ہے جرمِ ضعیفی کی سزا۔۔۔۔ غزہ

رضوان طاہر مبین  بدھ 23 جولائی 2014
15 روز سے جاری خوں ریزی کی داستان اَلم۔ فوٹو: فائل

15 روز سے جاری خوں ریزی کی داستان اَلم۔ فوٹو: فائل

3 مئی 1948ء۔۔۔

زمین تقسیم ہو گئی۔۔۔ دنیا بھر سے یہودی، انبیا کی سرزمین فلسطین پر لا کر بسائے گئے اور شاطر سام راجیوں کے لکھے گئے منصوبے کو عملی جامہ پہنا دیا گیا۔۔۔ دوسری عالم گیر جنگ کے بعد امریکا اور روس کی زیر قیادت دو حصوں میں بٹ جانے والی بڑی طاقتیں اس فیصلے پر متفق ہوئیں۔ اِدھر یہودی ریاست ’’اسرائیل‘‘ کا اعلان ہوا۔ اُدھر جھٹ سے اسے تسلیم کر لیا گیا۔ یہ تھا اس مقدس سرزمین پر شروع ہونے والے طویل انسانی المیے کا آغاز۔۔۔ جس سے اٹھنے والی کرب ناک سسکیوں سے اس دنیا کو گونجتے رہنا تھا۔۔۔

یہ تو ابتدا تھی عربوں کی غفلت اور خواب خرگوش سے جنم لینے والے ایک سانحہ عظیم کی۔۔۔ شروعات تھی اس وحشت کی، جو فلسطینی مسلمانوں کا لہو پی کر اور ان کی زمین کو نگل کر توانا ہوتی چلی گئی۔۔۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں قبلہ اول بیت المقدس بھی صیہونی ریاست کے قبضے میں چلا گیا، جنگ تو اب اس خطے کا مقدر بن گئی تھی۔۔۔ زمانۂ امن میں بھی سکون نہ تھا۔۔۔ نوجوانوں، بزرگوں اور خواتین سے لے کر شیرخوار بچوں کے خوں نم خون لاشے۔۔۔ ان پر بین کرتی خواتین۔۔۔ افسردہ بزرگ اور فولادی ٹینکوں کے مقابل غلیل تھامے سینہ سپر وہ ننھے مجاہدین جو اس دنیا کے قرینوں کے مطابق ’’دہشت گرد‘‘ قرار پائے!

اپنی دھرتی پر اجنبی بن جانے کا اَلم کیا کم تھا کہ پھر اپنوں میں بھی تقسیم کے بیج بو جاتے ہیں۔ فلسطینیوں کی نمایندہ تنظیم ’’الفتح‘‘ کے بانی یاسر عرفات کے 2004ء میں انتقال کے بعد ’’حماس‘‘ تیزی سے ابھر کر سامنے آتی ہے اور 2007ء میں انتخابات جیت کر حکومت بناتی ہے۔۔۔ حماس اور الفتح کے درمیان کھینچا تانی ہوتی ہے اور فلسطینیوں کے درمیان سیاسی خلفشار کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ فلسطینیوں کی ساری توانائیاں الفتح اور حماس کی باہمی چپقلشوں کی نذر ہونے لگتی ہیں۔

ثالثی اور سمجھوتے بھی خاطر خواہ نتائج نہیں لاتے اور فلسطینی آپس میں جھگڑنے لگتے ہیں۔ صیہونی ریاست علی الاعلان حماس سے الفتح کی مفاہمت پر سخت ناپسندیدگی سے دیکھتی ہے، مگر دونوں تنظیموں کی راہیں جدا ہونے کے باوجود بھی وہ معصوم فلسطینیوں کے خون سے ناکردہ گناہوں کا خراج وصول کرتی رہتی ہے۔۔۔ صیہونیوں سے بچی کچھی فلسطینیوں کی سر زمین اب حماس اور الفتح کے درمیان بٹ جاتی ہے۔

جولائی 2013ء میں عالمی امن کا ٹھیکے دار امریکا، پھر فلسطین اور اسرائیل کے مذاکرات کا منچ تیار کرتا ہے۔۔۔ نشستند، گفتند، برخاستند کے مصداق معاملات سابقہ ڈگر پر ہی چلتے رہتے ہیں۔۔۔

اس دوران 23 اپریل 2014ء آتا ہے۔۔۔

اور اسرائیل سے برس ہا برس سے جاری بے نتیجہ گفت وشنید سے لاتعلق بے چین فلسطینیوں کی امیدیں بر آتی ہیں۔۔۔ سات برس قبل باہم دست وگریباں ہوجانے والی الفتح اور حماس پھر سے متحد ہو جاتے ہیں۔۔۔! اظہار مسرت کے لیے ہزاروں فلسطینی غزہ کی گلیوں سے نکل کر شاہ راہوں تک دراز ہو جاتے ہیں۔۔۔ اور کیوں نہ ہوں اپنوں کے بیچ حائل کدورتوں کی دیوار گرنے کی بھی اپنی ہی شادمانی ہوتی ہے۔ یروشلم میں بی بی سی کے نمائندے یولاندے نیل بھی اعتراف کرتے ہیں کہ فلسطینی اس سمجھوتے کے برسوں سے منتظر تھے۔

مگر اب اس مسکرانے کے قرض بھی تو ان ستم رسیدہ فلسطینیوں کو اتارنے تھے۔۔۔ سو مذاکرات کی میز پر بات چیت کا ڈھونگ رچانے والے اسرائیل نے واضح طور پر دھمکی دی کہ ’’حماس یا امن میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلو!‘‘ بات چیت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔

12جون 2014ء۔۔۔ غرب اردن کے قریب سے پراسرار طور پر تین اسرائیلی نوجوانوں کے اغوا ہونے کی خبر آتی ہے۔ حسب سابق الزام حماس کو دیا جاتا ہے، لیکن حماس واضح طور پر اسے مسترد کرتی ہے۔ فلسطین نے واضح طور پر کہا ہے کہ اسرائیلی نوجوان جہاں سے لاپتا ہوئے وہ مکمل طور پر اسرائیلی قبضے میں ہے، تاہم وہ پھر بھی نوجوانوں کی تلاش میں مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ مگر نوجوانوں کے اغوا کے واقعے کو حملے کی دھمکی کے تناظر میں دیکھا جائے تو بات سمجھنا دشوار نہیں رہتا۔ ابتدائی کارروائی میں 80 سے زاید فلسطینی دھر لیے جاتے ہیں۔ سات سالہ لڑکا شہید کر دیا جاتا ہے۔

طبلِ وحشت بجتا ہے!

30 جون کو تینوں لاپتا اسرائیلی جوانوں کی لاشیں برآمد ہوجاتی ہیں۔ حماس اور الفتح کے معاہدے سے ناخوش صیہونی ریاست اسے اسی سمجھوتے کا نتیجہ قرار دیتی ہے اور طبل درندگی بجا دیا جاتا ہے۔ 5 جولائی کو یروشلم میں 16 سالہ ابوخضیر کو جلا کر شہید کر دیا جاتا ہے۔ 7 جولائی کو اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو ابوخضیر کی شہادت پر افسوس اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا بیان داغتے ہیں اور اسی روز سے غزہ پر اسرائیلی دہشت گردی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ نو فلسطینی جاں بحق ہوتے ہیں۔ حملے سے پہلے کی طرح ایک بار پھر حماس کی جانب سے راکٹ حملے کیے جانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، جس سے کوئی نقصان نہیں ہوا ہوتا، مگر جواب میں غزہ کی گلی کوچوں کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔

آگ اور خون کے اس کھیل میں 15جولائی کو مصر کی جانب سے جنگ بندی کی کوشش حماس کی عدم رضامندی کے باعث کار گر نہ ہوسکی۔ یوں حملے عارضی وقفے کے بعد دوبارہ جاری ہوگئے۔ حماس کے مطابق اسرائیل معاہدے کی پاس داری نہیں کرتا، اس لیے اب وہ جنگ بندی سے پہلے مکمل معاہدے چاہتا ہے، چناں چہ غزہ کا لہو بدستور بہ رہا ہے!

آج غزہ پر اسرائیلی درندگی کو سترہواں روز ہے۔ اب تک کے اعدادو شمار کے مطابق 580 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 234 ہلاکتیں صرف گزشتہ تین روز میں ہوئیں۔

فلسطینی انسانی حقوق تنظیم کے مطابق اسرائیلی کارروائیوں میں 80 فی صد عام شہری نشانہ بن رہے ہیں۔ 20 جولائی کو بڑی کارروائی میں شہری آبادی پر اندھا دھند بم باری کی گئی، جس میں 100 فلسطینی شہید ہوئے۔ اگلے روز ایک اور بڑی کارروائی میں ایک اسپتال کو نشانہ بنایا گیا، جس کا انتہائی نگہ داشت اور آپریشن تھیٹر تباہ ہوگیا۔ 16 جولائی کو ساحل پر جمع ہوئے بچوں کو نشانہ بنایا، جس میں چار بچے جاں بحق ہوئے۔

عالمی راہ نماؤں کا کردار

اسرائیل کی گذشتہ کارروائیوں کی طرح اس کارروائی کو بھی امریکا اور دیگر مغربی قوتوں کی اعلانیہ اور غیراعلانیہ حمایت حاصل رہی۔ حملے کے تیسرے روز امریکی وزیرخارجہ نے اسرائیلی کارروائی کی حمایت کا اعلان کیا۔ 16 جولائی کو باراک اوباما نے وہائٹ ہاؤس میں مسلم سفیروں کو دی گئی دعوت افطار میں کہا کہ اسرائیل پر راکٹ حملے ناقابل معافی ہیں، اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ برطانیہ نے البتہ امریکا کی طرح کی حکمت عملی اپنانے سے گریز کیا۔

غزہ پر حملے کے چھٹے روز 12 جولائی کو برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے غزہ میں جانی نقصان پر تشویش ظاہر کی۔ 13 جولائی کو فرانس اور 14 جولائی کو یورپی یونین نے بھی جنگ بندی پر زور دیا۔ 18جولائیؔ کو پوپ فرانسس نے جنگ بندی کی اپیل کی۔ عالمی برادری میں روسی صدر ولا دیمیر پوتن واحد راہ نما رہے جنہوں نے 10 جولائی کو اسرائیلی وزیراعظم کو فون کر کے بم باری بند کرنے کا مطالبہ کیا۔

مسلم دنیا

صیہونی کارروائیوں کو جہاں مغرب کی سرپرستی حاصل ہونے کی روایت قائم رہی، وہیں عرب اور مسلم دنیا کی بے حسی کی ریت بھی جاری رہی۔

عرب حکم راں اور ان کی نمایندہ عرب لیگ بھی محض بیانات تک محدود نظر آئی۔ 9 جولائی کو سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے اور 14 جولائی کو جنگ بندی کے مطالبے کے سوا اور کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دی۔ اس کے علاوہ 16 جولائی کو سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے سلامتی کونسل سے جنگی جرائم کی روک تھام کے لیے کردار کی اپیل کی اسلامی تعاون تظیم کے وزارت خارجہ اجلاس کا مطالبہ کیا۔

مسلم دنیا میں ترکی نے نسبتاً آبرومندانہ ردعمل اختیار کیا۔ ترک صدر عبداﷲ گل نے حملے نہ روکنے پر فوجی کارروائی کا انتباہ دیا۔17 جولائی کو ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کر رہا ہے۔

مسلم دنیا کی جانب سے امداد کے ضمن میں مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نمایاں رہے۔ 10 جولائی کو مصر نے ماضی کے برعکس زخمی فلسطینیوں کے علاج کے لیے سرحدی راہ داری کھول دی، اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات نے25  ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا۔ 12 جولائی کو مصری صدر نے فلسطینی متاثرین کے لیے 500 ٹن خوراک بھیجی۔ 14 جولائی کو سعودی فرماں روا شاہ عبداﷲ نے 200 ملین سعودی ریال امداد دینے کا اعلان کیا۔

خلق خدا کا صدائے احتجاج

عالمی طاقتوں کے حکم رانوں سے قطع نظر وہاں کے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے ایک بار پھر انسانی ہمدردی کا ثبوت دیتے ہوئے اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ 13 جولائی کو پیرس میں ہزاروں افراد نے فلسطینیوں سے اظہار یک جہتی کیا۔ 18جولائی کو ؔپیرس میں کلیسا کے سامنے ہونے والے اسرائیل مخالف مظاہرے پر اسرائیل کے حامیوں نے مرچ اسپرے، آنسو گیس اور سلاخوں سے حملہ کردیا۔

اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف خود اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں بھی گذشتہ دنوں ہزاروں شہریوں نے احتجاج کیا۔ 19 جولائی کو لندن میں 20 ہزار افراد نے فلسطینیوں کے حق میں ریلی نکالی۔ اس کے علاوہ امریکا میں بوسٹن، نیویارک، شکاگو، لاس اینجلس، فلاڈیلفیا اور سان فرانسسکو میں بھی لوگوں نے صیہیونی حکومت کی نسل پرستانہ طور طریقوں کی مذمت کی۔ ترکی میں مظاہرے کے دوران مشتعل افراد نے اسرائیلی سفارت خانے پر پتھراؤ کیا۔

قصہ ’’عالمی تماش بین‘‘ کا!

غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت کے خلاف گذشتہ دنوں جب سلامتی کونسل میں قرارداد مذمت لائی گئی، تو اس منظور کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے محض جنگ بندی کے مطالبے تک محدود کر دیا گیا۔ اقوام متحدہ میں فلسطینی مندوب کا کہنا تھا کہ یہ کیسا دفاع کا حق ہے جو اہالیان غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹا کے پورا کیا جا رہا ہے۔ غزہ کے مسئلے پر بھی اقوام متحدہ کا کردار ہمیشہ کی کسی خاموش تماشائی کا رہا۔ 12 جولائی کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے پر پابندی عاید کی جائے۔ 11 جولائی کو اقوام متحدہ کی جانب سے کہا گیا کہ اسرائیل گھروں پر بم باری کرکے جنگی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، لیکن اس کے باوجود سنجیدگی سے کوئی قرارداد تک منظور نہیں کی گئی۔

’’کوئی مقابلہ ہی نہیں!‘‘ بی بی سی

اسرائیل نے غزہ میں کارروائی یوں تو اپنے تین شہریوں کی ہلاکت کے بعد شروع کی، تاہم وہ حماس پر راکٹ حملوں کا الزام بھی لگاتا رہا ہے، جس کے بارے میں بی بی سی کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں کو دست یاب ہتھیاروں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ فلسطینی راکٹوں میں کوئی بھی راکٹ ایسا نہیں جسے اہم ہتھیار کہا جا سکے، جب کہ اسرائیل کام یاب دفاعی نظام کا حامل ہے۔ اسرائیلی حملوں کے بعد بھی حماس کی جانب سے راکٹ حملے کیے جاتے رہے، مگر اس میں کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔

البتہ 13 جولائی کو حماس کے تل ابیب پر راکٹ حملوں میں پہلی بار ایک نوجوان زخمی ہوا اور شہر میں خطرے کے سائرن بجنے لگے اور بھگڈر مچ گئی۔ گذشتہ دو تین روز میں اسرائیلی کارروائیوں میں شدت آنے کے بعد سے 20 جولائی کو 13 اور 21 جولائی کو سات اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے، یوں اب تک کُل 24 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں، جسے 2006ء کی اسرائیل لبنان جنگ کے بعد ایک بڑا نقصان کہا جا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔