ٹی وی اسکرین پرمیڈیا انڈسٹری کے سپر اسٹار ڈاکٹرعامر لیاقت حسین کا راج

عابد اسحٰق  منگل 22 جولائی 2014
 یکم رمضان سے 17رمضان تک  1878 GRPs حاصل کر کے پاکستان رمضان ٹرانسمیشن میں مقبولیت کا ریکارڈ قائم کردیا ۔  فوٹو : ایکسپریس

یکم رمضان سے 17رمضان تک 1878 GRPs حاصل کر کے پاکستان رمضان ٹرانسمیشن میں مقبولیت کا ریکارڈ قائم کردیا ۔ فوٹو : ایکسپریس

سحر و افطار کی بابرکت ساعتوں میں دیدہ زیب لباس میں ملبوس خوبصورت اور پروقار شخصیت کے مالک ڈاکٹر عامر لیاقت حسین جب امام شیخ شرف الدین البوصیری ؒکے شہرۂ آفاق قصیدۂ بردہ شریف کے اشعار اپنے مخصوص لحن میں پڑھتے ہوئے عظیم الشان سیٹ پر نمودار ہوتے ہیں تو ایک روح پرور سماں قائم ہو جاتا ہے، اور دلوں میں ایک ہی صدا بلند ہوتی ہے :

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن چیز ہے کیا چرخِ کہن کانپ رہا ہے

رمضان میں شہر بسانے کی جو روایت چند برس قبل ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے شروع کی تھی وہ اِس برس سحر و افطار میں پیش کی جانے والی ایکسپریس میڈیا گروپ کی براہ راست نشریات ’’پاکستان رمضان‘‘ میں اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی ہے اور رمضان کی اب تک کی عظیم ترین اور بلاشبہ سب سے زیادہ عالمگیر مقبولیت حاصل کرنے والی نشریات بن گئی ہے اور یہ تمام تر کرشمہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی اس شعبے میں بلاشرکت غیرے حکمرانی کے بل پر ممکن ہوا اور شاید اُن کے بغیر ایسا ہونا ممکن ہی نہیں تھا؟

لوگوں کی بے پناہ محبت اور ذہانت کے شاندار مظاہرے کے ساتھ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے انہونی کو ہونی میں بدل دیا اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اُن کی یہ نشریات نکھرتی جا رہی ہے اور اخبارات کی شہ سرخیوں میں ڈھل رہی ہے۔

پاکستان کی سلامتی کی خصوصی دعاؤں اور پاک فوج سے اظہار یکجہتی کے ساتھ میڈیا کی تاریخ کی سب سے بڑی اور منفرد نشریات ’’پاکستان رمضان‘‘ دو عشروں کا سفر طے کر کے اب تیسرے اور آخری عشرے میں داخل ہو چکی ہے۔

پہلے ہی دن سے ناظرین کے دل جیت لینے والی اس عظیم الشان نشریات کی فقیدالمثال کامیابی اور ناظرین کی جانب سے والہانہ پذیرائی کے باعث ایکسپریس نے اپنے تمام مد مقابل ٹی وی چینلز کو مات دے دی اور مقبولیت کے تمام ریکارڈز کو پاش پاش کرتے ہوئے پہلے ہی روز ریکارڈ تعداد میں GRPs حاصل کرکے غیرمعمولی ریٹنگ کا ریکارڈ قائم کردیا جس کی اصل وجہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا دل نشین اندازِ میزبانی اور سحرانگیز ثناخوانی ہے۔

جس نے دنیا بھر میں بسنے والے کروڑوں ناظرین کے دل موہ لیے ہیں اور وہ ٹی وی اسکرین کے سامنے منجمد ہو کر رہ گئے ہیں۔ قرآن واحادیث کے برجستہ حوالوں سے مزین اُن کی متاثرکن گفتگو نے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو متاثر کیا ہے۔ تاریخ ساز نشریات کی مقبولیت میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور مسابقت کی اس دوڑ میں کوئی مدمقابل چینل ایکسپریس ٹی وی کا مقابلہ کرتا نظر نہیں آتا۔

ریٹنگ کا تعین کرنے والی معتبر اور غیرجانبدار ایجنسی میڈیا لاجک کے مطابق حالیہ رمضان نشریات کے پہلے روز ایکسپریس ٹی وی نے مد مقابل چینلز سے کئی گنا زیادہ ریٹنگ پوائنٹس حاصل کیے اور یکم رمضان سے 17رمضان تک 1878کی تعداد میں ریکارڈ GRPs حاصل کر کے ایکسپریس کی پاکستان رمضان نشریات نے تمام ٹی وی چینلز کو بہت پیچھے چھوڑ دیا، ایکسپریس کے مدمقابل تمام ہم عصر ٹی وی چینلز مل کر بھی اتنی بڑی تعداد میں ریٹنگ پوائنٹس حاصل نہیں کرپائے جتنی تن تنہا عامر لیاقت حسین کی بدولت ایکسپریس نے حاصل کرلی اور یوں وہ ملک کا سب سے مقبول ترین چینل بن کر ابھرا جو کہ بلا شبہ ایک محیر العقل کارنامہ ہے۔

پاکستان رمضان نشریات کی ریٹنگ کے حوالے سے اگر چہ ایک نجی چینل نے ناظرین کو گمراہ کرنے کی مذموم مہم چلائی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ خدانخواستہ عامر لیاقت حسین کی مقبولیت میں کمی آگئی ہے اور یہ دعویٰ ادھر ادھر سے جمع کیے گئے بھانت بھانت کے بہروپیوں کے بل پر کیا گیا جن کا رمضان نشریات سے کبھی دور کا بھی تعلق نہیں رہا، اُن پریہ مثل صادق آتی ہے کہ ’’کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔‘‘ عجلت میں کیے گئے۔

اس عارضی بندوبست کا مقصد توانائی سے بھرپور ایک ایسے شخص کو نیچا دکھانے کی ناکام کوشش تھی جو گزشتہ تیرہ برس کے دوران دنیا بھر میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کو رمضان کریم، سلام رمضان، مہمان رمضان، ایمان رمضان، پیغام رمضان، رحمان رمضان، پہچان رمضان اور امان رمضان جیسی فقیدالمثال نشریات دے چکا ہے اور جس کا نام دنیا کے500 بااثر اور مقبول ترین مسلمانوں کی فہرست میں شامل کیا گیا اور جسے حال ہی میں 100مقبول اور کامیاب ترین پاکستانیوں میں شامل کیا گیا مگر وہ جو کہتے ہیں نا کہ آسمان پر تھوکا منہ پر آتا ہے۔

بالکل اسی طرح گمراہ کن چینل کے ساتھ بھی ہوا اور یکم رمضان سے 17رمضان تک غیر جانبدار ذرائع کی جانب سے جاری ہونے والی ریٹنگ نے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کردیا، ساجھے کی ہنڈیا چوراہے پر پھوٹ گئی۔ ہم اور آپ جھوٹ بول سکتے ہیں مگر اعدادوشمار جھوٹ نہیں بولتے، اور اعدادوشمار اور ریٹنگ گرافس نے ایکسپریس اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی مقبولیت پر مہر ثبت کردی، سورج کے سامنے ننھے ننھے چراغ ٹمٹمانے لگے اور لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ

یہ اہتمامِ چراغاں بجا سہی لیکن
سحر تو ہو نہیں سکتی دیے جلانے سے

رمضان نام ہے عبادات کا، قرآن مجید کی تلاوت کا، انبیائے کرام اور اکابرین اسلام کے خوبصورت تذکرے کا، سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خراج عقیدت پیش کرنے کا، تحائف تقسیم کرنے کا، بچھڑے ہوؤں کو ملانے کا، لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا، لوگوں کو دینی رہنمائی فراہم کرنے کا، غریبوں اور مسکینوں کو عید کی خوشیوں میں شریک کرنے کا، مریضوں کی عیادت اور انہیں علاج کی سہولت فراہم کرنے کا، بزرگوں کی عزت کا، بچوں پر شفقت کا، رمضان المبارک میں وقوع پذیر ہو نے والے ایام کو احترام کے ساتھ منانے کا، دینی اور عمومی معلومات سے لوگوں کے ذہنوں کو ترو تازہ کرنے کا، طاق راتوں میں شب قدر کو تلاش کرنے کا، سحر وافطار اور طاق راتوں میں آنسوؤں کی برکھا میں اللہ رب العزت کو منانے کا اور یہ سب کچھ اگر کہیں ایک ساتھ ہو رہا ہے، مکمل روح کے مطابق ہو رہا ہے تو کہیں اور نہیں بلکہ پاکستان رمضان کے عظیم الشان سیٹ پر ہورہا ہے جسے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اس طرح پیش کررہے ہیں جس طرح کہ اُسے پیش کرنے کا حق ہے۔

رمضان تقدس کا مہینہ ہے، حرمت کا مہینہ ہے اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے اس ماہ مبارکہ کو اس کی اصل روح کے ساتھ منایا ہے، ماحول میں مزاح کی چاشنی اور پر لطف فقرے بازی تو ہوتی ہے مگر رمضان کے تقدس کو پامال نہیں کیا جاتا، اخلاقیات کی دھجیاں نہیں بکھیری جاتیں، خواتین کو بے حجابی پر مائل نہیں کیا جاتا۔ مخصوص کاروباری سوچ کے حامل ایک نجی چینل نے جس طرح رمضان کے تقدس کو بالائے طاق رکھ کر محض کمرشلزم اور ریٹنگ کی دوڑ کو ترجیح دی وہ قابل مذمت ہے اور اُن دینی و صحافتی حلقوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے جو ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور رمضان کو تماشا بنانے والوں کی مذمت میں ایک لفظ کی ادائیگی سے بھی قاصر ہیں حالانکہ ماضی میں وہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتے رہے ہیں اور معمولی باتوں کو عذر بنا کر شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے کے حوالے سے خاص شہرت رکھتے ہیں۔

عامر لیاقت حسین در حقیقت ایک ایسی کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں کہ جو ٹرینڈ وہ سیٹ کر دیتے ہیں وہی لو گوں کے دلوں کو بھا جاتا ہے۔ جب وہ نشریات کا آغاز قصیدہ بردہ شریف سے کرتے ہیں تو یہ انداز بھی لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لیتا ہے اور جب وہ مجھ ناچیز کا تحریر کردہ گیت ’’رمضان، رمضان، رمضان کا فیضان، اللہ کا احسان ہم سب کا پاکستان‘‘ گنگناتے ہیں تو یہ بھی رمضان کا ایک سپرہٹ گیت ثابت ہوتا ہے اور جب وہ کہتے ہیں:’’تُکّا لگاؤ مسلمانو!‘‘ تو بھی لوگوں کے دل جیت لیتے ہیں۔

بلاشبہ وہ ایک نہایت ذہین اور گوناگوں صلاحیتوں سے مالا مال انسان ہیں۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین غضب کی حس مزاح رکھتے ہیں اور اِس کا مظاہرہ بارہا دیکھنے میں آتا ہے، حالیہ نشریات کے دوران اوٹ پٹانگ حرکت کرتا کوئی مہمان اُن کے ہتھے چڑھ جائے تو پھر اُس کی خیر نہیں۔ لوگوں کا جم غفیر اُن کے لیے وہی اہمیت رکھتا ہے ۔

جو مچھلی کے لیے پانی، پاکستان گھر جونہی شروع ہوتا ہے وہ لوگوں میں گھلتے مل جاتے ہیں تو پھر ایک الگ ہی رنگ میں نظر آتے ہیں اور اُن میں غیر معمولی توانائی بھر جاتی ہے۔ دراصل یہ عامر لیاقت حسین کی حس مزاح کا ایک پہلو ہے جس کا مظاہرہ وہ کم و بیش کرتے ہی رہتے ہیں، اِسے ستم ظریفی ہی کہا جائے گا کہ مزاح کو کسی اور زاویے سے دیکھا جائے۔

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے اور ان کے دل موہ لینے کا فن خوب آتا ہے جہاں اُن کا ایک فقرہ لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیر دیتا ہے وہیں اُن کی درد میں ڈوبی ہوئی گفتگو سن کر لوگوں کے رخساروں پر آنسو آبشار بن کر بہہ نکلتے ہیں اور ان کی ایک استدعا اور ایک اپیل پر لاکھوں روپے کے عطیات کے ڈھیر لگ جاتے ہیں ۔نیکی کی اس راہ میں پاکستان بیت المال بھی اُن کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے اُن کا ہم سفر بن گیا ہے۔

رات ہو یا دوپہر، گھڑیال جونہی ایک بجے کا بگل بجاتا ہے، ناظرین کی بڑی تعداد اپنے کام نمٹا کر یا کام کے دوران ہی ٹی وی کے سامنے دھرنے دے دیتے ہیں، جونہی قصیدہ بردہ شریف کا لحنِ شیریں ان کے کانوں میں رس گھولنا شروع کرتی ہے تو پھر ان کی مکمل توجہ ٹی وی اسکرین کی جانب مبذول ہو جاتی ہے اور پھر یکے بعد دیگرے دلچسپ پروگرامز کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کئی کئی گھنٹوں پر محیط نشریات کے دوران پر مزاح فقرے بھی سنائی دیتے ہیں، رمضان کی مناسبت سے گفتگو بھی سنی جاسکتی ہے، دکھی خاندان اپنی الم انگیز داستان سناتے ہوئے آتے ہیں اور واپسی پر مسکراتے ہوئے چہرے لے کر گھر کو لوٹتے ہیں کیونکہ لاکھوں روپے کی امداد سے اُن کے مسائل حل کردیے جاتے ہیں۔

مہنگا طریقۂ علاج ہو، آپریشن کے اخراجات ہوں، روزگار کا مسئلہ ہو، بہن یا بیٹی کی شادی کے لیے درکار رقم کی ضرورت ، نادار طلباء کی امداد ہو یا کوئی اور مسئلہ، اس طرح کے کئی مسائل پاکستان رمضان کے سیٹ پر حل ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اِس دوران عالم اسلام کے معروف ثناخواں حضرات کی جانب سے حمد و نعت کے نذرانے پیش کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے اور اُن کے ساتھ خود عامر لیاقت حسین بھی عشق کے رنگ بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اسی اثناء میں ’’عالم آن ایئر‘‘ کی محفل بھی سج جاتی ہے جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء اتفاق کے دائرے میں رہتے ہوئے اختلاف بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر اس کا مقصد افتراق نہیں اتفاق ہی ہوتا، یہ وہ محفل ہے جہاں محض وعظ نہیں دیا جاتا، صرف نصیحت نہیں کی جاتی بلکہ حاضرین ہاتھ بلند کرکے علمائے کرام سے اپنے سوالات کے جوابات بھی بے تکلفی سے معلوم کر سکتے ہیں۔ گرافک ڈیزائنرز کی جانب سے مثالی پاکستان کی منظر کشی کرنے والے نوجوان ہنر مندوں کو ’’دل پسند پاکستان‘‘ کے اختتام پرموٹر سائیکل سمیت قیمتی انعامات سے نوازاجانا اِس حقیقت کی عکاسی کر رہا ہے کہ ثقافتی طور پربھی یہ پروگرام ایک جداگانہ اہمیت کا حامل ہے۔

پاکستان رمضان کا ایک مقصد لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا بھی ہے، لوگوں میں بھائی چارے اور امن وآشتی کی فضا بھی قائم کرنی ہے۔ یہاں آپ کو ہر مذہب اور ہر مسلک کے لوگ ملیں گے، ہر خطے اور شہر کے لوگ ملیں گے اور ہر وضع قطع اور رنگ ونسل کے لوگ ملیں گے۔ اِن میں داڑھی والے بھی ہیں اور کلین شیو بھی، شلوار قمیص پہننے والے بھی ہیں اور پینٹ شرٹ زیب تن کرنے والے بھی، برقعے میں ملبوس خواتین بھی ہیں اور حجاب نہ کرنے والی خواتین بھی، یہاں سنی، شیعہ سمیت ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں، ڈاکٹرعامر لیاقت حسین اِن سب کو قریب لانا اور جوڑنا چاہتے ہیں کہ یہ اتحاد کی ایک لڑی میں بندھ جائیں اور یہی اس ماہِ مقدس کی اصل روح بھی ہے۔

پاکستان رمضان ہر لحاظ سے ایک مسرت انگیز نشریات ہے جس میں بڑے پیمانے پر انعامات کی تقسیم دراصل خوشیوں کے فروغ کے لیے کی جارہی ہے۔ رمضان کو برکتوں کا مہینہ کہا جاتا ہے، یہ رحمتوں، برکتوں اور انعامات کی تقسیم کا مہینہ ہے، اِسی رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں میں تحائف تقسیم کیے جارہے ہیں۔ بعض لوگ فریج خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں فریج مل جاتا ہے۔ جن کے گھر میں 19 انچ کا ٹی وی سیٹ ہے وہ 32 انچ کے ایل ای ڈی سے نواز دیے جاتے ہیں۔

اجلے کپڑے پہننے والے واشنگ مشین کے مالک بن جاتے ہیں۔ بسوں میں دھکے کھانے والے موٹرسائیکل لے کر گھر لوٹتے ہیں۔ جو کبھی گاڑی خریدنے کا خیال بھی دل میں نہیں لاتے اچانک گاڑی کے مالک بن بیٹھتے ہیں۔ ایک دوسرے سے رابطے کے خواہشمندوں کو بیش قیمت موبائل سیٹ مل جاتا ہے۔ ہونہار طلباء لیپ ٹاپ اور ٹیبلیٹ سے نوازے جاتے ہیں۔ ماؤں، بچوں، بہنوں، بیٹیوں، بھائیوں اور بزرگوں کو ملبوسات دیے جارہے ہیں۔

سیاحت کے شوقینوں کو دبئی کا ریٹرن ٹکٹ اور عمرے کے خواہش مندوں کو خانہ خدا اور روضہ رسول ﷺ کی زیارت کی سعادت نصیب ہو جاتی ہے۔ یہی اِس ماہ مبارکہ کی اصل روح ہے کہ لوگ خوش ہوں، انہیں نوازا جائے، دنیا بھر میں تہواروں پر لوگوں کو اِسی طرح انعامات بانٹ کر خوشیوں میں شریک کیا جاتا ہے، اگر رمضان میں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ایسا کرتے ہیں تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟

پاکستان گھر میں میزبان کے دلچسپ اور معلوماتی سوالات اور حاضرین کے جوابات کے علاوہ کھانے پینے، نشانہ بازی، میاں بیوی کی ذہنی ہم آہنگی، ٹنگ ٹویسٹر، فٹ بال اور فٹنس ایکسپرٹ رضوان نور کی نگرانی میں ایکسرسائز کے دلچسپ مقابلے اور اختتا می لمحات میں قرعہ اندازی کے ذریعے بڑے پیمانے پر انعامات اور تحائف کی تقسیم کا بھی اپنا ہی الگ مزہ ہے جس سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہر طبقہ عمر کے افراد پاکستان رمضان میں کھنچے چلے آتے ہیں۔

جو سوال کا درست جواب نہ دے کر انعام نہیں جیت پاتے وہ اختتامی لمحات میں ہونے والی عظیم الشان قرعہ اندازی میں شامل ہو کر بیٹھے بٹھائے قیمتی انعامات کے مالک بن جاتے ہیں اور بعض کی قسمت اُن پر اس طرح مہر بان ہوتی ہے کہ حج و عمرے کا بلاوا ہی آجاتا ہے اور لاکھوں روپے کے عمرہ و حج پیکیجز ان کے منتظر ہوتے ہیں۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ اللہ کے نزدیک کسی مومن کے دل کو خوش کرنے سے بہتر کوئی چیز نہیں اور اس ماہ مبارک میں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی جانب سے نیکی کاجو سب سے بڑا کام انجام دیا گیا وہ کئی برسوں سے گمشدہ بچوں کی تلاش میں بے قرار ماؤں کی ممتا کو قرار دینا اور بچھڑے ہوؤں کو ملانا ہے۔ پاکستان رمضان نے بچھڑے ہوئے بچوں کو والدین سے ملادیا اور میزبان کی کوششوں سے اوکاڑہ کی 9سالہ صائمہ، ملتان کا 13سالہ شاہد، کوئٹہ کی 11سالہ حسینہ اور ملتان کی 12سالہ سمیرا ایدھی سینٹر سے اپنے گھر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ بچوں سے ماؤں کے ملنے کا منظر اور اشکوں کی برسات کو شاید ناظرین کبھی فراموش نہ کرسکیں۔

عامر لیاقت حسین کے ہر عمل کی تائید عوامی حلقوں میں پذیرائی کی سند پاتی ہے اور ملک سے باہر بھی اُن کے مداح بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی شہرت دور دور تک پھیل چکی ہے اور سخت محنت پر کوئی انعام ہوتا تو بلاشبہ وہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے حصے میں آتا۔ پاکستان رمضان انتھک محنت کا ثمر اور ایک کرشمہ ہے کہ صبح وشام 15سے 20گھنٹے تک یہ نشریات پیش کی جارہی ہے، چاہے سحر ہو یا افطار ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو ہر دم چاق و چوبند اور الرٹ رہنا پڑتا ہے، وہ ہر دن اور ہر را ت براہ راست نشریات پیش کررہے ہیں۔

درجنوں کیمروں کے ساتھ درجنوں افراد ہمہ وقت تکنیکی معاونت کے لیے ان کے گرد موجود رہتے ہیں جبکہ پروڈکشن اور تحقیق کے شعبے سے منسلک کئی افراد کے علاوہ بڑی تعداد میں رضاکار سیٹ پر موجود مجمعے کو منظم رکھنے اور مہمانوں کے خیرمقدم کے لیے یہاں موجود ہیں۔ ایک ماہ تک مسلسل دن رات براہ راست نشریات کو ناظرین تک پہنچانے کے لیے موجود عملہ تن دہی سے مصروف عمل ہے۔ ڈاکٹرعامر لیاقت حسین اپنی نشریات کو خوب سے خوب تر بنانے کی جستجو میں ہمہ وقت مصروف عمل ہیں اور آخری عشرے میں بھی اُن کی کوششوں اور توانائی میں کوئی کمی نہیں آئی اور وہ اسے مزید خوبصورت دلچسپ اور مقبول ترین بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور بلاشبہ اُن مقبول ترین شخصیات میں شامل ہیں جن کے لیے کہا گیا ہے :

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھیں ہوں مگر ایسے بھی ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔