کلاریٹا پتاجی (Claretta Petacci)…

ڈاکٹر تہذیب فاطمہ  جمعـء 25 جولائی 2014

1932ء میں جب مسولینی انچاس برس کا تھا اور پانچ بچوں کا باپ تھا اس کی ملاقات ایک بائیس سالہ خاتون سے کلاریٹا پتاجی سے ہوئی، وہ ایک اطالوی فزیشن کی بیٹی اور فلائٹ لیفٹیننٹ کی بیوی تھی، مسولینی سے ملاقات کے کچھ عرصے بعد اس نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی، کلاریٹا ایک بہادر، جری، خاتون ہونے کے علاوہ ایک وفادار، حسین اور بے مثال خاتون تھی۔ اس کے کالے بال لمبے اور کھنگھریالے، ماتھا روشن، قدرے کشادہ  بھنویں، درمیانی پرکشش سبز آنکھیں، اونچی ناک، نتھنے کچھ ابھرے ہوئے اوپرلا ہونٹ ، چھوٹا اور باریک نچلا ہونٹ کچھ موٹا، دانت چھوٹے جیسے موتی سفید جڑے ہوئے، ٹھوڑی قدرے چھوٹی، چہرہ چوکور سا مگر دل آویز۔ بدن سڈول بھرا، متوازی ٹانگیں۔ خوبصورت بھری ہوئی لمبی خوش اندام اور آواز بھرائی ہوئی دل کش، خاتون کلاریٹا پتاجی تھی۔

1945ء میں اٹلی پر اتحادی فوجوں اور اندرونی مخالفتوں کا دبائو مسولینی کے لیے بڑا شدت خیز تھا۔ مسولینی کو اپنے بچائو کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی، ایسے ایک دوست نے اسپین جانے کا مشورہ دیا، مسولینی نے ارجنٹائن کی جانب سے موصول ہونے والی پیشکش ٹھکرا دی، جو اسے پناہ اور تحفظ دینے کے حوالے سے تھی۔ کلاریٹا نے ایک فرضی کار ایکسڈنٹ میں مرنے کا مشورہ دیا جو وہ بھی بے سود رہا، مسولینی نے اپنے تئیں ویلنٹینا کے پہاڑوں میں فاشسٹوں کے ساتھ گوریلا جنگ لڑ کر جان دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

اس نے 23 اپریل 1945ء کو اپنی بیوی رشیلا کو گربگرانو میں فون کیا کہ بچوں کے لیے سوئٹرزلینڈ کی فلائٹ کا بندوبست کرائے گا، مگر بے سود، مسولینی کلاریٹا پتاجی کے پاس میلان پہنچا، کلاریٹاپتاجی کا خاندان فلائٹ کے ذریعے اسپین سویٹرزلینڈ جانے کا بندوبست کر چکا تھا لیکن کلاریٹا نے خاندان کا ساتھ دینے کے بجائے کہا کہ ’’میں اپنی تقدیر کا ساتھ دینے جا رہی ہوں۔‘‘ کلاریٹا نے اپنی ایک دوست کو خط لکھا ’’مجھے نہیں معلوم میرے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے، کیونکہ تقدیر سے کچھ معلوم کرنے سے قاصر ہوں۔‘‘ مسولینی نے 25 اپریل 1945ء تک میلان میں رہ کر وطن سے باہر جانے کے تمام فیصلے اور منصوبے ترک کر دیے۔

پولیس سربراہ میلان جنرل مونگتا نے جب مسولینی سے عزت مندانہ حوالگی کا مطالبہ کیا تو مسولینی نے کہ ’’اگر فوج اور ملیشیا نہ بھی رہیں وہ تیس ہزار سیاہ پوشوں کے ساتھ پہاڑوں میں جنگ جاری رکھ سکتا ہے۔‘‘ حوالگی کی بات چھڑ گئی تو مشہور اطالوی جنرل مارشل گرزبانی نے کہا ’’فرض اور وقار کے قوانین بالائے طاق رکھ کر اپنے سب سے بڑے حلیف جرمنی کی رضامندی کے بغیر ایسا نہیں کرسکتے۔‘‘ مسولینی فاشسٹ ملیشیا کی وردی پہنے، کندے پر مشین گن رکھے، ضروری خفیہ کاغذات کے دو بریف کیس ایک با اختیار سیاہ پوش کے حوالے کر کے اپنی کار میں جا بیٹھا۔ میلان میں متعین سیاہ پوش جرمن جنرل نے حفاظتی دستہ مہیا کرنا چاہا لیکن مسولینی نے انکار کر دیا، لیکن انکار کے باوجود جرمن سیاہ پوش لیفٹیننٹ پُرزکو مسولینی کے ہمراہ کیا گیا، یہی تحفظ آخر اس کی موت کا باعث بنا۔

اطالوی سیاہ پوش حفاظتی دستے کا کمانڈر مسولینی کا نوجوان سیکریٹری لوگی گپٹی بھی گھٹنوں پر مشین گن رکھے، مسولینی کی گاڑی کے بانٹ پر بیٹھا تھا، جان نثاری کے اس احمقانہ اقدام کے وجہ سے مسولینی کی پوشیدگی کے بجائے موجودگی کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا، اس مختصر قافلے میں مسولینی کے بڑے بیٹے وٹوعیو کی  گاڑی تھی، کلاریٹا بھی اپنے بھائی، بھابھی اور بھتیجوں کے ساتھ تھے۔ قافلے میں شامل ایک شخص میزاسما  نے کہا کہ ’’شاید ہم اجل کی جانب روانہ ہیں۔‘‘ کومو میں سیاہ پوش دستے کو اتحادی فوجوں کی مسلسل پیش قدمی کی بنا پر مسولینی تک رسائی نہ مل سکی۔ مسولینی اپنے آخری ایام میں اپنی بیوی کو خط لکھا کہ ’’یقینا تمہی وہ عورت ہو جسے میں نے زندگی میں سب سے زیادہ چاہا ہے، شائد ہم پھر نہ مل سکیں، شائد ہم ایک دوسرے کو پھر نہ دیکھ سکیں۔

تم رومانو اور اینا کے ساتھ سوئززلینڈ چلی جانا، کوئی وجہ نہیں کہ تمھیں پناہ نہ مل سکے کیونکہ تمھارا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں رہا، نہ میرا برتائو کبھی سوئز لینڈ کے ساتھ خراب رہا ہے۔ میں ہمیشہ ان سے تعاون کرتا رہا ہوں، تمھیں معلوم ہے کہ مجھے بچوں سے کتنا پیار ہے ان کا خیال رکھنا، خصوصاً اینا کا، اگر کبھی میں تم سے درشتی سے پیش آیا ہوں تو مجھے معاف کر دینا۔‘‘ مسولینی کی بیوی نے کسی طرح اسے فون کیا کہ جب بے شمار لوگ تمھارے لیے مر مٹنے کو تیار ہیں تو پھر ایسا کیوں؟۔ تو مسولینی نے جواب دیا کہ ’’میں اکیلا رہ گیا ہوں۔‘‘ مسولینی کی فوج اور سیاہ پوشوں کی تعداد بیس لاکھ تھی لیکن اس نے خود کشی کا فیصلہ کر لیا تھا کہ ہٹلر کی طرح وہ  ذلت آمیز موت کے بجائے خود کشی کو ترجیح دے۔ خود کشی نہ کر سکنا ہی اس کی ذلت آمیز موت کا سبب بن گیا۔

کلاریٹا دلیر اور وفا دار خاتون تھی وہ جانتی تھی کہ وہ موت کا نوالہ بننے والی ہے لیکن وہ مسولینی کو اکیلے چھوڑنے کی لیے تیار نہیں تھی، جب مسولینی گرنیڈولا کی ایک تنگ وادی کے ایک ہوٹل کے پائیں باغ میں کلاریٹا کے ساتھ ٹہل رہا تھا، جرمن لیفٹینٹ نے اسے فوری اندر آنے کو کہا۔ پھر ڈونگو کے مقام پر گاڑیوں کی تلاشی کے خطرے کے پیش نظر جرمن لیفٹینٹ نے مسولینی کو نہ چاہتے ہوئے بھی ایک جرمن اوور کوٹ دیکر ٹرک کے پیچھے بٹھا دیا۔ کلاریٹا رو رہی تھی۔ جرمن لیفٹیننٹ سے کہا کہ اگر کلاریٹا کو تحفظ نہ ملا تو وہ ٓاگے نہیں جائے گا۔

ڈونگو میں تلاشی کے دوران مسولینی نے اپنی اطالوی ہونے کی شناخت کو پوشیدہ نہیں رکھا، لیکن اس نے جھوٹ نہ بول کر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا۔ کلاریٹا نے اپنی آخری خواہش ظاہر کی اسے مسولینی کے پاس آخری ایام گزارنے دیے جائیں۔ پونٹا ڈیلا فاک کے قرین کلاریٹا، مسولینی سے جا ملی تو مسولینی نے کہا ’’مادام آپ، یہاں کیوں آئیں؟۔‘‘  انھیں الگ الگ گاڑیوں میں رکھا گیا۔ یہ طے شدہ تھا کہ شمالی اٹلی کیمونسٹ بریشن کے تمام اراکان مسولینی کو قتل کرنے کے حق میں متفق نہ تھے جب کہ بوگی لونگو اور والٹر یسو المعروف کرنل ایریو اور چند اشخاص جلد از جلد مسولینی کو ٹھکانے لگانے کا خواہاں تھے۔

کرنل ایریو آڈیسو نے دھوکے سے مسولینی اور کلاریٹا کو اپنے ساتھ ، فرار کرانے کے بہانے سے سرائے بیٹنیٹ کے قریب لے گیا، مسولینی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اس کے ساتھ ایسا ذلت آمیز سلوک ہونے جا رہا ہے، کلاریٹا بھی تمام صورتحال سمجھ چکی تھی وہ مسولینی کے سامنے آ گئی ، اسے بار بار کہا گیا کہ سامنے سے ہٹ جائو ورنہ ماری جائو گی لیکن کلاریٹا نہ مانی، اس کہا کہ تم ہمیں اس طرح قتل نہیں کر سکتے، کلاریٹا نے کرنل کی مشین گن کی بیرل پکڑی ہوئی تھی، مسولینی نے کہا کہ پہلے میرے سینے پر گولیاں چلائو، کرنل نے فائر کیے تو پہلی گولی کلاریٹا کو لگی، جو مسولینی اور کرنل کے درمیان حائل تھی، کلاریٹا پہلی گولی لگتے ہی ڈھیر ہو گئی۔ مسولینی نے کلاریٹا کو اپنی بانہوں میں لینے کی کوشش کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔