فلسطینیوں کے لیے دنیا اندھی گونگی بہری

عابد محمود عزام  جمعرات 24 جولائی 2014

میں آگ برساتے ان ’’انسانوں‘‘ میں انسانیت کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، لیکن مجھے ان میں انسانیت کی ایک رتی بھی دکھائی نہیں دیتی، چہرے اگرچہ ان کے بالکل انسانوں کی طرح ہیں، ویسے ہی منہ، کان، ناک، ہاتھ اور دوسرے اعضاء بھی، لیکن انسانوں کی سی شکل و صورت ہونے کے باوجود یہ انسانیت سے بالکل محروم دکھائی دیتے ہیں۔ اگر کسی کو اس بات سے اختلاف ہو تو وہ غزہ اور سدیروت کے مناظر دیکھ کر خود فیصلہ کرسکتا ہے۔

یہ اٹھارہ لاکھ افراد کو محصور کیے ہوئے 362 مربع کلومیٹر پر محیط دنیا کی سب سے بڑی جیل غزہ ہے، جس کی مشرقی کالونی الشجاعیہ میں ہزاروں اسرائیلی فوجیوں کی زمینی کارروائی کا آغاز ہے۔ اسرائیلی افواج ہیلی کاپٹروں، جیٹ طیاروں اور ٹینکوں سے مسلسل آگ و بارود برساتے ہوئے بلا تخصیص بچوں، خواتین اور بوڑھوں سمیت تمام افراد کو موت کے گھاٹ اتارتی چلی جا رہی ہے۔ الشجاعیہ میں اکثر عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل کی جا چکی ہیں۔ اس کالونی کی گلیاں اور سڑکیں مظلوم فلسطینی شہدا کی لاشوں اور زخمیوں سے بھری پڑی ہیں۔

ہزاروں فلسطینی جان بچانے کے لیے اپنے معصوم بچوں کو اپنے سینوں سے چمٹائے جلد از جلد اس بستی کو چھوڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، اسرائیلی افواج جائے پناہ تلاشتے فلسطینیوں پر بھی بمباری کر کے ان کو موت کے گھاٹ سلا رہی ہیں۔ بمباری کے خوف سے کوئی شخص اسرائیلی جارحیت کی بھینٹ چڑھنے والے فلسطینیوں کی جگہ جگہ بکھری پڑی جلی کٹی لاشوں کو اٹھانے کے لیے آگے بھی نہیں بڑھ رہا۔

دوسری جانب الشجاعیہ کی سڑکوں پر سیکڑوں کی تعداد میں زخمی فلسطینی تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں، 2014ء کا ’’مہذب اسرائیل‘‘ تمام جنگی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس بستی میں زخمیوں کو اٹھانے کے لیے جانے والی ایمبولینس گاڑیوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے، صرف یہی نہیں، بلکہ صیہونی وحشی و خونخوار فوجی، زخمی فلسطینیوں کا علاج کرنے والے اسپتالوں اور فلاحی مراکز کو بھی نشانہ بنا کر کئی ڈاکٹروں کو اپاہج اور متعدد زخمیوں کو موت دے چکے ہیں اور یہ حملے عالمی قوانین کے مطابق ممنوع قرار دیے گئے فاسفورس بموں اور کیمیائی ہتھیاروں کے ساتھ بلا خوف و خطر کیے جا رہے ہیں۔

اس کالونی میں حرکت کرتا دکھائی دینے والا ہر انسان اسرائیلی بمباری کی زد میں ہے۔ دنیا کا قانون ہے کہ صحافی برادری ہر جگہ آزادی سے اپنی ذمے داریاں نبھا سکتی ہے، لیکن یہاں تو اسرائیلی بمباری کی زد میں آ کر جان جان آفریں کے حوالے کرنے والے معصوم فلسطینی بچوں، پاک دامن خواتین، کمزور بوڑھوں اور نہتے نوجوانوں کی رپورٹنگ کرنے سے بھی دنیا بھر کے صحافیوں کو اسرائیل نے روک دیا ہے۔

دوسری جانب یہ ’’اسرائیلی انسانوں‘‘ کا علاقہ سدیروت ہے، جہاں ایک پہاڑی پر ہوٹل کے باہر تفریحی کیمپ کی شکل میں کرسیوں اور صوفوں پر بہت سے لوگ براجمان ہیں۔ یہ لوگ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر ہونے والی بمباری کا نظارہ کرنے کے لیے یہاں جمع ہیں، غزہ کی پٹی پر اسرائیلی میزائل گرنے کے بعد ان کے چہرے خوشی سے کھلکھلا اٹھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو مکئی کے بھنے ہوئے دانوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور بعض حقے کے کش لگا کر محظوظ ہو رہے ہیں اور ساتھ اسرائیلی درندگی کا نظارہ کر رہے ہیں۔ ان کی خوشی کا عالم اس وقت دیدنی ہوتا ہے جب اسرائیلی میزائل غزہ میں کسی فلسطینی خاندان کو شہادت کی قبا پہنا تے ہیں، فلسطینیوں کی اموات سے یہ ’’انسان‘‘ بے پایاں خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔

سی این این کی بین الاقوامی نمایندہ ڈیانا میگنے وہیں سے رپورٹ کرتی ہیں: ’’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں بہت سے اسرائیلی جمع ہیں اور وہ جب اسرائیلی حملوں کو دیکھتے ہیں تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ جونہی غزہ پر بم گرتا ہے تو سدیروت کی پہاڑی پر بیٹھے اسرائیلی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘ الشجاعیہ اور سدیروت کے مناظر دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صرف شکل و صورت انسانوں جیسی ہونے سے انسانیت کا پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو غزہ میں جاری بہیمیت انسانیت سے عاری انسانوں کی درندگی و حیوانیت کا نوحہ نہ سنا رہی ہوتی۔

غزہ میں فلسطینیوں پر جاری ننگی اسرائیلی فوجی جارحیت تیسرے ہفتے کو بھی سمیٹنے والی ہے۔ بے قصور بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو نہایت سفّاکی کے ساتھ مسلسل شہید کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی درندگی کی بھینٹ چڑھ کر سیکڑوں شہید اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں اور اسرائیل کی سفاکانہ اور جارحانہ کارروائیوں میں روز افزوں شدت اور اس کا نشانہ بننے والے مظلوم فلسطینیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود اسے روکنے کے لیے کسی بھی سطح پر کسی مؤثر اقدام کی کوئی کوشش کہیں ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔

کوئی اسے روکتا تو کیا، عالمی طاقتیں اس ظلم عظیم پر اسے تھپکی دے رہی ہیں۔ امریکا اور یورپ تو کھل کر اس کی حمایت میں کھڑے ہو چکے ہیں۔ صہیونی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اعلان کرتا ہے کہ غزہ کے باسیوں کو خون میں نہلانے کا حق اسے بین الاقوامی لیڈوں نے عطا کیا ہے، اس سلسلے میں اس کو بہت مضبوط بین الاقوامی اور واشنگٹن کی حمایت حاصل ہے۔

جب کہ امریکی صدر اوباما مسلم ممالک کے سفراء کے سامنے غزہ پر اسرائیلی حملوں کو پہلے ہی جائز اور دفاعی ضرورت کا حق دیتے ہوئے یہ کہہ چکا ہے کہ: ’’ میں سمجھتا ہوں اسرائیل پر راکٹ حملے ناقابل معافی ہیں اور اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔‘‘ اقوام متحدہ میں فلسطین کے مندوب ریاض منصور نے آنسوئوں سے لبریز آنکھوں اور بھرائی ہوئی آواز میں اقوام عالم سے یہ سوال کیا ہے کہ: ’’اپنے دفاع کا یہ کیسا حق ہے کہ جو اہالیاں غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹا کر پورا کیا جا رہا ہے؟‘‘

اسرائیل تاریخی بربریت کر کے فلسطینیوں کو اس خطے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنا چاہتا ہے، عالمی برادری کی جانب سے دکھاوے کے چند مذمتی بیانات کو اسرائیل ہوا میں اڑا چکا ہے۔ عالمی طاقتوں سے تو خیر گلہ ہی کیا، کیونکہ وہ تو ہمیشہ سے اسرائیل کی پشتی بان رہی ہیں اور ہر محاذ پر اسرائیل کو تھپکی دیتی آئی ہیں۔ افسوس تو دنیا کے نقشے پر دو درجن عرب اور تین درجن سے زاید غیر عرب مسلم ممالک پر ہے۔

اگر اتنے ممالک اپنے ہم مذہب مظلوم بھائیوں کی خاطر صرف اسرائیل کی طرف گھور ہی دیں تو کیا ڈرپوک اسرائیل کی اتنی جرات کہ وہ فلسطینیوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے؟، لیکن اکثر مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ سالانہ اربوں روپے کی تجارت کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں، تجارتی رشتہ ٹوٹنے کے خوف سے وہ صرف خالی خولی اور پھسپھسے بیانات دے کر اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہو جانا چاہتے ہیں، او آئی سی اور عرب لیگ جیسی مسلم تنظیمیں تو اپنی بنا کا مقصد ہی بھول چکی ہیں، ان سے تو امید ہی کیا۔

چلیں یہ تو سب عیش کوش ٹھہرے، لیکن کیا صرف مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ’’اسلامی خلافت‘‘ قائم کرنے والی کئی درجن جہادی تنظیموں کے ہتھیاروں کو بھی مظلوم فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے والے صیہونیوں پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے؟ کیا وہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال ہو سکتے ہیں؟ تمام مسلم و غیر مسلم دنیا مظلوم فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر لبوں پر گوند لگائے یہ پیغام دے رہی ہے کہ فلسطینیوں اپنے بچے ذبح کرواتے رہو اور خود ہی اپنے لاشے اٹھاتے رہو ،کیوں کہ ساری دنیا اندھی، گونگی اور بہری ہو چکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔