کمرشل تھیٹر کو تھیٹر کہنا ہی نہیں چاہیے، یہ تو نائٹ کلب ہیں، عثمان پیرزادہ

محمود الحسن  جمعرات 24 جولائی 2014
تھیٹر، فلم اور ٹی وی کے ممتاز اداکار اور ڈائریکٹر عثمان پیرزادہ کے حالات وخیالات۔   فوٹو : فائل

تھیٹر، فلم اور ٹی وی کے ممتاز اداکار اور ڈائریکٹر عثمان پیرزادہ کے حالات وخیالات۔ فوٹو : فائل

رفیع پیر نے ساری زندگی تھیٹر کے واسطے وقف کئے رکھی۔ 1974ء میں دنیا سے سدھارے توان کی اولاد نے رفیع پیرتھیٹرکے ذریعے جس قدرعمدگی سے ان کے کام کوآگے بڑھایا،وہ اپنی مثال آپ ہے۔

ان کے بچوں نے باپ کی راہ پرچلنے کو باقی کاموں پرمقدم جانا۔ رفیع پیر کے بچوں میں سے سب سے بڑھ کرناموری عثمان پیرزادہ کے حصے میں آئی۔ تھیٹر، فلم اورٹی وی پراداکارکی حیثیت سے انھوں نے بھرپورانداز میں اپنے ہونے کا احساس دلایااورساتھ میں ڈائریکٹرکی حیثیت سے بھی خود کو منوایا۔بڑے باپ کا بیٹا ہونا ان کے لیے دباؤ کا باعث نہیں بنا بلکہ اس رشتے کو انھوں نے اپنی قوت جانا، اور والد کو آئیڈیل اوراستاد مان کران سے انسپریشن لی۔ ہوش سنبھالا تو گھر میں ہرسو کتابوں کوموجود پایا،جن سے کھیلتے کھیلتے دوستی ہوگئی۔

کتابوں کی صورت میں گھرمیں علمی سرمائے کی فراوانی اپنی جگہ مگرباہرسے علم کا بہتا دریا ان شخصیات کی صورت بھی ان کے ہاں کا رخ کرتا، جن سے والد کی گاڑھی چھنتی تھی، ایسوں میں صوفی تبسم،فیض احمد فیض اوراشفاق احمد جیسی معتبر ہستیاں شامل تھیں۔اس علم دوست ماحول میں عثمان پیرزادہ پروان چڑھے۔والد کا سفارش پریقین نہیں تھا ،چاہتے تھے کہ بیٹا اپنی دنیا آپ پیدا کرے۔

یہی وجہ ہے کہ ٹی وی پرآڈیشن دینے کے لیے عثمان پیرزادہ کو منیزہ ہاشمی کی مددلینی پڑی، جو اس زمانے میں نئی نئی پروڈیوسربنی تھیں۔ٹی وی پر ’’جھروکے‘‘ میں جلوہ افروزہونے سے قبل وہ باقاعدگی سے تھیٹر کررہے تھے۔ گورنمنٹ کالج ڈرامیٹک سوسائٹی کے پلیٹ فارم سے خاصے سرگرم تھے۔ سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری رہے۔

71ء میں کنیرڈ کالج میں منعقدہ نجم الدین ڈراما فیسٹیول میں سرمد صہبائی کے تحریرکردہ ڈرامے’’ڈارک روم‘‘ میں عمدہ پرفارمنس پر بہترین اداکار کا انعام پایا۔اس ڈرامے کو فنی زندگی میںٹرننگ پوائنٹ قراردیتے ہیں۔سرمد صہبائی ہی کے لکھے ’’پھندے‘‘میں بھی بہترین پرفارمنس دی۔

اس دور میں یوجین اونیل کے ڈرامے beyond the horizon اور آرتھر کوپٹ کے Oh Dad, Poor Dad, Mamma’s Hung You in the Closet and I’m Feelin’ So Sad کی جواڈاپٹیشن ہوئی،اس میں بھی کام کیا۔ اس کارگزاری سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس تندہی سے تھیٹرکررہے تھے۔تھیٹراورٹی وی کے بعد فلم کا دَر، ان کے لیے خود بخود کھل گیا۔ 1975ء میں کراچی میں پرفارم کرنے گئے تو ایک روز ڈرامے کے بعد جاوید جبار ان سے ملے اور بتایا کہ وہ”Beyond The Last Mountain”  کے نام سے انگریزی فلم بنارہے ہیں،جس کے لیے ان کا آڈیشن کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مان گئے۔ آڈیشن دینے کے دودن بعدفیصلہ ان کے حق میں آگیا۔ اس پہلی فلم کے بعدعثمان پیرزادہ نے سری لنکا کے تعاون سے بننے والی فلم ’’سازش‘‘میں چھوٹے اور بڑے بھائی کا ڈبل رول کیا۔

سری لنکا ، فرانس اوراٹلی کے اشتراک سے بننے والی فلم ’’سیتا دیوی‘‘ میں رام کا کردارکیا ۔بعد ازاںپاکستانی فلموں میں دوبرس اداکاری کی لیکن پھرادھر کے کثیف ماحول سے زچ ہوکرفلم انڈسٹری چھوڑ دی۔ان کی آخری اردو فلم’’مس ہانگ کانگ‘‘سپرہٹ فلم تھی اورایسا ہی معاملہ آخری پنجابی فلم’’عالیجاہ‘‘ کے ساتھ رہا ، اس لیے وہ اس تاثر کو بے بنیاد قراردیتے ہیں کہ فلموں میں ناکامی کے باعث انھوں نے انڈسٹری چھوڑی۔ کہتے ہیں ’’فلم انڈسٹری سے بھاگ میں اس لیے گیا کہ ادھر جو کچھ ہورہا تھا اس کو کرنے پرروح نہیں مانتی تھی، اس لیے سوچا کہ تبدیلی نہیں لاسکتے تو پھراس گند کو کرنے کا فائدہ۔‘‘

فلم انڈسٹری چھوڑنے کے بعد کچھ برس تو توجہ ان کی رفیع پیرتھیٹرپرہی مرکوز رہی۔ 1986ء میں خود ہی کچھ نیا کرنے کا عزم لے کر فلمیں بنانے کی ٹھانی۔اردو میں ’’نزدیکیاں‘‘ اور پنجابی میں ’’گوری دیاں جھانجھراں ‘‘ جیسی نہایت کامیاب فلموں کو، جنھیں کئی ایوارڈ ملے، ڈائریکٹ اور پروڈیوس کیا اور اداکاری بھی کی۔ ’’قرض‘‘ جیسی مشہورفلم کو لکھا اور ڈائریکٹ کیا۔ ’’زرگل ‘‘پروڈیوس کی، جو ان کے بقول، پہلی پاکستانی فلم تھی جس کو بین الاقوامی فلم فیسٹیولز میں دکھایا گیا۔ پاکستانی فلموں کے پست معیار پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’فلم انڈسٹری کو نقصان اس سے تعلق رکھنے والے افراد نے ہی پہنچایا ، اس پرآفت باہرسے نہیں آئی۔ ملتان روڈ کی فلم انڈسٹری فارغ ہوچکی ، یہ گنگا بھی نہا آئیں تب بھی ان کی فلم کسی نے دیکھنی نہیں۔

ان بیچاروں کو وژیول کا پتا ہی نہیں، انھیں احساس ہی نہیں کہ زمانہ کتنی تیزی سے بدل چکاہے۔‘‘ان خیالات کے باوجود فلمی کشت ویراں سے ناامید نہیں، اورمعاملات میں سدھار کیلئے نئی نسل پران کو بھروساہے۔ان کی دانست میں ’’13 سے 27 برس کی عمرتک کے لوگ آبادی کا  65 سے 70 فیصد ہیں، ان کے لیے جو فلم بنائے گا وہ کامیاب رہے گا۔ نوجوان بڑے باصلاحیت ہیںاورفلم میں یہ لوگ اسی طرح ابھریں گے جیسے کسی زمانے میں میوزک بینڈ اٹھے تھے اوربرصغیر میں ان کی چیزیں سنی گئی تھیں۔

ان کا کوئی استاد تھا نہ ہی کسی ادارے سے انھوں نے تربیت لی تھی۔ٹیلنٹ خود رو چیز ہے اس کو آپ کنٹرول نہیں کر سکتے۔‘‘ تھیٹران کا عشقِ اولین ہے۔ اس کی خراب حالت پر بھی کڑھتے ہیں اوراپنے ہاں ہونے والے کمرشل تھیٹر کوآڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔’’اس وقت جو کمرشل تھیٹرہورہا ہے، اسے تھیٹر کہنا بھی تھیٹرکی توہین سمجھتا ہوں، اسے میں نائٹ کلب کہتا ہوں، ہمارے ہاں نائٹ کلب نہیں تواس کمرشل تھیٹر نے اس کی جگہ لے لی۔‘‘فلم کی طرح اچھے تھیٹر کی امیدیں بھی انھوں نے نئی نسل سے وابستہ کررکھی ہیں۔ کہتے ہیں، سنجیدہ تھیٹربھی ہورہا ہے اس لیے حالات بتدریج بہتر ہونے کی توقع باندھی جاسکتی ہے۔

تھیٹر کو وہ اداکار کا جب کہ فلم کو ڈائریکٹر کا میڈیم قرار دیتے ہیں۔ اس لیے فلم کا اگرمعاملہ ہوگا تو وہ سب کام چھوڑ کراسے ڈائریکٹ کرنا پسند کریں گے اور تھیٹر کی اگر بات ہوگی توان کی ترجیح اداکاری ٹھہرے گی۔ تھیٹرپرکام کرنا انھیں زیادہ چیلنجنگ لگتا ہے۔ ان کے بقول ’’تھیٹر ٹکڑوں میں نہیں کرتے۔ پردہ ایک باراٹھ گیا تو بیچ میں کوئی حائل نہیں۔ اب آپ ہیں یا سامعین۔ جس دن عمدہ پرفارمنس دیتے ہیں، آپ کو پتا لگ جاتا ہے، یہ نہیں کہ فلم اورٹی وی کی طرح اپنے کام کی داد بعد میں آپ کو ملے اورکوئی کہے کہ فلاں کردارآپ نے بہت عمدہ کیا تھا۔‘‘

ڈراما کیا ہے اس سے متعلق وہ رفیع پیرکی اس رائے کو سند جانتے ہیں ’’ڈراما، شعر اور موسیقیت سے لبریز آوازمیں بولتے ہوئے، ناچتے ہوئے، گاتے ہوئے افراد کی مترنم اورخیال افروز حرکات کے ایک سیل رواں کا نام ہے جس کے مشاہدے سے وجدان انسانی میں شعور اور سرخوشی کے ابدی چراغ جل اٹھیں۔‘‘

ہم نے ان سے پوچھا’’تھیٹراورفلم کے فنکاروں کا ٹی وی کی طرف آنا کہیں اوپرسے نیچے کی طرف کا عمل تو نہیں کہ بہرحال ٹی وی کے مقابلے میںمذکورہ دونوں میڈیم زیادہ بڑے ہیں؟‘‘اس سوال پران کا جواب ہے’’ ٹی وی پرکام کرنا نیچے آنا نہیں۔نیچے اوراوپرکی طرف کی بات بس یہیں سوچی جاتی ہے۔ٹی وی کا کام تیزہے۔

کمرشل ہے۔ پی ٹی وی کے دورمیں ہم نے ٹی وی کو آرٹ سینما بنانا چاہا اور کچھ ممکن ہوبھی گیا کہ سرکاری سرپرستی حاصل تھی لیکن اصل میں یہ بارسینما ہی اٹھاسکتا ہے، ٹی وی نہیں، یہ تیزمیڈیم ہے۔ ریمورٹ آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔آج کل کے اداکاروں کے لیے اس میں کشش بھی ہے، پیسے بھی اچھے ملتے ہیں،اب پی ٹی و ی کے زمانے کی طرح ریہرسل کی وجہ سے بہت زیادہ وقت نہیں لگتا، کم وقت میں بہت سی ریکارڈنگ ہوجاتی ہے۔نجی چینلوں کے آنے سے کام کے مواقع بھی ٹی وی پرزیادہ ہیں۔‘‘

ٹی وی پران کے کامیاب ڈراموں کی لمبی فہرست ہے،اس سفر میں شہرت کا صحیح معنوں میں آغازمگر’’دوسرا آدمی‘‘سے ہوتا ہے۔ ’’تیسرا کنارہ‘‘ میں اپنے کام پر انھیں فخر ہے۔ ’’حصار‘‘، ’’پاتال‘‘ اور ’’ساحل‘‘ بھی ان کے یادگار ڈرامے ہیں۔’’ ایک اورایک‘‘ میں کامیڈی رول بھی خوبی سے کیا۔’’صوفیہ‘‘نام سے سیریل ڈائریکٹ کی اور ان کے بقول یہ پہلی پرائیویٹ پروڈکشن تھی جو پی ٹی وی پر چلی۔ ٹی وی پر اپنے جو دوکرداران کو سب سے اچھے لگے، وہ دومختلف ڈراموں میں پاکستان آرمی کے کرنل کے کردار ہیں۔ فلموں میں ’’ایکسیڈنٹ‘‘ میں دماغی طورڈسٹرب آدمی کا کردار نبھانا سب سے اچھا لگا۔ تھیٹر میں’’ڈارک روم‘‘کا کردار پسند ہے۔ کسی خاص کردارکو کرنے کی تمنا نہیں بلکہ جو بھی کردارمل جائے اس کو محسوس کرکے نبھانے پریقین ہے۔

ڈراما سیریل ’’دریا‘‘میں انھوں نے حقیقی زندگی کی طرح ڈرامے میں بھی ثمینہ پیرزادہ کے شوہرکا کردار نبھایا۔ڈرامے میں کہانی کے مطابق وہ ثمینہ پیرزادہ کو طلاق دے دیتے ہیں۔اس پرہمارے ہاں شورمچ گیاکہ سچ مچ طلاق ہو گئی۔ اس سارے قضیے کو اجمالاً یوں بیان کرتے ہیں۔

’’اس معاملے میں کئی علماء کرام ہمارے موقف کے ساتھ تھے، خاص طور سے جامعہ اشرفیہ کے مولانا صاحب نے ہمارا ساتھ دیا۔ڈرامے میں بیوی کو طلاق کو حقیقی طلاق سمجھنا غلط بات تھی۔ڈرامے میں ایک کردار دوسرے کو طلاق دیتا ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ آپ فلم اورڈرامے میں کسی کو قتل کردیں تو اس کی بنیاد پرآپ کو پھانسی دینے کی بات کی جائے۔ دوسرے نیت کی بھی بات ہوتی ہے۔ اچھا جس بات پراعتراض کا ڈرتھا ، اس پرسرے سے بات ہی نہیں ہوئی۔ وہ بات یہ تھی کہ اس سیریل کا کلائمکس بڑا زبردست تھا۔ عورت ، دوشوہروں کے ساتھ ہے، اوراس نے اب فیصلہ کرنا ہے کہ کس کے ساتھ اس نے رہنا ہے۔

وہ سمجھتی تھی کہ اس کا شوہرمرگیا ہے لیکن وہ زندہ نکلتا ہے اوربرسوں بعد سامنے آجاتا ہے، اس پرمیں نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہ ہو تو مجھے کہا گیا کہ نہیں اس میں ایسی کوئی بات نہیں، یہ تو درپیش صورت حال کا بیان ہے، لیکن اس سے پہلے ہی طلاق والا مسئلہ کھڑا ہوگیا اور اس میں پھر سب دب گیا۔‘‘عثمان پیرزادہ کی زندگی کا کوئی بھی بیان ثمینہ پیرزادہ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوگا۔ دونوں کی پہلی ملاقات 1973ء میںہوئی۔

دو سال بعد رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔کہتے ہیں، یہ کوئی پہلی نظرمیں محبت والا معاملہ نہیں تھا۔یہ محبت دھیرے دھیرے پروان چڑھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو جانا۔ان کے درمیان خط کتابت بھی رہی، جس میں صرف پیاربھری باتیں ہی نہیں بلکہ باہمی دلچسپی کے امورپربھی تبادلۂ خیال ہوتا۔ پروپوز کرنے میں ثمینہ نے پہل کی۔ عثمان پیرزادہ کی دو بیٹیاں ہیں۔ انعم نے وومن اسٹڈیزمیں ڈگری حاصل کی۔

امل کو تصویریں بنانے کا شوق ہے۔ ان کے بقول’’ہم نے اولاد خود پالی ہے ، نوکروں نے نہیں پالی۔میں مصروف ہوتا توثمینہ انھیں سنبھالتیں اوراگر ان کی مصروفیت ہے تو میں انھیں  دیکھتا۔‘‘ ڈیڑھ برس قبل چھوٹے بھائی فیضان پیرزادہ کی موت نے ان کو توڑ کررکھ دیا۔ بھائی کی کمی انھیں قدم قدم پرمحسوس ہوتی ہے۔ 5 فروری 1951ء کو لاہورمیں آنکھ کھولنے والے عثمان پیرزادہ کے بہن بھائیوں کی ترتیب کچھ یوں ہے: سلمان، تسنیم، کوثر، عثمان، عمران۔سادان اور فیضان جڑواںہیں۔والدہ کا سایہ سرپرموجود ہے۔

عثمان پیرزادہ کی زندگی کا ایک اہم دوروہ بھی ہے جو انھوں نے گورنمنٹ کالج میں گزارا۔ اس ممتازتعلیمی ادارے میںان کے داخلہ کا قصہ بھی دلچسپ ہے۔یہ جان مکڈونلڈ اسکول میں پڑھتے تھے۔پرنسپل کے میاں کی رفیع پیرسے دوستی تھی ، تووہ ان کو ذاتی طورپرجانتی اوربہت پیارکرتی تھیں، لیکن ایک استانی عثمان پیرزادہ سے خار کھاتی تھی، ایک روز اس نے انھیں منہ پرتھپڑ مارے، ساتھ میں لڑکیاں بھی پڑھتی تھیں، توان کے سامنے مار پڑنے نے انھیں اوربھی برافروختہ کر دیا، نتیجتاً اسکول جانے سے انکاری ہوگئے۔

یہ بات نویں جماعت کی ہے۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایک عزیز دوست فائق امین گورنمنٹ کالج میں داخل ہوگئے تو اب ان کے ہاں ادھر داخلے کی خواہش زورپکڑ گئی۔اسکول چھوٹنے پردوست کے ساتھ جاملنے کی راستہ آدھا یوں رہ گیا کہ جس برس نویں جماعت کا امتحان دینا تھا،وہ دسویں جماعت کا امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے پاس کرکے جی سی پہنچ گئے۔ نمبران کے اتنے نہیں تھے کہ اس معروف تعلیمی ادارے میں داخلہ ان کو مل سکے ، یہ توان کے مرحوم پرداداپیرقمردین ان کی مدد کو آئے ، جنھوں نے 1868ء میں گورنمنٹ کالج سے گریجویشن کی تھی اوراب ان کی قرابت (kinship) کے باعث عثمان پیرزادہ کو ادھر 1967ء میں داخلہ مل گیا۔ عثمان پیرزادہ کے دادا بیرسٹر پیر تاج الدین بھی گورنمنٹ کالج سے فارغ التحصیل تھے۔

تقسیم سے قبل پنجاب مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل رہے۔ علامہ اقبال سے بھی ان کی دوستی تھی۔ والد رفیع  پیر بھی اس مایہ نازتعلیمی ادارے سے پڑھے۔ بی اے کے بعد ایم اے انگریزی میں داخلہ لیا۔ کلاسز ضرور پڑھیں مگرامتحان دینے سے قاصر رہے۔ مقررہ وقت پر امتحان اکہتر کی جنگ کے باعث نہ ہو سکے اور پھر امتحان ایک دو باراور بھی ملتوی ہوا ، اور جب آخرکاراس کا ہونا ٹھہرگیا تو اس وقت یہ فلم میں مصروف تھے۔اپنے بچپن اورجوانی کا لاہورانھیں رہ رہ کر یاد آتا ہے۔ وہ لاہورکی ثقافتی اعتبار سے بربادی کا ذمہ داری چھوٹے شہروں سے اس بڑے شہر کا رخ کرنے والوں کو قراردیتے ہیں۔ اسی شہر میں ان کے خاندان نے رفیع پیر تھیٹرکا پودا لگایا جو اب تن آوردرخت بن چکا ہے۔

یہ تھیٹر گروپ سالہا سال سے بین الاقوامی فیسٹیول بھی کروارہا تھا لیکن چند برس قبل بم دھماکوں کے بعد سے ایسا ہونا ممکن نہ رہا ، جس کا انھیں بہت رنج ہے۔ پاکستان کے حالات پربھی دل گرفتہ ہیں۔ کہتے ہیں ’’یہ وہ پاکستان نہیں جس کے ساتھ میں بڑا ہوا۔ہمارے بچپن اورجوانی کے زمانے میں بناوٹ اورافراتفری نہیں تھی۔ اہل مذہب، مذہب کو بیچتے تھے نہ سیاست دان ، سیاست کو، نفسا نفسی کا عالم نہیں تھا۔ اسمگلرکی تحقیرہوتی تھی ، اب اس کے الٹ ہورہا ہے۔ ہماری قوم کے ساتھ بہت جھوٹ بولا گیا، اسے غلط تاریخ پڑھائی گئی۔

رفتہ رفتہ معاشرہ زوال پذیر ہوتا چلا گیا۔‘‘ آرٹ میں ان کے نزدیک سب سے بڑی بات سچائی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان کے لوگ فنون لطیفہ سے بے حد پیارکرتے ہیں، اس لیے انتہا پسندی کے باوجود اس سلسلے میں کام جاری وساری رہے گا۔ عثمان پیرزادہ کے والد نے انھیں باور کرایا تھا کہ دنیا جہاں گھومو اور مختلف ثقافتوں کی چیزوں سے استفادہ بھی کرو لیکن مٹی سے اپنا ناتا کمزورنہ پڑنے دینا کہ فنون لطیفہ کی بنیاد یہی مٹی ہے۔ یہی پیغام ان کا نوجوان نسل کے لیے بھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔