(پاکستان ایک نظر میں) - ایک اور باب بند ہوا!

سلیم ناصر  جمعرات 24 جولائی 2014
حارث دنیا کے سفر پر نکلا اور دنیا ہی چھوڑ گیا۔ اِس کی یہ کوشش ایک ایسے شجر کی آبیاری کے لیے تھی جس کا سایہ بہت سو  کو ٹھنڈی چھاوں فراہم کرنا تھا۔ فوٹو: رائٹرز

حارث دنیا کے سفر پر نکلا اور دنیا ہی چھوڑ گیا۔ اِس کی یہ کوشش ایک ایسے شجر کی آبیاری کے لیے تھی جس کا سایہ بہت سو کو ٹھنڈی چھاوں فراہم کرنا تھا۔ فوٹو: رائٹرز

کہا جاتا ہے کہ دنیا میں کوئی کام مشکل نہیں اگر مشکل ہے تو صرف مثبت سوچ ،آج کے اس جدید دور میں لوگ اپنے لیے زیادہ اور ضرورت مندوں کے لیے کم سوچتے ہیں،جس کے نتیجے میں ہم لوگ بعض اوقات معاشرے کے غور طلب مسائل بھی نظرانداز کردیتے ہیں۔

17سالہ پاکستانی نژاد امریکی نوجوان کیپٹن حار ث کے ذہن میں کچھ کرب سوار تھے وہ قوم کی تقدیر بدلنا چاہتا تھا اور اس کی آنکھوں میں ایک چمک نظر آتی تھی،اس 17سالہ نوجوان نے اپنے ملک کے غربت کے مارے تعلیم سے دور افراد کے لیے چندہ جمع کرنے کے غرض سے اپنے والد کیپٹن بابر سلیمان کے ہمراہ دنیا کا سفر کرنے کا عہد کر لیا ۔ اس نوجوان کا جذبہ سیسہ پیلائی ہوئی دیوار کے مانند تھا  جبکہ ہمت چٹانوں سے مشابہت رکھتی تھی،کیوں کہ یہ بیٹا جس کام کے لیے اپنے باپ کے ساتھ دنیا کا چکر لگانے کے لیے نکلا تھا اس میں ان کوکئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ سکتا تھا۔ حارث اور اُن کے والد جس جہاز سوار تھے وہ ایک انجن پر مشتمل تھا جسے عام طور پر سمندر کے اوپر پرواز کرنے سے منع کیا جاتا ہے لیکن حارث اس بات سے بلا خوف و خطر  اپنے مشن کو پانے کے لیے دنیا کے سفر پر روانہ ہوگیا۔

جب حارث اپنے والد کے ہمراہ پاکستان کے شہر لاہور پہنچے تو ان کا پاکستانی عوام نے پر جوش استقبال کیاتھا، اس موقع پر بابر سلیمان کا کہنا تھا کہ اُن نے دنیا بھر سے 10لاکھ ڈالر غریب بچوں کی تعلیمی امداد کے لیے جمع کرنے کا ہدف رکھا تھا،اورخوش قسمتی سے صرف 40فیصد سفر کرنے کے بعد 6لاکھ ڈالرجمع کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔کیپٹن بابر کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے بعد سری لنکا اوربنگلہ دیش کا بھی سفر کریں گے،جب انسان کے دل میں ہوکار خیر کا جزبہ تو کوئی مشکل نہیں کہ اس انسان کی جان میں جہاں سما ء جائیں۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظورتھا ،کیوں کہ جب انھوں نے اپنا سفر ختم کیا اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں ہوائی کے مقام پر ان کا جہاز پانی مین ڈوب گیا جس سے باپ بیٹا دونوں کو شہادت نصیب ہوئی۔

یو ں تو یہ خاندان 1980میں پاکستان سے ہجرت کرکے امریکا میں قیام پزیر تھالیکن ملک کی محبت نے ان کو چین سے  بیٹھنے نہیں دیا اور جب انھوں نے اس عظیم کار خیر کی ابتدا ءکی تو ان کو محسوس ہوا کہ ہم اب اپنے ملک پاکستان سے باہر رہتے  ہوئے بھی ملک سے دور نہیں ہیں۔  حارث دنیا کے سفر پر نکلا اور دنیا ہی چھوڑ گیا۔ اِس کی یہ کوشش ایک ایسے شجر کی آبیاری کے لیے تھی جس کا سایہ بہت سو  کو ٹھنڈی چھاوں فراہم کرنا تھا۔  پاکستانی نوجوانوں کے لیے کیپٹن حارث کی شہادت ایک عظیم مثال ہے،حارث  ملک سے باہر رہتے ہوئے بھی ملک کے لیے ایسا کر گیا کہ آئندہ لکھی جانے والی تاریخ میں ان کو زندہ رکھاجائے گا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔