(کھیل کود) - انگلش ٹیم کی شکست اور بھوت

مبشر اکرام  جمعـء 25 جولائی 2014
ساری رات ہمیں کمرے میں کوئی ’’تیسرا‘‘ محسوس ہوتا رہا اور ہم بے آرامی کی وجہ سے میچ نہ کھیل پائے۔ فوٹو فائل

ساری رات ہمیں کمرے میں کوئی ’’تیسرا‘‘ محسوس ہوتا رہا اور ہم بے آرامی کی وجہ سے میچ نہ کھیل پائے۔ فوٹو فائل

لینگھم پیلس لندن کے قدیم اور روایتی ہوٹلوں میں خاصی ممتازحثیت کا حامل ہے۔ یہ ہوٹل 1863ء میں خطیر سرمائے سے تعمیر کیا گیا۔اس ہوٹل میں برطانیہ کی پہلی ہائیڈرالک لفٹ انسٹال کی گئی تھی۔یہ ہوٹل اسوقت بھی اپنی طرز کا مہنگا ترین سرمائے سے تیار ہونے والا ہوٹل تھا۔اس ہوٹل میں تاریخ کی مشہور شخصیات ونسٹن چرچل بھی ٹھہرے اور لیڈی ڈیانا بھی۔ ہوٹل نے اپنی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں کئی عروج و زوال دیکھے۔یہ کئی دفعہ بند بھی ہوا لیکن پھر کھول لیا جاتا۔بی بی سی نے بھی کافی عرصہ اپنے براڈکاسٹنگ ہاؤس کے طور پراس ہوٹل کو استعمال کیا۔اس ہوٹل میں کئی دفعہ قتل بھی ہوئے اور کئی لوگوں نے اس کی چھت اور کھڑکیوں سے کود کر خود کشی بھی کی۔ان واقعات کی وجہ سے ہوٹل کے بارے میں پر اسرار واقعات مشہور ہونے لگے لیکن انہیں کبھی کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔

لیکن یہ عمارت اس ہفتے دوبارہ خبروں کی زینت بنی رہی۔لندن ہونے والے لارڈزٹیست کرکٹ میچ کے لیے برطانوی ٹیم کو اسی ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا۔اپنے ہی گھر میں برطانیہ نے بھارت سے 28 سال بعد شکست کا سامنا کیا۔اتنی بدترین ہار نے انگلینڈ کی ٹیم کا سر شرم سے جھکا دیا۔ٹارگٹ بہت زیادہ نہیں تھا لیکن انگریز بلے با بہت جلد ہی گراؤنڈ سے باہر ہو گئے۔برطانوی ٹیم کا رویہ اور باڈی لینگوئچ اس بات کی عکاسی کر رہی تھی کہ جیسے یہ کئی دن سے سوئے نہ ہوں اور شدید پریشانی کا شکار ہوں۔

فوٹو رائٹرز

میڈیا کے بار بار پوچھے جانے پر اسٹوورٹ براڈ نے میڈیا کو بتایا کہ اسے اپنے کمرے میں شدید پریشانی کا سامنا رہا۔ساری رات اسے غیر مرئی مخلوق تنگ کرتی رہی۔ کبھی باتھ روم کے نلکے چلنے لگتے اور بتیاں جل اٹھتیں۔’’بہادر بلّے باز‘‘ ساری رات پریشان رہے اور ٹھیک سے سو نہ پائے۔نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے دن گراؤنڈ میں اونگھتے ہوئے پائے گئے۔ رہی سہی کسر ان کھلاڑیوں کی ’’دوستوں‘‘ نے پوری کر دی جو ان کے ساتھ ٹھہری ہوئیں تھیں۔کمرے میں کوئی بھوت تھا یا نہیں لیکن کھلاڑیوں کی گرل فرینڈز نے ضرور چیخ چیخ کر ہوٹل سر پر اٹھائے رکھا ۔کئی کھلاڑی جو مینیجر کے پاس جا دھمکے اور لگے کمرہ بدلنے کی درخواستیں کرنے۔اس وقت کمرہ بدلنا تو ممکن نہ تھا لہذا وہیں پڑے رہے اور انٹرنیٹ پر دوستوں سے گپیں پار کر وقت گزارتے رہے۔

اگر ہوٹل میں ایسی کوئی بات ہوتی یقیناًاب تک یہ اجڑ چکا ہوتا لیکن ایسا نہیں ہے۔ہمارے معاشرے میں ڈراؤنی فلمیں دن بدن اپنی جگہ بناتی جا رہی ہیں۔بجا طور پر یہ بات تسلیم کی جا چکی ہے کہ ان فلموں سے ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی طور پر نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ظاہر طور پر ڈر نہ بھی محسوس ہو رہا ہو تب بھی ان فلموں سے گریز برتنا چاہیے۔کیونکہ اکثر اوقات لاشعور میں بیٹھا کوئی ڈر کئی سالوں بعد بھی کسی الجھن میں ڈال سکتا ہے۔

یہ عام مشاہدہ ہے کہ زیادہ ڈراؤنی کہانیاں پڑھنے والے یا فلمیں دیکھنے والے بچے بلاوجہ کے فوبیا کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کے لئے شام کے بعد اپنی ہی گھر کی چھت پر جانا بھی ممکن نہیں ہو پاتا۔والدین کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نہ تو ایسا لٹریچر پڑھنے دیں اور نہ ایسی فلمیں دیکھنے دیں جن سے ذہن میں خوف کا کوئی پودا جڑ پکڑے ،وگرنہ نتیجہ یہی ہوگا کہ وہم کا شکار کوئی ’’نیشنل ہیرو‘‘ میچ کے ہارنے کی وجہ یہی بتا رہا ہوگا کہ ساری رات ہمیں کمرے میں کوئی ’’تیسرا‘‘ محسوس ہوتا رہا اور ہم بے آرامی کی وجہ سے میچ نہ کھیل پائے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔