(پاکستان ایک نظر میں) - بھتہ خوری نہیں بھائی عیدی ہے عیدی!

محمد سعید گھمن  ہفتہ 26 جولائی 2014
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کراچی میں بھتہ خوری کا عروج پر پہنچ جانا تو عام بات ہےاور ساتھ ان کی ڈیمانڈ بھی بڑھ جاتی ہے۔بھائی کیا اس میں حیرت اور پریشان ہونے کی بھی کوئی بات ہے؟۔ فوٹو: فائل

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کراچی میں بھتہ خوری کا عروج پر پہنچ جانا تو عام بات ہےاور ساتھ ان کی ڈیمانڈ بھی بڑھ جاتی ہے۔بھائی کیا اس میں حیرت اور پریشان ہونے کی بھی کوئی بات ہے؟۔ فوٹو: فائل

میڈیا پر خبر نشر ہوئی کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھتہ خوری عروج پر پہنچ جاتی ہے اور ساتھ ان کی ڈیمانڈ بھی بڑھ جاتی ہے۔بھائی کیا اس میں حیرت اور پریشان ہونے کی بھی کوئی بات ہے؟ ۔

جناب یہ بھتہ خوری تھوڑی ہے بلکہ یہ تو عیدی ہے عیدی۔ کیا پتہ ان بیچاروں کی بھی کوئی مجبوری ہو اور دیکھا جائے تو آخر ان کو بھی پیٹ لگا ہوا ہے اور ان کے بھی بیوی بچے ہیں اور انہوں نے بھی عید کی تیا ری کرنی ہے ،فطرانہ دینا ہے اور وغیرہ وغیرہ۔۔ اور پھر آپ لوگوں کی افطاری بھی تو کروانی ہے ، اور کیا ان کا آپ کے اوپر اتنا بھی حق نہیں ،کیونکہ آپ اپنی زندگی کی جو سانس لے رہے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کے درمیان شام کو لوٹ آتے ہیں وہ ان کی ہی تو مہر بانی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے جب آپ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو اس کوکہتے ہیں کسی نہ کسی طرح ہماری جان بچا لو ، پیسے چاہے جتنے مرضی لے لو اس کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں،کیونکہ جان نہیں تو پیسہ کس کام کا ۔ لیکن یہاں پر تو تھوڑے پیسوں کے بدلے میں اگر آپ اور آپ کے پورے خاندان کی جان بچ جاتی ہے تو آپ شکر کرنا چاہیے بجائے کہ ناشکری ۔

اورآپ جن لاکھ یا دو لاکھ کی بات کرتے ہیں وہ تھوڑا ان اکیلے بیچاروں نے کھانا ہے بلکہ وہ مل کر کھانے پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ اس بھتہ کو نظرانہ سمجھے گے تو آپ کے لئے زیادہ اچھا ہو گااور ہو سکتا ہے ۔اس میں آپ کا ہی بھلا ہے۔اور دوسرا پرچی کے ساتھ جو دو گولیاں آتی ہیں ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ عام گولیاں نہیں ان میں ہر مرض کی شفاء ہے۔ اگر کسی کا شوق ہو کہ میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے امداد طلب کروں تو یہ پولیس اور قانون کے رکھوالوں کے لئے بھی دو گولی صبح و شام میں بڑی مفید کارگر ثابت ہوتی ہیں ۔

یقیناًآپ کو اس بات کا علم تو ضرور ہو گا ہی کہ پولیس کے افسر اور نوجوان بھی بھتہ دیتے ہیں میرا مطلب ہے نظرانہ اور آخر وہ بھی تو انسان ہی ٹھہرے اور آخر ان کے بھی بیوی اور بچے ہیں۔ بھائی وہ مجبوری میں نہیں دیتے بلکہ وہ اپنی مرضی اور شوق سے اس نیک کام میں حصہ لیتے ہیں کیونکہ انہوں نے بھی تو اپنی پوسٹنگ اچھی جگہوں پر کروانی ہوتی ہے ۔اور جہاں تک حکومت کی بات ہے تو اب تک وہ یہ معاملات روکنے میں ناکام نظر آتی ہے باقی آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ میراتو خیا ل ہے کہ بیچارے سائیں قائم علی شاہ کو اس میں عمر پنگا لینے کی کیا ضرورت ہے۔ جہاں تک میاں صاحب کی حکومت کا تعلق ہے تو ان کی عمران خان صاحب سے جان چھوٹے کی تو وہ کراچی کا سوچیں گے۔اور دیکھا جائے تو ان کو فکر لاہور کی ہونی چاہیے اور ان کراچی کے پنگوں میں پڑے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟ ۔

آخر میں بس اتنا کچھ کہنے کے بعد یہی کہوں گا جب تک حکومت سوئی ہوئی ہے آپ بھی چپ چاپ خاموشی سے بھتہ میرا مطلب ہے عیدی دیتے رہیں ۔ بصورت دیگر نقصان آپکا ہی ہوگا  اور کوئی بھی آپ کی مدد کونہیں آئے گا نہ صوبائی حکومت اور نہ مرکزی حکومت ۔۔۔

پھر اس وقت پچھتائے کیا ہوت! جب چڑیا چگ گئیں کھیت

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔