پاکستانی بچے اب بڑے ہو گئے ہیں…

کاشف شہزاد  جمعـء 25 جولائی 2014

اگر ہم اپنے پرائمری نصاب کا ایک اور مطالعہ کریں تو ہمیں یاد آئے گا کہ ایک سبق، جس کا مضمون ’’پاکستانی بچے‘‘ تھا۔ سبق میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح سے علاقائی اور لسانی بنیاد پہ پاکستانی بچے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ بہت سے بچے خود کو اس سبق سے ہم آہنگ نہ کر پائے، لیکن سب بچوں کے درمیان فرق ضرور پیدا ہو گیا۔ لسانی انفرادیت کی بنیاد پر دیا جانے والے یہ سبق  کمسن ذہنوں پر ایک گہرا، منفی اثر چھوڑ گیا۔

معصوم بچوں نے نہ صرف اس  لسانی فرق کو محسوس کیا بلکہ اس فرق کو فروغ بھی ملا۔ بچے جلد ہی اس فرق کو فخر کی نظر سے دیکھنے لگے اور اپنی لسانی انفرادیت کو ترجیح بھی دینے لگے۔ اس انفرادی لسانی برتری کی دوڑ  میں ہمارے بچے قومی ہم آہنگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک قومی شناخت کے بجائے لسانی شناخت کی جانب گامزن ہو گئے۔ ہم یہ بات کیسے بھول سکتے ہیں کہ معاشرتی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انسانی تفریق کا ارتقا اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ انسان ہے۔

ہم نے یہ فرق کبھی رنگ، نسل، لسانی، علاقائی  شکل میں دیکھا ہے جب کہ اس کے برعکس بیشتر مذاہب اس طرح کے ہر فرق  کی نفی کرتے ہوئے بھائی چارے اور باہمی ملنسار کا درس دیتے ہیں۔ لیکن چند  مطلب پرست عناصر  اکثر و بیشتر اس فرق کو واضح کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت قطعی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہم اس خطے میں باہمی اتفاق کے ساتھ کئی صدیوں سے زندگی گزارتے آئے ہیں۔ جس میں ہم نے ایک دوسرے کو احترام کے ساتھ تسلیم کیا۔

تاریخ میں اچانک پھر ایسا وقت آیا جب یہ محسوس کیا گیا کہ اس خطے میں دو ایسی قومیں ہیں جو اب مزید اس رشتے کو برقرار نہیں رکھ سکتیں اور دو قومی نظریے پیش کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ ان دو قوموں کو علیحدہ علیحدہ وطن  میں تقسیم کر دیا جائے۔ اکثریت کی مخالفت کے باوجود انقلاب اور آزادی کے جذبے سے سرشار قوم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی اور اپنے لیے اور آگے آنے والی نسلوں کے لیے علیحدہ وطن حاصل کر لیا۔ اس  آزادی کی قیمت لاکھوں شہداء نے اپنی جان سے اور غازیوں نے مال کی قربانی سے ادا کی۔

لاکھوں نے اپنی آبائی زمین کو خیر باد کہا اور ایک علیحدہ اور آزاد مملکت کا رخ کیا، جہاں وہ صرف ایک قوم کی طرح زندگی گزار سکیں۔ تمام قوم ملی یکجہتی سے سرشار ایک آزاد ریاست میں اخوت اور بھائی چارے کے ساتھ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو گئی۔ اس وسیع تر لسانی ملاپ، جس کی بنیاد ’’ایک قوم ایک مملکت ‘‘ پر رکھی گئی تھی، سیاست کے ٹھیکیداروں نے دوسرے زاویے سے دیکھا اور بے انتہاء تفریق کی سازش بننا شروع کر دی۔ جب اس سازشوں پر نظر ڈالی جائے تو ہم یہ بخوبی جان لیں گے کہ لسانی تفریق کو جڑ بنا کر ہر ممکن تفریق کو فروغ دیا۔

اس کا دوسرا قدم دیہی اور شہری علاقوں کی تقسیم تھی، جس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ ہم کسی بھی دیہی علاقے کو شہری درجہ دینے سے قاصر ہیں۔ کچھ طبقے اس ناکامی کا سہرا دیہی مراعات کو پہناتے ہیں اور کچھ قومی پسماندگی اور مرکزی قیادت کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ وجوہات جو بھی ہوں، حالات ان تفریق پیدا کرنے والے نظریات کو منظور کرتے رہے اور آپس میں فرق و فرقہ واریت، لسانی شروع ہوئی، اس نے اپنا رخ دین کی جڑوں کی جانب کیا اور ایسے فرق پیدا کیے جن کا کوئی جواز نہیں بنتا مگر فرق واضح ہوگیا اور قومی یکجہتی کو مسلسل نقصان پہنچتا رہا۔ آج ہماری قوم ہر طرح کے فرق کو تسلیم کرتی ہے جس کا بھرپور اظہار قومی انتخابات میں کیا گیا جو ملی یکجہتی سے کافی دور تھے۔

کچھ صوبے لسانی رحجان کی طرف راغب دکھائی دیے، کچھ مذہبی اختلافات میں مبتلا رہے اور کچھ دیہی اور شہری تقسیم ثابت کرنے میں مصروف دکھائی دیے۔ دو قومی نظریہ جو ایک ملت کی بنیاد رکھنے کے لیے پیش کیا گیا تھا، ایک پر منظم سازش کے ذریعے دو سے چار اور پھر اس سے زائد تجاوز کر گیا۔ ہماری قوم جس میں ایسے رہنما پیدا ہوئے جنہوں نے نا صرف عوام کو یکجا کیا بلکہ ایک علیحدہ آزاد مملکت دلانے میں کامیاب بھی ہوئے۔ برعکس اس کے آج ہمارے پاس ایسے رہنماؤں کی بھرمار ہے جو نہ صرف فرقہ واریت کا  درس دیتے نظر آتے ہیں اور قومی یکجہتی کو اپنے فقہہ تک ہی محدود کر بیٹھے ہیں۔

ایسے نام نہاد رہنما کی پذیرائی کی وجہ کچھ بھی رہی ہو لیکن اس کی ذمے داری عام عوام کو بھی جاتی ہے، جس نے ایسی سوچ کو پروان چڑھنے دیا اور ناقابلِ برداشت نظریے کی تبلیغ بھی ہونے دی۔ قوم ایسی  بے راہ روی کا شکار رہی جس سے اب شاید واپسی کا راستہ نہیں دکھائی دیتا ۔ وقت آ گیا ہے کہ ایسے تمام منصوبے اور عزائم جس سے کسی بھی طرح تفریق ہو نے کا یقین یا اندیشہ ہو، انھیں نہ صرف منسوخ کیا جائے، بلکہ اس کی افزائش اور تصور کو ختم کیا جائے۔

ان تمام ایسے فرسودہ روایات، تعلیمات اور تبلیغ کو مملکت کے لیے نقصان دہ قرار دیا جائے۔ ایسے عناصر جو ایک قوم کو مشترکہ  قومی جذبے سے اختلاف یا دور کرتی ہو، اس کی نفی کی جائے، چاہے ان عزائم کی بنیاد  مذہب، لسانیت یا پھر علاقائی پر رکھی گئی ہو۔ ایک قوم کی بنیاد اخوت اور بھائی چارے پر ہی رکھی جا سکتی۔ اس کی شروعات ہمیں اپنے تعلیمی نصاب سے لے کر ایسی تعلیمات پر منحصر کرنی پڑے گی جو تفریق کی تعلیم سے دور اور پوری ملت کو یکجا کرے نہ کہ آپسی فرق کو اجاگر کرے۔

مملکت کے تمام لوگوں کو برابری کی نظر سے دیکھا جائے اور کسی بھی طبقے کو کسی بھی بنیاد پر سبقت نہ دی جا ئے۔ کسی بھی خاص وجہ سے خصوصی مراعات نہ دی جائیں اور برابری کی فضا کو فروغ دیا جائے۔ ہمارے آپسی اختلافات کی وجہ سے ملک ایسے دوراہے پر کھڑا ہوا ہے، جس سے ایک ہی راستہ سالمیت کی طرف جاتا ہے۔ آج پاکستانی بچے صرف بڑے ہوئے ہیں، کل ان کے بچے بھی بڑے ہونگے، مگر وہ کتنی طرح کے اور  فرقے ہونگے، یہ ہمیں نامنظور ہونا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔