معاف کر دینا عظیم کام ہے

شہلا اعجاز  جمعرات 24 جولائی 2014
shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

چند ماہ قبل لاہور جانا ہوا، دوران سفر لاہور کے مشہور گرلز کالج کینئرڈ کی ایک طالبہ سے ملاقات ہوئی جو کینئرڈ کالج کی کرکٹ ٹیم کی رکن بھی تھی اور وہ باقاعدگی سے چھٹیوں کے دوران بھی پریکٹس کے لیے جا رہی تھی اس کا تعلق بالنگ کے شعبے سے تھا۔ اس معصوم سی دبلی پتلی لڑکی سے گفتگو کر کے بہت لطف آ رہا تھا، سیاہ رنگ کے برقعے میں ملبوس اس کا چہرہ نقاب سے چھپا ہوا تھا، شہر کے اندرونی حصے کی اس رہائشی طالبہ کے بارے میں مجھے خاصی دلچسپی ہو رہی تھی یہ جان کر کہ وہ کرکٹ کھیلتی ہے اچھا محسوس ہوا۔

ہماری خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم بھی ہے، آپ کے کالج کا نام خاصا مشہور ہے یہ لاہور کا بڑا کالج ہے اس کا موازنہ قومی کرکٹ ٹیم سے کیا جا سکتا ہے؟ جی بالکل ہمارے کالج کی کرکٹ ٹیم بہت اچھا کھیلتی ہے بلکہ ابھی ہم حال ہی میں ملتان کی کرکٹ ٹیم سے جیت کر آئے ہیں بلکہ قومی کرکٹ ٹیم کے بعد ہمارے کالج کی کرکٹ ٹیم کا نام لیا جاتا ہے کیونکہ اس کی پلیئرز بہت اچھی ہیں۔ اس نے نہایت اعتماد سے جواب دیا، کراچی میں دیکھا گیا ہے کہ لڑکیاں خواتین گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں لیکن لاہور میں خاص کر اندرون شہر سے جب گزرنا ہوتا ہے تو لڑکیاں کم کم نظر آتی ہیں اور ابھی تک اس پورے راستے مجھے ایک لڑکی نظر آئی تھی جس نے سر پر دوپٹہ ڈالا ہوا تھا اس کی کیا وجہ ہے کیا لاہور میں کوئی خاص وجہ ہے اور کیا اندرون شہر کی لڑکیاں کالج یونیورسٹی میں نہیں پڑھتیں یا کم پڑھتی ہیں؟

نہیں یہاں تو لڑکیوں پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ میں خود اندرون شہر رہتی ہوں میری اپنی بہنیں اور پڑوس کی لڑکیاں پڑھتی ہیں، بس کچھ ماحول کا فرق ہوتا ہے۔ اور اس ماحول کے فرق میں ایک لڑکی کا کرکٹ کھیلنا بہت زیادہ عجیب نہیں لگتا۔ اس سوال پر وہ ذرا مسکرائی پھر بولی۔ یہ تو ہے لیکن میرے گھر سے کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ میرے کالج میں تو ذرا ماحول ماڈرن ہی ہے وہاں تو ایسا محسوس نہیں ہوتا بس اندر کے شہر میں کچھ تبدیلی نظر آتی ہے۔ ہم بہت اچھے ماحول میں کھیلتے ہیں۔ ایک بڑے اچھے کالج میں داخلہ ملنا آسان تھا یا کھیل کی بنیاد پر آپ کو وہاں داخلہ ملا؟

بالکل مجھے کھیل کی وجہ سے داخلہ ملا میری چھوٹی بہن بھی اسی کالج میں پڑھتی ہے لیکن میں اپنی ایجوکیشن اور کھیل دونوں کو توجہ دیتی ہوں۔ ابھی کچھ عرصہ قبل خواتین کھلاڑیوں کے ساتھ نامناسب رویے کی باتیں اور اسکینڈلز سامنے آئے تھے کبھی آپ کو بھی اپنے کالج کے سر یا اسی طرح کے کھیلوں کے حوالے سے کسی انچارج نے کچھ کہا یا کوئی ڈیمانڈ تو نہیں کی؟ کریدنے پر وہ ذرا دھیمے سے مسکرائی پھر بولی شکر ہے خدا کا کہ مجھے تو ایسا سامنا نہیں ہوا لیکن میں نے اپنی ایک سہیلی سے سنا تھا کہ اسے کسی اسپورٹس کے انچارج نے کالج میں داخلے کے لیے کہا تھا کہ میں آپ کو داخلہ دلوا دوں گا آپ مجھ سے باہر ملیں۔

پاکستان میں خواتین اور تعلیمی صورتحال کے حوالے سے گمبھیر سا میدان سج چکا ہے، نعرے بہت لگ چکے ہیں لیکن پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ایک نوجوان کھلاڑی حلیمہ نے جس انداز میں احتجاج کیا وہ ہم سب کی روحوں کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ کیا یہ خواتین کا معیار؟ ہم مسلم کلچر میں رہتے ہوئے بھی ایک لڑکی جان نہ بچا سکے اور اس نے اپنے آپ کو موت کے سپرد کر دیا، کسی ذی ہوش انسان کا اپنے آپ کو سوچ سمجھ کر موت کو گلے لگانا آسان کام نہیں، بہادر سے بہادر آدمی بھی اپنے آپ کو خود موت کے سپرد نہیں کر سکتا۔

لیکن ایک ایسے شہر کی لڑکی جہاں سے اس نے سفر کیا اور مراحل طے کرتی قومی کرکٹ ٹیم میں جگہ بنائی بہت بڑی بات تھی، پنجاب میں خواتین کا پڑھنا ہی بہت بڑی بات ہے جب کہ وہاں پڑھنے کے علاوہ مردوں کے کھیل میں مقام حاصل کرنا اس سے بھی بڑی بات ہے لیکن واہ رے ہماری کم ظرفی۔ ایک عام گھرانے کی لڑکی چاہے اس کا معیار کھیل کے حوالے سے کتنا ہی بلند تھا لیکن وہ ایک لڑکی ہی تھی پاکستانی معاشرے میں ہماری روایات و اقدار سے جڑی حوا کی بیٹی۔

کچھ عرصہ قبل کسی نجی چینل سے کوئی پروگرام نشر ہوا جس میں خواتین کھلاڑیوں نے شرکت کی یقیناً ادھر ادھر چینل گھماتے اتفاقاً نظر پڑ گئی ہو لیکن کتنے پڑھنے والوں اور سننے والوں نے اس پروگرام کو دیکھا اور کون جانتا ہے فلاں فلاں شہر کے فلاں فلاں صاحب کو جن کے دو کروڑ روپے کے ہرجانے کے عدالتی نوٹس نے اتنا طوفان بپا کیا۔ اس پروگرام میں کیا تھا کوئی خاص نیا ایشو کیا اوباما کی بیٹی کا اسکینڈل تھا یا فلسطین کی آزادی کا مسئلہ؟ وہی عام روایتی سی باتیں وہی عام روایتی خوف و ہراس کے ایشوز جو خواتین کو عام طور پر درپیش رہتے ہیں۔

شوبز کی کتنی چھوٹی سے لے کر بڑی خواتین فنکاراؤں نے انٹرویوز کے دوران مجھ سمیت میری ساتھی صحافیوں سے مردوں کے نامناسب رویے کی شکایتیں کیں، کس کا کام روکا گیا، کس کے خلاف احتجاج ہوا، سب چل رہا ہے ہم سب بے حمیتی کے عادی ہیں۔ حلیمہ صحیح تھی یا غلط اس نے الزام لگائے تھے یا احتجاج کیا تھا اس سے ہمیں سروکار نہیں تھی۔ لیکن حلیمہ کی خودکشی اور اس خودکشی کے پیچھے وہ دو کروڑ ہرجانے کا پروانہ تھا یہ بہت اہم ہے۔ جس نے ہم سب کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ ماضی سے لے کر آج تک انصاف اور اس کے حصول کے لیے مظلوم عوام کو جس طرح پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اس سے کون واقف ہے روپیہ پیسہ وقت اور محنت اور اگر رسائی کی تراکیب صحیح نہ ہو تو خواری ہی خواری۔ پھر دو کروڑ کی رقم کم تو نہیں ہوتی پھر ایسا کیوں ہوا؟

اخبارات میں اکثر پڑھتے آئے ہیں بجلی یا گیس کے دس بارہ لاکھ کا بل دیکھ کر بے چارہ صارف دل کا دورہ پڑنے سے چل بسا، نوجوان طالبہ نے زیادتی کے بعد احتجاجاً اپنے آپ کو تھانے کے سامنے نذر آتش کر لیا اور جان سے گئی۔ عدالت کے احاطے میں معصوم شادی شدہ لڑکی کا اپنے ہی باپ اور بھائیوں کے ہاتھوں قتل۔ آخر ہم معاف کرنا کب سیکھیں گے پوری نہیں تھوڑی تھوڑی سی معافی دینے کا عمل کبھی ہو سکے گا کیا ہم دل پر ہاتھ رکھ کر سنت نبوی پر چلنے کی کوشش کر سکتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کوئی اور حلیمہ بچ پائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔