ہائے مظلوم مسلم!

قادر خان  بدھ 23 جولائی 2014
qakhs1@gmail.com

[email protected]

حدیث شریف ہے ’’پوری دنیا کے مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں اگر آنکھ میں درد ہو تو سارا بدن یہ تکلیف محسوس کرے اور آرام سے نہ سوئے۔‘‘

آئیں ذرا دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کی حالت زار پر ایک اجمالی نظر ڈالیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ برما میں عدم تشدد کے نام نہاد پیروکاروں نے پولیس اور فوج کے تعاون سے مسلمانوں کا وہ قتل عام کیا کہ الاامان و الحفیظ۔ کچھ عرصہ قبل برما کے صوبہ ارکان کے تنگوگ شہر کی مسجد میں ہونے والے اجتماع میں شرکت کے لیے آنے والوں کی بس کو بودھ دہشت گرد تنظیم ’’ماگ‘‘ کے نوجوانوں نے روکا، جس میں 40 کے لگ بھگ لوگ سوار تھے، بس میں سوار علما کو پہلے اتار لیا گیا ، انھیں تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر انتہائی ظالمانہ طریقے سے انھیں شہید کر دیا گیا۔

مسلمانوں کے ایک بڑے مدرسہ (جمایۃ الاسلام) کے 28 طلبا اور 4 اساتذہ کو شہید کرنے کے علاوہ مدرسے کو بھی آگ لگا دی۔ قتل عام کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا گیا کہ 45 ہزار سے زائد لوگ مارے گئے، 4 ہزار زندہ جلا دیے گئے، 5 ہزار سے زائد خواتین جنسی درندگی کا نشانہ بنیں، 10 ہزار مسلمان غائب کر دیے گئے، 35 ہزار سے زائد گھر جلا دیے گئے ، 2 لاکھ مسلمان بے گھر کر دیے، اور ایک ایسا نہ رکنے والا سلسلہ ہے کہ درست تعداد کا بھی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

دس صدیوں سے آباد برمی مسلمان اپنی سر زمیں میں اجنبی بنا دیے گئے، بودھ جو بہت بعد میں یہاں پر آئے، انھوں نے مسلمانوں کو تجارت سے بیدخل کرنا شروع کر دیا، جہاں جہاں بودھ مرکز (عبادت خانے) بنتے ہیں ان کے اخراجات مسلمانوں سے لیے جاتے ہیں۔ تعلیم شادی کے لیے اجازت، دو بچوں سے زیادہ پیدا کرنے پر پابندی، غرض کون سا ظلم ہے جو برمی مسلمانوں پر ڈھایا نہیں جاتا لیکن مسلمان نام کی حکومت سمیت اقوام متحدہ گونگی اور خاموش ہے۔ برما کی آبادی 6 کروڑ کے قریب ہے جس میں 24 لاکھ مسلمان بستے ہیں، لیکن ان کا اللہ کا ذکر کرنا اذیت ناک بنا دیا گیا ہے۔ حالانکہ ان کا پڑوسی ملک بنگلہ دیش ہے لیکن ان کا رویہ انتہائی بے حسی پر مبنی ہے۔

جمہوریہ وسطی افریقہ کے سادہ لوح مسلمانوں کے گھروں اور قیمتی املاک کو آگ لگائی جا رہی ہے، عالمی تنظیمیں مانتی ہیں کہ جس طرح مسلمانوں کا قتل عام اور ان پر ظلم ہو رہا ہے، اس وجہ سے مسلمان ہجرت پر مجبور ہیں اور بہت جلد جمہوریہ وسطی افریقہ مسلمانوں سے خالی ہو جائے گا۔

ملک شام کے حکمرانوں نے اس جنت نما ملک میں ظلم و بربریت کی انتہا کر دی، حافظ الاسد کے بیٹے بشار الاسد نے ملک کو قتل گاہ بنا دیا۔ ائیر مارشل حافظ الاسد نے1946 کو مسیحی رہنما مائیکل الفلاک کی قائم کردہ بعث پارٹی میں شمولیت اختیار کی، حمص ملڑی اکیڈمی میں حصہ لیا۔ 8 مارچ 1963 کو بعث پارٹی نے شام کے اقتدار پر قبضہ کر لیا،1973میں عرب اسرائیل جنگ میں شکست کھائی۔ فضائیہ کا سربراہ ہونے کے بل پر ملک کی صدارت پر قبضہ کرلیا، 1980-82ملک میں نصیری (علوی) فرقے کی اقتدار پر بڑھتی گرفت سے تنگ عوام نے جنکی تعداد 90 فیصد سنی پر مشتمل تھی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی۔

بعثی حکومت نے الیپوہ اور حمادہ نامی شہر پر ٹینک کشی کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، کم از کم تیس ہزار شہریوں کو قتل کیا کیا ۔2000میں حافظ الاسد کی وفات کے بعد ڈاکٹر بشار الاسد نے حکومت کرنے کو اپنا خاندانی حق سمجھا۔ اقتدار کا نشہ بھی بڑا عجیب ہوتا ہے، کوئی بھی اسے آسانی سے نہیں چھوڑتا، بشار الاسد کی جابرانہ حکومت میں عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے لاکھوں افراد کو بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ انسانوں کو لاشوں اور ان کے گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ۔بشار الاسد نے فلسطین کے پناہ گزینوں پر بمباری تک کی اور انھیں ملک شام چھوڑنے پر مجبور کرتے ہوئے ان کی خوراک اور ادویات پر پابندی لگا دی ۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ امریکا اور اسرائیل کسی بھی اسلامی ملک کو طاقتور نہیں دیکھنا چاہتے، یہی وجہ ہے وہ ان ممالک میں فرقہ وارانہ خانہ جنگیوں میں اہم کردار ادا کرتے رہتے ہیں، لیکن ہم مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے اس کا جواب شاید سب کے پاس ایک ہی ہے کہ ہم میں نا اتفاقی ہے۔

غزہ میں قیامت کی ہولناکیاں جاری ہیں، مظلوم مسلمان آسمان کی جانب نظریں اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر مسلم ممالک کی بزدلی کی شکایت رب العزت سے کر رہے ہیں کہ کسی بھی مسلم ملک اور نام نہاد انسان دوست ملک کو معصوم بچوں کے چیتھڑے اڑتے نظر نہیں آتے، کسی کو شرم نہیں آتی کہ مسلمانوں کی بربادی کے نظارے، پہاڑی پر کھڑے یہودی کسی پکنک پوائنٹ کی طرح دیکھ خوشی سے تالیاں بجا رہے ہیں۔ عراق کی مدد کرنے والے ایران، داعش کے خود ساختہ خلیفہ، سعودیہ، جو مصر میں فوجی حکومت کے لیے اربوں ڈالر کی امداد دے سکتا ہے لیکن صہیونہت کے خلاف سب خاموش ہیں، مسلم امہ کو یکجا کرنے کیلے او آئی سی کو کوئی متحرک نہیں کر رہا کہ تمام مسلم ممالک، اپنی افواج میں سے فوجی دیں ان کے اخراجات وہ برداشت کرے گا۔

مسلم دنیا کے حکمران عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے، یو این او امریکا اور اسرائیل کی لونڈی بنی ہوئی ہے اور مسلم ممالک کو اپنی معدنی وسائل کی طاقت کا اندازہ ہونے کے باوجود کمزور بننا باعث شرم ہے۔ غزہ کے مظلوم بے یار و مددگار مسلمان اپنی جان و عزت کی حفاظت کے لیے دنیا بھر سے بھیک مانگ رہے ہیں، کہاں ہیں وہ جہادی تنظیمیں، جو مسلم ممالک میں مساجد، مزارات، بے قصور مسلمانوں کے قتل عام پر جہاد کے فتوی جاری کرتی ہے لیکن انھیں فلسطین، برما، کشمیر، عراق، شام کے لاوارث مسلمان نظر نہیں آ رہے۔

خلافت عثمانیہ کے اختتام کے وقت عالم اسلام کی عجیب حالت تھی، ترکوں نے جب عرب سے تابوت وصولنے شروع کیے تو خلافت کے خاتمے کے بعد 1960 کی دہائی تک عربی میں اذان اور عربی زبان پر ہی پابندی لگا دی گئی۔

جس جس مسلم مملکت کی جانب نظر دوڑائیں تو اس نے اپنا خود ساختہ آئین بنا کر مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ مذہبی جماعتیں ہوں تو انھیں مسلمان کو کافر بنانے سے فرصت نہیں، سیاسی جماعتیں ہوں تو انھیں اقتدار میں آنے کے لیے صرف اپنی ستائش کی بیماری لاحق ہے۔

بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم مسلمانوں کی مثال اس بکری کے ریوڑ کی طرح ہو گئی ہے جو ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باوجود کتے کے بھونکنے پر ہی خوف زدہ ہوجاتی ہیں اور وہ کتا سہمے ہوئے اس ریوڑ کو جہاں چاہے ہانکتا پھرتا ہے۔ ہم لیبیا، مصر، ترکی، عراق، شام، ایران، افغانستان، پاکستان، برما سمیت تمام عالم دنیا میں نظریں دوڑائیں تو کیا ہمیں یہ سمجھنے میں وقت لگے گا کہ اس کی وجوہات کیا ہیں، اس کی کامل وجہ، قرآن پاک سے دوری، مسالک اور فرقوں میں پڑھ کر اللہ کی مضبوط رسی کو چھوڑ دینا، ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ضرار بنا کر، سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم اللہ تعالی کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں، جب کہ اللہ کے نام پر فساد کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ غیر مسلم ممالک امریکا، برطانیہ، اسرائیل کی سازشوں کو سمجھنے کے باوجود ہم دانستہ اور غیر دانستہ ان کے اہلکار بنتے جا رہے ہیں،

ہمارا کام تو دکھی انسانیت کی خدمت کرنا تھا، دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنا تھا لیکن ہم ہمارا کردار اب ایسا ہو گیا ہے کہ ہم اگر حب رسول میں نکلتے ہیں تو بے قصور لوگوں کی املاک کو جلا دیتے ہیں ان کی املاک کو لوٹ لیتے ہیں اور پھر رونا امت محمدیہ کا روتے ہیں۔ نہ جانے ہم اللہ تعالی کے اور کس عذاب کا انتظار کر رہے ہیں ۔ کہ اس سے بڑھ کر بھی کوئی قیامت صغری ہو گی کہ مسلمان جہاں جہاں ہیں، وہاں انھیں دشمنان اسلام انھیں ذلیل و رسوا کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔