(پاکستان ایک نظر میں) - پاکستانی آئین کی ایک لاوارث شِق

شاہد اقبال  منگل 22 جولائی 2014
آئین کے آرٹیکل 251 کی بے توقیری کا قصہ اب پرانا ہو چکا ہے اس لیے ہماری قوم کے پاس اس کا ماتم کرنے کا وقت نہیں۔ فوٹو فائل

آئین کے آرٹیکل 251 کی بے توقیری کا قصہ اب پرانا ہو چکا ہے اس لیے ہماری قوم کے پاس اس کا ماتم کرنے کا وقت نہیں۔ فوٹو فائل

نیت صاف ہو تو منزل خود دوڑ کر راہواروں کے قدم چومتی ہے اگر کھوٹ ہو تو یہ دھندلکوں میں کھو جاتی ہے اور فرد ہو ، قافلے ہوں یا قومیں بے سمت ٹامک ٹوئیاں مارتے رہ جاتے ہیں۔ پاکستان کا آئین بنانے والوں نے قومی اتفاق کی بیل منڈھے چڑھانے کے لیے کہیں کی اینٹ کہیں کے روڑے اکھٹے کیے اور چوں چوں کا وہ مربہ بنادیا جسے آج ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین کہتے ہیں ۔ نیت میں ملاوٹ تھی یا آئین بنانے والے ان دیکھی مجبوریوں کے اسیر تھے کہ جو بنایااس پرتین دہائیاں بیت جانے پر بھی عمل نہ کروایا جا سکا۔ اس آئین میں چونکہ تمام طرز ہائے فکر کو حصہ بقدر جثہ کے اصول کے تحت مناسب نمائندگی دی گئی ہے، اس لیے اس میں کچھ ایسی باتیں بھی در آئی ہیں جن کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ۔ آئین کی اسلامی دفعات ہوں، طبقاتی فرق ختم کرنے کا وعدہ ہو، اقلیتوں کی آزادیوں کا ذکر ہو،سود کی لعنت سے چھٹکارے کا عزم ہو یا اردو کو 15 سالوں میں سرکاری زبان کا درجہ دلوانے کا دعویٰ ۱۹۷۳ کا آئین کچھ ایسے دیو مالائی قصوں سے اٹا ہوا ہے جن کا حقیقت کی دنیا سے کوئی ناتانہیں ۔

یوں تو پاکستان کا آئین دنیا بھر کے آئینوں کی برادری میں سب سے مقہور و مظلوم ہے کہ اس کے ساتھ ہر دور میں کھلواڑ ہوتا رہا ہے ۔ اس آئین کے تحت حلف لینے والی کالی شیروانیاں ہوں یا اسے پاؤں تلے روند کر اقتدار تک پہنچنے والی خاکی وردیاں سب نے اسے کاغذ کے ایک بے قیمت ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہیں دی لیکن اس آئین کی سب سے راندۂ درگاہ شِق 251 ہے ۔ یہ شق آئینِ پاکستان میں قومی و سرکاری زبان کا تعین کرتے ہوئے خواب آور انداز میں کہتی ہے : ’’ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور (اس آئین کے ) یومِ آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری اور دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے اور انگریزی زبان صرف اس وقت تک سرکاری مقاصد کے لیے استعمال کی جا سکے گی جب تک اس کے اردو سے تبدیل کیے جانے کے انتظامات نہ ہو جائیں‘‘۔ انگریزی جو اس آئین کی رو سے محض وقتی ضرورت پوری کرنے کے لیے تھی ہماری جڑوں میں ایسی بیٹھی کہ اردو کو دیس نکالا دے دیا۔ بدیسی ہمارے اعصاب پر یوں سوار ہوئی کہ دیسی زبان کی اہمیت اور قدرو قیمت جاتی رہی اور پندرہ سال کا عرصہ پھیلتے پھیلتے لامحدود ہو گیا۔ اب نوبت یہاں آپہنچی ہے کہ اردو کے نفاذ کا ذکربہت نامانوس سا لگتا ہے اور ہمارے نئی نسلوں کے گٹ پٹ کرتے ہونٹ اردو کی حلاوت سے یکسر محروم ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 251 کی بے توقیری کا قصہ اب پرانا ہو چکا ہے اس لیے ہماری قوم کے پاس اس کا ماتم کرنے کا وقت نہیں۔ یہ دلیلیں بھی اب اپنی وقعت کھو بیٹھی ہیں کہ ہر قوم اپنی قومی زبان اپنا کر ہی ترقی کر سکتی ہے غیر زبانوں کی غلامی سے مرعوبیت کی دلدل میں تو اترا جا سکتا ہے ترقی کے زینے طے نہیں کیے جا سکتے۔ اقوام عالم کی یہ مثالیں سن سن کر بھی ہماری زود رنج قوم اکتا چکی ہے کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں گزری جس نے کسی اور قو م کی زبان اپنا کر کامیابیوں کے باب رقم کیے ہوں۔ ہماری بے نوا قوم مصیبتوں کے تازیانے کھاکھا کر اب بے حسی کے اس درجے پر پہنچا دی گئی ہے جہاں اسے نہ کامیابیوں کے قصے جوش دلاتے ہیں نہ ہی ناکامیوں کاخوف افسردہ کرتا ہے اس لیے سرکاری زبان انگریزی رہے یا فارسی بن جائے اس کی بلا سے۔ ہمارے دانش مند حکمران قوم کی اس کیفیت سے پوری طرح آشنا ہیں اس لیے انہوں نے بھی اردو کے نفاذ کے ذکر کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا ہے۔ انگریزی سوٹ پہن کر رٹی رٹائی انگریزی کا شغل جس فرنگی فخر سے دوچار کرتا ہے وہ بے چاری اردو کے پاس کہاں اس لیے اب اردو کا سرکاری سطح پر نفاذ قصہ پارینہ بن چکا ہے۔

قومی زبان کی اجتماعی بے قدری کے اس عالم میں ماروی میمن کا قومی اسمبلی میں علاقائی زبانوں کو قومی زبانیں قرار دلوانے کے لیے پیش کیے جانے والا بل بڑھتے ہوئے لسانی تعصبات کا ایک واشگاف اظہار ہے ۔ اردو کی انگریزی کے خلاف لڑائی میں علاقائی زبانوں کو اردو کے مد مقابل لاکھڑا کرنے کا مقصد انگریزی کو مزید تقویت دینے اور اردو کی رہی سہی آبرو کو بھی نیلام کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ بھلا ہو اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا جس نے اس بل کو رد کر کے آئین کے آرٹیکل 251 کو آبرو ریزی سے بچا لیا۔ علاقائی زبانوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، ان کی چاشنی اور حلاوت کے بارے میں بھی کوئی دو رائے نہیں ، ان کے تہذیبی ورثے کے امین ہونے پر بھی سب متفق ہیں۔ اور اس امر میں بھی کسی کو اختلاف نہیں کہ یہ علاقائی سطح پر را بطے کا سب سے موثر ذریعہ ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علاقائی زبانوں کی اہمیت اپنے اپنے علاقوں تک محدود ہے اپنی سرحد عبور کرتے ہی یہ گونگی ہو جاتی ہیں ۔ اس لیے ان کو قومی زبانیں بنانے کی ماروی میمن کی خواہش سیاسی میدان میں ایک اچھی قلابازی تو ہو سکتی ہے جس سے علاقائیت کے آسیب میں گرفتار چند ووٹر وں کو اپنی طرف مائل کیا جا سکے لیکن پاکستان کی پہلے سے دیمک زدہ اجتماعیت کے لیے یہ کسی زہرِ قاتل سے کم نہیں۔

ماروی میمن اور اس قبیل کی دوسری سوچیں جس دن اپنے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے میں کامیاب ہو گئیں وہ دن آئین کی شق 251 اور پاکستانی فیڈریشن ہر دو کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔ پاکستانی آئین کے لاوارث آرٹیکل 251 کو ماروی میمن کے بل نے مزید سراسیماں کر دیا ہے اور وہ حیران ہے کہ دل کو رروئے یا جگر کو پیٹے!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔