائشی عمارتیں آراستہ ہیں) رات کے دوران طوفان باد و باراں نے اس کی گلیوں اور چھوٹے چھوٹے باغات کو جنت نظیر بنا ڈالا تھا۔ سڑکوں پر بید مشک ’’اِگدے‘‘ کی مہک کا راج تھا۔تب مجھے سمجھ آیا کہ رومی کے شعر میں بہار کے اتنے نغمے کیوں گندھے ہیں۔ رومی جانتا تھا کہ یہ رعد و برق اسرافیل کے صور کی مانند ہے جو بظاہر مردہ جانوں میں دوبارہ زندگی پھونکے جانے کا اعلان کرتا ہے۔ اور کیا اب قونیا کے درختوں نے جنت کی سبزپوشاک نہ اوڑھ لی تھی؟

مجھے ترکی اس قدر پسند آیا کہ اگلے سال بغیر کسی وظیفہ کے استنبول پہنچ گئی۔ مُڑ کے دیکھوں تو پہلے دو دورے کامل سرمستی کے دن لگتے ہیں۔ لائبریریوں میں پڑھائی کے علاوہ مجھے استنبول میں پیدل سیر کرنے سے ازحد خوشی ملتی۔ آیا صوفیہ کی خوبصورت لائبریری کے انچارج پڑھائی کے بعد مجھے لائبریری کے کونے کونے کی سیر کرواتے اور ہر کونے پر ایک نظم سناتے۔ یوں میں نے شاعری کے ذریعے استنبول شہر سے شناسائی حاصل کی۔

اکثر میں وہاں کے معروف ادیبوں کی محفلوں میں شریک ہو کر جدید ادب کی بحث میں شامل ہوتی۔

دوسرے دورے میں مجھے ترک ثقافت کے ایک اور پہلو تک رسائی حاصل ہوئی، کامیاب کاروباری شخصیات کی محافل جہاں وہ رات رات بھر خاموش استغراق میں بیٹھے رہتے اور پھر وہ ادبا اور صوفیوں میں بڑے نام والی بسمیحہ ایئرویدی بھی مجھے یاد آتی ہے جس نے روایتی طرز زندگی پر متعدد کتابیں اور مقالے تصنیف کئے۔

اس کے ہاں میں نے عثمانی ترک ثقافت کے بارے میں بہت کچھ جانا۔ بسمیحہ اور اس کے خاندان والوں نے میری آنکھوں کو اسلامی فنون لطیفہ خصوصاً خطاطی کے ازلی حسن سے روشناس کرایا۔

وہ لمبے ڈولتے جملوں میں گفتگو کرتی تو اس کے منہ سے پھول جھڑتے۔ جو اُڑ اُڑ کر باسفورس کے آسمان پر گلاب کے بادلوں کی طرح سج جاتے۔ چند ہفتے قبل مارچ 1993ء میں بسمیحہ انتقال کر گئیں جس سے تین روز قبل ان کے سرہانے پر میں نے ان کے ہاتھوں کا آخری بوسہ لیا تھا۔

ہر طبقے کے اتنے ڈھیر سارے لوگوں کی فراخدلانہ شفقت کے بعد جرمنی مجھے غیر ہمدردانہ جگہ لگی۔ پس یوں ہوا کہ میں نے عیسائی خاتون ہوتے ہوئے بھی انقرہ یونیورسٹی کے نوزائیدہ کلیہ شریعہ اسلامیہ میں ترکی زبان میں مذاہب کی تاریخ کی تدریس کی پیش کش قبول کر لی۔ اس تعیناتی میں گذرنے والے پانچ سال حسین، سبق آموز اور جانفشانی کا عرصہ تھا۔ ہر سال میری والدہ میرے ساتھ آ کر کئی ماہ گزارتیں اور ہم دونوں انا طولیہ کی سرزمین کی لمبی گرد آلود راہیں پھرولتے، ایسے یادگار سفر جن میں قرون وسطیٰ کا بزرگ ترک شاعر یونس ایمرے ہمارا رفیق ہوتا۔ انقرہ میں گزارے اس عرصہ میں مجھے کئی گائوں اور چھوٹی چھوٹی بستیاں دیکھنے کا موقع ملا۔ بوڑھی عورتوں کی پاکبازی ملاحظہ کی اور صوفیوں اور عام لوگوں سے مذہبی حقیقت کے بارے سوالات پر گفتگو کی اور اسلامی ریت و رواج کی بہت ساری سمجھ ملی۔

میرے بہت سے ایسے جاننے والے بھی تھے جو اتا ترک کے نظریوں کے حامی تھے اور مجھے معاصر ترکی کے دو رویوں میں تفاوت سال بہ سال بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ ایک طرف تو اپنی اسلامی، ترک وراثت کو چھوڑ کر سطحی طور پر خود کو امریکی بنانے والے ہیں تو دوسری جانب اس کے ردعمل میں شرعی ’’بنیاد پرستی‘‘ کا کٹّر موقف رکھنے والے ترک ہیں۔

ایک بار قونیہ پہنچنے پر 17 دسمبر 1954ء کو رومی کے عرس کی تقریبات میں مجھے ایک مقالہ پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ 1925ء میں اتاترک کی لگائی پابندیوں کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب بوڑھے درویش سمع کے صوفی کانسرٹ اور وجدی رقص کے لئے جمع ہوئے تھے۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے ایک نجی محفل میں ان درویشوں کو تتلیوں کی مانند رقصاں دیکھا اور اس کے ساتھ بجنے والی مسحور کن موسیقی بھی سنی تھی۔ یوں رومی میری زندگی میں ایسا داخل ہوئے کہ آج تک میرے شوق کا منبع اور سہارا ہیں۔اب یہ درویشی رقص سیاحوں کے لئے محض ایک روایتی دلچسپی بن کر رہ گیا ہے۔ پانچ سال بعد اپنے علمی کام میں تعطل آنے کے بعد میں ماربرگ واپس چلی آئی جس پر میرے رفقا کار زیادہ خوش نظر نہ آئے۔

میری زندگی میں ایک نیا رنگ ابھرا۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی میں محمد اقبال (1877-1938ء) کے کام کو سراہتی تھی جو کہ ہند مسلم شاعر تھا۔ اسے پاکستانی اپنا روحانی باپ مانتے ہیں۔ اقبال نے اپنے کلام میں رومی اور گوئیتھے کی شکلوں میں مشرق اور مغرب کے انداز کو نہایت دلچسپ انداز سے ملایا ہے۔ 1947ء میں پاکستان کے قیام کے بعد میں نے اقبال پر چند کتب حاصل کیں۔ ایک حیرت ناک حسن اتفاق سے میری ملاقات ایک بوڑھے جرمن شاعر سے ہوئی جس نے اقبال کی چند نظموں کے انگریزی تراجم کو منظوم جرمن زبان میں ڈھالا۔یہ ملاقات میرے دوست فلاسفر روڈولف پانا وٹنر کی وساطت سے طے پائی تھی۔ اس نے اپنے تراجم کو لاہور بھجوا دیا۔ جہاں وہ آج بھی اقبال میوزیم میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

اقبال نے اس کو اپنے دو فارسی کے دیوان بھجوائے چونکہ فارسی پڑھ نہیں سکتا تھا وہ دونوں نسخے ہانس ماٹینکے نے مجھے پیش کر دیئے۔ ان میں ایک پیام مشرق تھا جو اقبال کا گویتھے کے West Ostlicher Divan کا جواب تھا اور دوسرا نسخہ جاوید نامہ کا تھا جو روح کے سات آسمانوں کے سفر کی روئداد ہے۔ میں نے جلد ہی جاوید نامہ کا جرمن زبان میں منظوم ترجمہ کر ڈالا۔ مجھ پر اس دیوان نے ایسا جادو کر ڈالا تھا کہ میں اس اعلیٰ اصلاحی اور گہری صوفیانہ سوچ کی بابت ہر وقت گفتگو کرتی رہتی۔ تب میرے ترک دوستوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اس ایپک کا ترکی نثر میں ترجمہ مع شرح شائع کروں۔ اس پر مجھے پہلی بار 1958ء میں پاکستان سے دعوت نامہ موصول ہوا۔

مجھے اس ملک کی مختلف زبانیں، ادب اور خاص طور سے دریائے سندھ کے علاقہ کی زبان سندھی سے پیار ہو گیا۔ شاہ عبداللطیف اور اس کے شاگردوں کے صوفی نغمے سننا مجھے مسلسل روحانی لطف دیتا۔ اس کلام کا ہندی بھکتی عنصر خاص طور پر عورت کی روح کی نمائندہ حیثیت سے اپنے ازلی عاشق کی تلاش کے بیان نے مجھے برسوں مسحور رکھا۔ مجھے اپنے بچپن میں پڑھی کہانی کا وہ بوڑھا دانا پدمانابا یاد آ جاتا جو اس نوجوان عرب شہزادے کو بے شمار بزرگوں کی ویرانوں میں واقع قبروں کے سائے میں تصوف کے اسرار سمجھاتا تھا۔جبکہ قبرستان کی دیواروں سے یہ الفاظ گونجتے تھے۔ ’’لوگ سوئے ہوئے ہیں اور موت آنے پر جاگ اُٹھیں گے‘‘ سندھی موسیقی کے آہنگ کے دھیمائے اُتار چڑھائو نے مجھ میں ہندوستانی موسیقی کا خصوصی طور پر اور مشرقی موسیقی کا عمومی طور سے گہرا لگائو جگایا۔

ترکی چھوڑنے کے بعد میں نے زیادہ تر پاکستان پر ہی کام کیا۔ آج تک میں نے اس ملک کے بے شمار دورے کئے ہیں۔ جن میں، میں نے اس وسیع ملک کے کونے کُھدرے چھان مارے۔ سندھ کے میدانی علاقوں ’جن میں ہر طرف چھوٹے چھوٹے مزار بکھرے ہیں‘ سے لے کر شمال کے پہاڑی علاقے تک۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ میرے کوئی تیس عدد دوروں کا اوج کیا تھا۔ کیا وہ اسلام آباد کی چمکیلی صبح تھی جس دن مجھے ایک تقریب میں اس ملک کے اعلیٰ ترین تمغہ ہلال پاکستان سے نوازا گیا۔ یا پھر 15000 فٹ بلندی پر درۂ خنجراب کی جانب بذریعہ کار سفر تھا؟ یا نانگا پربت کے پہاڑ کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ کے مخرج کی جانب ہوائی سفر یا پھر غریب سے غریب گائوں میں ملنے والی ناقابل یقین مہمان نوازی تھی، جیسے جب ایک اجنبی چوکیدار کمال شفقت سے بھاگ کر اپنی جرمن مہمان کے لئے پانی کا گلاس لے کر آیا۔

جنوبی بلوچستان کے شہر لسبیلہ اور پھر مکران کے پہاڑوں میں واقع ہنگل کالی دیوی کے مقدس غار کا سفر جو شروع تو ایک چھوٹے سے ہیلی کوپٹر میں ہوا لیکن اس غار تک ہمیں اونٹ پر بیٹھ کر جانا پڑا۔ میں نے اس ملک کی سیاسی تبدیلیاں بھی دیکھیں۔ اس ملک کے متنوع ثقافتی رنگ اور اتنے ڈھیر سارے لوگوں کی دوستی (جن کی اکثریت مجھے میرے ٹی وی پروگراموں کی وجہ سے جانتی تھی) کی وجہ سے میں پاکستان کو اپنا گھر ہی سمجھتی تھی۔

پاکستان اور پورے برصغیر سے میرے لگائو کو ایک حیران کن جانب سے کمک ملی۔ میں نے 1960ء میں ماربرگ میں مذہب کی تاریخ پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد میں ہاتھ بٹایا تھا۔ اس کے پانچ سال بعد میرے امریکی ساتھیوں نے اس موضوع پر کلرمونٹ کیلی فورنیا میں اگلی کانفرنس کے انعقاد کے لئے مدد مانگی۔ یہ میرا امریکہ کا پہلا دورہ تھا اور مجھے ڈزنی لینڈ سے لے کر گرینڈ کینن اور نیویارک کی سیر کر کے بڑا مزہ آیا۔ اس کانفرنس میں میرے لئے زیادہ الجھن ولفرڈ کنیٹویل اسمتھ کے اس سوال نے پیدا کی کہ آیا میں ہاروڈ یونیورسٹی آ کر ہند مسلم ثقافت پڑھانا چاہوں گی۔ اس وقت میرے پاس اس پیشکش کو رد کرنے یا قبولیت سے ہچکچانے کی ایک اور وجہ بھی تھی۔ 1961ء میں بون شہر میں سکونت اختیار کرنے کے بعد میں نے 1963ء میں عربی زبان میں ایک ثقافتی جریدہ جاری کیا تھا جو ایک معیاری اور خوبصورت اشاعت کی شہرت رکھتا تھا۔

تاہم ہاروڈ سے آئی پیشکش کو کون ٹھکرا سکتا ہے۔ آخرکار میں نے ہامی بھرلی۔

ہارورڈ سے میرا معاہدہ جولائی 1966ء سے شروع ہوا لیکن میں نے شروع کے مہینے بھارت اور پاکستان سے کتابیں منگوانے میں صرف کئے۔ ایک دفعہ ایران سے واپسی پر میں افغانستان رکی جس کے قدرتی مناظر نے میرا دل موہ لیا۔ کیا بند امیر کی نیلگوں جھیل کسی بچپن کے خواب کا منظر نہیں پیش کرتی؟ بعد میں کئی دفعہ میں افغانستان گئی جہاں میں نے سیستان سے بلخ اور غزنی سے ہیرات تک سفر کیا جہاں ہر جگہ اسلامی تاریخ کے آثار بکھرے ہیں جن میں فارسی شعر کی گونج مستقل سنائی دیتی ہے۔

میں کچھ عرصہ لاہور رُکی اور بھارت چلی گئی جو مجھے بتدریج مانوس لگنے لگا تھا۔ اور نہ صرف مغل آثار تعمیر والا شمالی ہند بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جنوبی ہند مجھے لبھاتا تھا۔ دکن کے شاہی شہر گلبرگہ، بدار، بیجا پور، اورنگ آباد اور گولکنڈا، حیدرآباد۔ اس علاقہ کے وسیع ادبی اور فنی ورثہ کی معلومات دنیا میں کم ہیں۔ یہاں آ کر میری آنکھیں حیرت سے کُھلی کی کُھلی رہ گئیں۔ میں نے ہارورڈ کے اپنے طلباء کو اس ورثہ کی بابت بتایا جس کی وجہ سے میں 1985ء میں میٹروپولیٹن میوزیم میں منعقد ہونے والے عظیم الشان انڈیا نمائش کے انعقاد میں کیری ویلچ کی کچھ مدد کر سکی۔

مارچ 1967ء میں ہارورڈ پہنچنے پر پہلی صبح ہونے پر میں نے وہاں کا خوفناک برفانی طوفان دیکھا۔ مجھے کسی نے یہ نہ بتایا تھا کہ ایسے طوفان کا چلنا تو ہارورڈ کا معمول ہے۔ پہلا سیمسٹر مشکل تھا۔ مجھے نہ صرف اسلامی تاریخ کے ابتدائی سبق دینے کو کہا گیا بلکہ فارسی، اُردو اور کئی اور مضامین بھی پڑھانے کو دیئے گئے۔ میں اپنے فارغ اوقات میں وائیڈنر لائبریری میں بیٹھی سینکڑوں اردو کی کتابوں کو پہلی بار فہرست کرتی جو برصغیر سے آئی تھیں۔ میں نے جب اس لائبریری کی فہرست کو پہلی بار دیکھا تو اس میں اُردو کی چھ یا سات کتب تھیں لیکن اب وائیڈنر کا شمار امریکہ میں اُردو اور سندھی کی بہترین لائبریریوں میں ہوتا ہے۔

میرا ایک مسئلہ یہ تھا کہ مجھے ایک غیر زبان میں تعلیم دینا پڑتی تھی۔ ترک زبان میں مجھے لیکچر دینا خوب پسند تھا۔ لیکن میں ہائی اسکول میں انگریزی زبان میں تقریباً فیل ہونا کبھی نہ بھولتی تھی۔ حالانکہ میں انگریزی میں کافی کتابیں شائع کر چکی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ جرمنی میں 1810ء کے بعد سے مشرقی ادب کے ہونے والے شاندار جرمن تراجم دستیاب تھے اور کبھی کسی نظم کا ترجمہ نہ ملتا تو میں خود بھی اچھے بھلے منظوم ترجمے کر ڈالتی تھی۔ ہارورڈ میں مَیں جیسے گونگی ہو گئی تھی اور اپنے طلبا کو ان خزانوں تک رسائی نہ دے پاتی تھی، یا یہ میرا شائبہ تھا۔ 1970ء میں جب ہارورڈ نے میری ملازمت کو پکا کر کے مجھے ٹینور عطا کیا تو میرے احساس تحفظ میں اضافہ ہوا۔

ہارورڈ میں ایک سمیسٹر میں دُگنا تدریسی فرائض انجام دے کر خزاں کا تقریباً سارا موسم جرمنی اور برصغیر میں گزارتی۔ میرے خیال میں اس صورت سے میری تحقیق اور میرے طلباء دونوں ہی مستفید ہوئے۔ میں نے ہر جگہ دوست بنائے لاس اینجلس کی یو سی ایل اے میں باقاعدگی سے جاتی جہاںمیں نے کئی ساری Levi-Della-Vida کانفرنسوں میں شرکت کی اور غیر متوقع طور پر 1987ء میں مجھے Levi-Della-Vida میڈل سے نوازا گیا۔ یہاں بے شمار لیکچروں کے ساتھ میں نے ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا جن کا مجموعہ میری کتاب As Through a Veil میں شائع ہوا۔ بحر اوقیانوس کے دوسرے کنارے میں سوئٹرزلینڈ اور سکینڈنیویائی ملکوں پراگ، آسٹریلیا ، مصر اور یمن لیکچروں کے سلسلے کے لئے گئی۔ 1971ء میں ایران کے ڈھائی ہزار سالہ تقریبات میں شمولیت کا بھی موقع ملا۔

مجھے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا میں کلاس روم ٹائپ رائٹر اور مختلف موضوعات پر اتنے ڈھیروں لیکچروں کے بعد تھک نہیں جاتی؟

تھکان کے ایسے لمحات سے میں شاید ہی کبھی دوچار ہوتی ہوں۔ اتنے ڈھیروں دلچسپ لوگوں سے مل کر اور لیکچروں کے بعد ان سے ناشتہ، لنچ اور رات کے کھانے پر گفتگو کرنے کا اپنا ایک مزہ ہے۔ فی الحقیقت مجھ سے سب سے زیادہ پوچھے جانیوالا سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر عورت ہوتے ہوئے میں سب کچھ چھوڑ کر اسلام میں کیوں دلچسپی لیتی ہوں۔ اس سوال پر میری بے چینی حتیٰ کہ غصہ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

میری علمی اور عملی زندگی میں برابری سے وسعت پیدا ہوتی رہی ہے۔ میرا امریکی کزن پال شمل جو کہ میرے والد کا ہم نام ہے جسے وہ جانتا بھی نہ تھا) ایم آئی ٹی یونیورسٹی میں استاد ہے۔ وہ اور میں دونوں ایک ہی دن امریکن آرٹس اور سائنس کی اکادمی کے رکن منتخب ہوئے۔ میرے لئے اس کا وجود خوشی کا باعث ہے میں اس پر اور اس کی محبت کرنے والی فیملی پر فخر کرتی ہوں۔ اس کی دو بیٹیاں اسلامی ثقافت میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔

اپنے طالب علموں کو پھلتے پھولتے دیکھنا (جن میں چند تو اب ریٹائرڈ سفیر یا سفیدی مائل داڑھیوں والے پروفیسر ہیں) مجھے خاص بھاتا ہے۔ روحانی زندگی کے ننھے منے بیجوں کو آگے چل کر عمدہ پُھولوں اور پھلوں میں تبدیل ہوتا دیکھنا بھی ایک منفرد تجربہ ہے۔ میں نے جب مذہب کے بارے مظہریاتی رویے کی پہچان پر دسترس حاصل کی تو جانا کہ یوں مذاہب کی ظاہری نمود کی سمجھ میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں طالب کو ہر مذہب کی روح تک رسائی ملتی ہے۔ کل بھی اور آج بھی میرا یہ یقین ہے کہ اس رویے سے ہم برداشت کی قوت حاصل کر لیں گے جس کی آج اشد ضرورت ہے اور جس کی مدد سے ہم مذہبی ہم آہنگی کی خطرناک اور انتہا پسندانہ نظریوں سے بچ سکتے ہیں۔ جو مذاہب کے درمیان تمام فرق مٹانے کے داعی ہیں۔

اس وقت کیا میں یہ خواب بھی دیکھ سکتی تھی کہ ایک دن میں (1990ء میں) مذہب کی تاریخ کی بین الاقوامی انجمن کی پہلی خاتون صدر منتخب ہو جائوں گی اور اس عہدے کو سنبھالنے والی پہلی اسلامی علوم کی ماہر ہوں گی۔ اور کیا کوئی یہ پیش گوئی کر سکتا تھا کہ 1992ء میں مجھے ایڈنبرا مدعو کیا جائے گا کہ میں قابل احترام گفورڈ لیکچروں کے سلسلہ میں ایک لیکچر دوں جس کا خواب مذہب کا ہر تاریخ دان، ماہر الہیات اور فلسفی دیکھتا رہتا ہے۔

جب میں نے 17 سال کی عمر میں اپنے دوسرے سمیسٹر کے دوران میں قرون وسطی کے عظیم اسماعیلی فلسفی ناصر خسرو کا سفرنامہ پڑھا تو کیا میں سوچ سکتی تھی کہ ہارورڈ یونیورسٹی میں میرے چند بہترین طالب علموں کا تعلق اسماعیلی فرقے سے ہو گا۔ یا کہ میرا لندن میں قائم اسماعیلی علوم کے انسٹی ٹیوٹ سے ایسا قریبی تعلق ہو جائے گا کہ میں وہاں گرمیوں میں کورس پڑھائوں گی اور جن کے لئے میں نے اسی ناصر خسرو کی ابیات کا ترجمہ کیا (اب میں شکر ادا کرتی ہوں کہ وہ انگریزی زبان میں کئے گئے منظوم تراجم تھے)۔

اور Arbeitdiens کی مشقت سے تنگ آ کر یونیورسٹی میں داخلے سے قبل میں نے ایک دن برلن کی مسجد کے امام کو خط لکھ کر درخواست کی تھی کہ وہ میرے لئے لاہور کا ایسا گھرانہ ڈھونڈیں جن کے ساتھ کچھ وقت گزار کر میں اردو سیکھ سکوں (یہ میری اس وقت کی خام خیالی ہی تو تھی) کسے معلوم تھا کہ 40 سال گزرنے کے بعد 1982ء میں لاہور کی خوبصورت ترین گلی کو میرا نام دیا جائے گا۔

میری زندگی جرمن شاعر ریلکے کے الفاظ میں پھیلتے ہوئے دائروں میں گذری ہے جو کہ مستقل تعلم کا سفر کر رہا ہے۔ تاریخ کا تعلم اور تعلم نو جیسا کہ میری زندگی میں کئی بار ہوا ہے۔ مجھے ان ملکوں کے سیاسی محور یا تناظر میں مستقل تبدیلی نے عاجز کر دیا ہے جن ملکوں سے میرا واسطہ پڑا ہے۔ اس جدید دور میں اسلامی اور غیر اسلامی معاشروں پر نظر ڈالتے ہوئے ہمیں چودھویں صدی کے شمالی افریقی تاریخ دان ابن خلدون کی تاریخ کے مدوجزر کی بابت عبقرانہ بصیرت کو پیش نظر رکھنا چاہئے جس کے مقدمہ کے کچھ حصوں کا میں نے اوائل کے تعلیمی سالوں میں ترجمہ کیا تھا۔ حوادث کے سمندروں کے زیر و بم کے پیچھے ہم، یا کم از کم میں، ہر وقت ایک اٹل طاقت کی تلاش میں رہتے ہیں۔

میرے دانشمند والدین نے مجھے یہ حقیقت مختلف طریقوں سے سکھائی۔ میرے والد کی قلب اور مذہب کی سمجھ اور میری والدہ کی بتدریج گہری ہوتی دانائی اور اس کی اپنی غیر معمولی بیٹی سے بے حد صبر کے برتائو اور اس کی مسلسل مدد کے بغیر میری زندگی کافی مختلف ہوتی۔ ایک ایسی دیہاتی عورت جو کبھی ہائی اسکول بھی نہیں گئی تھی میری والدہ نے خود کو متعلم بنایا اور میری ساری جرمن کتابوں اور مقالوں کے پروف پڑھے۔ اس کو یہ کہنا پسند تھا کہ وہ ’’عوامی آواز‘‘ کا کردار ادا کر رہی تھی اور یوں اسنے مجھے غیر ماہر عام قاری کو مخاطب کر کے لکھنا سکھایا۔لیکن اس نے مجھے صوفیانہ عشق کے خواب میں زیادہ گہرا ڈوبنے کے رویے سے بھی بچایا کیونکہ خود نہایت حساس ہوتے ہوئے اس کو یہ خوف تھا کہ کہیں میں اپنے ہوش اور تنقیدی ذہن کھو نہ بیٹھوں۔

گو کہ اب لگتا ہے کہ میرے تعلم کا سفر اپنے اختتام کے قریب ہے، تاہم میں سمجھتی ہوں کہ ہر لمحہ، چاہے کتنا تلخ ہی کیوں نہ ہو ہمیں کچھ نہ کچھ سکھاتا ہے کیونکہ تعلیم کی کوئی حد نہیں ہے جیسے کہ زندگی کی کوئی حد نہیں ہے اور جب اقبال ایک حوصلہ مند جملے میں اعلان کرتا ہے کہ ’’جنت کوئی ہالیڈے نہیں ہے‘‘ تو وہ گو دوسرے مفکروں کے اس نظریہ کی ترجمانی کرتا ہے کہ ابدی زندگی بھی مسلسل ترقی کا عمل ہو گی۔ یعنی تعلم کا۔ خدائی کے اتھا اسرار کی جانکاری کا کوئی پراسرار طریقہ، وہ خدائی جس کے اظہار کی مختلف نشانیاں ہیں۔ دکھ بھی اسی کا حصہ ہے اور زندگی میں سب سے مشکل کام صبر حاصل کرنا ہے۔

میرے نزدیک تعلیم کا مطلب علم اور تجربہ کو دانائی اور عشق میں تبدیل کرنا ہے، پختگی پانا ہے کیونکہ مشرقی روایت میں عام پتھر بھی صبر سے سورج کی کرنوں کو اندر جذب کر کے اپنے خون کی عظیم قربانی دے کر لعل بن سکتا ہے۔

شاید یہ چند سطور جو میں نے قونیا میں مولیٰنا روم کے مزار پر لکھی تھیں میرے نظریہ تعلم کی بہتر تشریح کر سکیں۔

٭٭٭

تم اس روپہلے پہاڑ تک کبھی نہ پہنچ پائو گے

جو شفق کے ڈوبتے اُجالے میں

آسمان پر خوشی کا بادل بن کر دکھائی پڑتا ہے۔

نہ تم نمک کی وہ جھیل عبور کر پائو گے

جس کا دغا باز تبسم

تڑکے کی روشنی میں تمہیں لبھاتا ہے۔

اس راہ کا ہر قدم تمہیں

مکان و گل و بہار سے دور لے جاتا ہے

کبھی اس راہ پر بادل کا سایہ رقصا نظر آئے گا

کبھی تم کسی ویران کارواں سرائے

میں سستائو گے اور دھویں

کے سیاہ گیسوئوں سے حق کو تلاش کرو گے

کبھی کسی عزیز کے ساتھ

چند قدم چل

اسے پھر گنوا دو گے۔

چلتے چلتے جلتے جلتے ہوا کاٹے گی

اور کسی چرواہے کی نے

’’خونی راہ‘‘ کا قصہ سنائے گی

جب تک تمہاری آنکھ سوکھ نہ جائے

جب تک وہ نمک کی جھیل

تمہارے خشک آنسو ہی تو تھے

جو خوشی کے پہاڑ کا عکس ہے

جو تم سے تمہارے دل سے بھی

زیادہ قریب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔