آپ ہمیں جینے دیں

راؤ سیف الزماں  بدھ 23 جولائی 2014
saifuzzaman1966@gmail.com

[email protected]

سنتے ہیں کہ ملک بھر سے تحریک انصاف کے عہدیداران، ورکرز، ہمدرد و ہم خیال اسلام آباد اکٹھے ہوں گے۔ اور لاکھوں افراد پر مشتمل یہ لشکر اسلام آباد D چوک پر دھرنا دے گا اور مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں پارلیمنٹ ہاؤس پر دھاوا بول دے گا پھر سب تہس نہس ہو جائے گا۔ حکومت ختم ہو جائے گی۔ ملک میں وہ انقلاب جو 67 سال پہلے کہیں سے پیدل چلا تھا اسلام آباد پہنچ جائے گا۔ جس کے بعد الیکشن کمیشن Finish، انتخابی نظام تبدیل، تھانہ کچہری، پٹواری سسٹم ختم، پولیس قطعاً غیر سیاسی، رشوت مافیا، بھتہ گیر، رسہ گیر جیل میں، طالبان مسلمان بھائی بھائی اور خان صاحب وزیر اعظم ۔

لیکن مجھے تو یہ سب ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ابھی جب میں خان صاحب کے ان دعوؤں کو تحریر کر رہا ہوں تو مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں کسی طلسمی دنیا یا داستان الف لیلوی کا کوئی صفحہ پڑھ رہا ہوں۔ لیکن عمران خان بضد ہیں کہ یہ سب کچھ ہو جائے گا۔ اگر عوام نے گھروں سے نکل کر ان کے انقلاب میں حصہ لیا تو۔ اگر قسمت نے ان کا ساتھ دیا تو۔ اگر اس دن بارش نہیں ہوئی تو۔ اور اگر ملک کے اصل ورثا کی مہربانی رہی تو۔ وہ حکومت کا خاتمہ بالخیر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور … انقلاب آ جائے گا۔

مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب جنرل ضیا نے مارشل لا نافذ کرتے ہوئے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کر کے انھیں جیل بھیج دیا تھا۔ پھر زر خرید ججز سے ان پر مقدمات بنوائے۔ اور بالآخر انھیں پھانسی چڑھوا دیا۔ بعدازاں اپنے طویل دور حکومت میں انھوں نے ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے افغان وار میں امریکا کا ساتھ دیا بدلے میں کروڑوں ڈالرز لیے اور افغان جنگ کو جہاد اسلام قرار دے کر پوری قوم کو اس میں جھونک دیا۔ نتیجہ کار لاکھوں افغان بے شمار اسلحے اور منشیات سمیت پاکستان آ بسے جو ان دنوں ملک میں طالبان کی شناخت سے جانے جاتے ہیں۔ افغان وار ختم ہوئی لیکن پاکستان وار ہنوز جاری ہے۔

جنرل ضیا کے دور انقلاب میں ان سب لوگوں کے ہاتھ مضبوط کیے گئے جو ملک سے علیحدگی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ انھیں خاص عزت دی گئی تا کہ وہ ایک ایسی سیاسی جماعت بنا سکیں جو پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ان کا ساتھ دے اور آخر کار وہ ایک ایسی جماعت بنانے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ جس کا نام بھی خود انھوں نے تجویز کیا اور ’’پاکستان مسلم لیگ‘‘ رکھا۔ جماعت کا سربراہ سندھ کے ایک سینئر رہنما محمد خان جونیجو کو بنایا گیا۔ جب کہ پنجاب میں روح رواں نواز شریف رہے۔ ضیا الحق کا انقلاب کم و بیش 11-12 سال چلتا رہا اور آخرکار جنرل صاحب بھی ترقی کرتے کرتے ایک طیارے سے ایک سیارے پر جا بسے۔

اب پھر انقلاب آ رہا ہے۔ عمران، قادری، شجاعت، پرویز الٰہی، شیخ رشید کا انقلاب۔ اور مجھے دوران تحریر نجانے کیوں محسوس ہوا کہ میں W-11 بس میں سلیمانی منجن اور لقمانی سرمہ بیچ رہا ہوں۔ لیکن داعی انقلاب تو کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ تو پھر یہ صاحبان اہل خرد کیوں نہیں۔ ویسے اگر ہم ان مشتعل رہنماؤں کے غم و غصے کا ترتیب وار جائزہ لیں تو کچھ اس طرح سے ہو گا کہ بقول عمران 2013کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی جس کے نتیجے میں وہ محروم رہ گئے۔ لہٰذا اب کچھ بھی کیا جائے۔ 4 حلقے کھولیں یا 1400۔ شیخ رشید، چوہدری شجاعت، پرویز الٰہی کو اعتراضات ہیں کہ نواز شریف نے ان سے مفاہمت کیوں نہیں کی اور انھیں حکومت کا حصہ بننے سے کیوں محروم کر دیا؟ حالانکہ وہ بھی ایک طرح یا ایک اور نام کی مسلم لیگ کا حصہ ہیں۔

تو جناب والا یہ ہیں وہ معاملات حسن و عشق جو 14 اگست کو D چوک اسلام آباد پر طے ہونے جا رہے ہیں۔ ادھر PML-N کی حکومت بھی خاموش نہیں ہے۔ بلکہ وہ خان صاحب سے سینئر ہیں۔ چنانچہ انھوں نے ٹھیک اسی دن 14 اگست کو D چوک پر ہی کچھ ترمیم کے ساتھ جشن آزادی منانے کا اعلان کر دیا۔ اب صورت حال بڑی عجیب سی ہے۔ ایک طرف پاکستان کی آزادی کے جشن کا اعلان ہے۔ دوسری طرف 67 سال قبل آزاد ہو چکے پاکستان کی ایک مزید انقلاب کے ذریعے سے تعمیر نو کا عزم۔ بہرحال ملک کی خیر خواہی تو دونوں اطراف سے ہوئی یعنی ملک کی مزید بہتری کے لیے سوچنا اور ملک کی ترقی پر خوش ہونا۔ ایجنڈا ایک سا ہے۔ تب کشادہ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے ان تقریبات کو مشترکہ طور پر منعقد کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ لیکن ایسا ممکن نہ ہو گا۔ فریقین مصالحت پر کسی طور تیار نہیں ہوں گے۔

پاکستان کے لیے جس بہتری و ترقی کا یہ دعویٰ کرتے ہیں وہ ان کی زبان پر ہے۔ ان کے دل ایسے کسی جذبے سے یکسر خالی ہیں۔ اور ان کے شعور کا حال یہ ہے کہ انھیں خبر تک نہیں یہ کرنے کیا جا رہے ہیں۔ ان کے احتجاج کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ ملک کس تباہی و بربادی سے دوچار ہو سکتا ہے۔ ساری دنیا میں آزادی کے دن پر جشن منایا جاتا ہے منانے جا رہے ہیں ’’سوگ‘‘؟

اے احتجاج کرنے والو، دھرنے دینے والو! کیا تم نے اپنے پڑوسی ملکوں کی ترقی کا جائزہ نہیں لیا؟ اور اپنی زبوں حالی پر غور نہیں کیا؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ ان کی تمام تر ترقی صرف جمہوریت کی بدولت ممکن ہوئی۔ اور آپ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر آج آپ ایک حکومت نامی گرامی سونامی سے ختم کرنے جا رہے ہیں توکل جب آپ کی حکومت ہو گی اور وہ اپوزیشن میں ہوں گے تو وہ کیا کریں گے؟ گویا الیکشن+ایک سال+دھرنے+لانگ مارچ=Zero خدارا! ہوش کے ناخن لیجیے۔یوں بھی آپ اپنی ڈگڈگی پر 67 سال ہمارا تماشا دنیا کو دکھا چکے ہیں۔ اب ہمیں جینے دیجیے۔ ہمیں کسی انقلاب کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا انقلاب یہی ہے کہ آپ ہمیں جینے دیں۔

دو چار دن تو یوں بھی بڑی خیریت رہی

دو چار دن ہوئے کوئی اپنا ملا نہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔