زبان کی عربنائزیشن

امجد اسلام امجد  اتوار 27 جولائی 2014
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

گزشتہ کچھ مہینوں سے حسب عادت ہم لوگوں نے پھر ایک خوامخواہ کا تنازعہ کھڑا کر کے انتشار کی اس آگ کو تازہ ایندھن فراہم کرنا شروع کررکھا ہے جس کی لپٹوں اور دھوئیں سے پہلے ہی ہمارے اردگرد کے منظر بدشکل ہو چکے ہیں۔ پتہ نہیں کیسے اور کیوں کچھ لوگوں کو یک دم یہ دورہ سا پڑا ہے (یا اس کا بطور خاص اہتمام کیا گیا ہے) کہ اردو میں استعمال ہونے والے عربی الفاظ کو ان کے اس تلفظ کے ساتھ ادا کیا جائے جو عرب ممالک نہیں، صرف سعودی عرب میں رائج ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس خالص لسانی، ثقافتی اور تہذیبی معاملے کو ایک مذہبی مسئلہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا کی مختلف زبانوں میں انسانی گلے سے نکلنے اور نکل سکنے والی آوازوں کو مختلف حروف سے وابستہ کر دیا جاتا ہے مگر ضروری نہیں کہ یہ صوتی اشاریے ہر قوم زبان اور گلے کے لیے ایک جیسے ہی ہوں۔ روزمرہ مشاہدے کی بات ہے کہ بعض زبانوں میں کسی دوسری زبان کے بعض حروف کو بعینہ ادا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔

کہیں ج۔ گ بن جاتا ہے کہیں گ۔ ج۔ کہیں ذ۔ج اور کہیں ٹ۔ ت وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح وکٹورین اور آکسفورڈین انگریزی کے بے شمار الفاظ امریکن انگریزی میں جا کر کچھ سے کچھ ہو گئے ہیں لیکن اسے کسی نے ’’بائبل‘‘ کا مسئلہ نہیں بنایا۔ ظاہر ہے عربی میں جب قرآن مجید پڑھا جائے گا تو اسے عربی تلفظ کے ساتھ پڑھنا ہی افضل ٹھہرے گا مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ایشیا، افریقہ اور یورپ کے بہت سے مسلمان اپنی اپنی زبانوں کی مخصوص مجبوریوں کے تحت عربی کے بعض الفاظ کو عربوں کی طرح ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کو عمومی طور پر ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں کہ اردو سمیت برصغیر میں بولی جانے والی بیشتر زبانوں میں عربی حروف کو صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

سو مسئلہ یہ ہے ہی نہیں کہ عربی حروف کو ان کے صحیح تلفظ کے ساتھ کیسے ادا کیا جائے؟ گڑ بڑ اس وقت ہوتی ہے جب ہم ان حروف کی اردو میں مستعمل آوازوں کو (جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ایک الگ پہچان قائم اور مستحکم کر چکی ہیں) عربی کے لحن میں ادا کرنے پر اصرار کرتے ہیں جب کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ حروف کی آوازیں اور تلفظ مقام اور عوام یعنی مختلف علاقوں اور ان میں بولی جانے والی زبانوں کے اثرات اور قواعد کے تحت بدلتے رہتے ہیں اور یہ ایک خالص لسانی اور تہذیبی مسئلہ ہے جسے کسی اور بات سے خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ لفظ کسی بھی زبان سے آئے جب وہ کسی دوسری زبان کا حصہ بن جاتا ہے تو اس کی وہی شکل اصلی اور معیاری ٹھہرتی ہے جو ’’دوسری‘‘ زبان میں استعمال کی جاتی ہو۔ شمس الرحمن فاروقی نے محمد حسین آزاد کی مشہور کتاب ’’آب حیات‘‘ سے اس ضمن میں ایک بہت دلچسپ واقعہ کچھ اس طرح سے نقل کیا ہے کہ

’’آب حیات میں آتش کا واقعہ لکھا ہے کہ جب انھوں نے لفظ ’’بیگم‘‘ کو اردو تلفظ کے مطابق زبر کے ساتھ باندھا تو ان سے کہا گیا کہ حضور ترکی میں گاف پر پیش ہے اور فارسی زبان کے قاعدے بھی اسی تلفظ کا تقاضا کرتے ہیں تو آتش نے بھنا کر جواب دیا کہ جب ہم ترکی جائیں گے تو ترکی بولیں گے، ابھی تو ہم اردو بول رہے ہیں۔

اسی حوالے سے برادرم عکسی مفتی کی تازہ کتاب ’’پاکستانی ثقافت‘‘ کا یہ اقتباس بھی قابل غور ہے کہ ’’برصغیر کو اسلام دینے والے ابتدائی صاحبان کشف نے کبھی ہمیں عربی لباس، زبان، طور طریقے اپنانے پر مجبور نہیں کیا تھا۔ انھوں نے ہمیں ہماری وراثت سے محروم نہیں کیا بلکہ انھوں نے وسیع القلبی سے اس کی ترویج اور ترقی کے لیے خدمات سرانجام دیں… اسلام میں تو کوئی جبر نہیں ہے۔ ہر مقامی چیز کو کمتر قرار دے کر کسی زبان، ثقافت اور ادب کو زبردستی اختیار کر لینے سے تو صرف اور صرف شدید احساس کمتری اور رد عمل کے طور پر ذلت آمیز نقالی یا مفقود شدہ تہذیب پیدا ہو گی… زبان کی بنیاد لوک ادب پر ہی ہوتی ہے اور یہی وہ قیمتی سرمایہ ہے جس میں کوئی گھپلا یا ملاوٹ نہیں۔‘‘

لطف کی بات یہ ہے کہ اردو کی ابتدائی اشکال (بابا فرید۔ امیر خسرو۔ دکنی اردو) سے لے کر اب تک کی انگریزی آمیز اردو تک شیخ امام بخش ناسخ اور رشید حسن خان جیسے لسانیات کے متشددین اور ماہرین تک کسی نے بھی اس بات پر زور نہیں دیا کہ مختلف زبانوں سے اردو میں شامل ہونے والے الفاظ کو ان کے اسی تلفظ کے ساتھ بولا جائے جو ان کے اصل وطن میں رائج ہے یہی وجہ ہے کہ اردو میں عربی، فارسی، ہندی، مختلف ہندوستانی زبانوں اور انگریزی، فرانسیسی اور پرتگالی کے الفاظ کی معیاری شکل ان کا اردو کا تلفظ ہی ہے۔ اگر بنگال، حیدر آباد دکن، بہار یا پنجاب کے لوگ اپنی عام بول چال میں صوتیات کے ضمن میں کچھ تبدیلیاں کرتے ہیں تو ان کا تعلق صرف گفتار کی حد تک ہے اور ایسا دنیا کی ہر زبان میں ہوتا ہے۔ لکھنے میں یہ لفظ اپنی مروجہ شکل میں ہی لکھے جاتے ہیں یعنی بولنے میں آپ بے شک جلیل کو ذلیل۔ قابل کو خابل۔ کراچی کو کرانچی یا گاڑی گاری بولیں مگر یہ لکھے اسی شکل میں جاتے ہیں جس سے یہ اردو کے لغت میں موجود اور مستعمل ہیں۔

اردو الفاظ میں عربی اصوات (مثلاً پاکستان کو باکستان یا رمضان کو رمدان کہنا) کو عربی تلفظ کے ساتھ لکھنے یا بولنے کی کوشش ایک غیر منطقی، غیر فطری اور بے معنی عمل ہے۔ ابھی تک یہ پوری طرح سے واضح نہیں ہو سکا کہ ایسا کون لوگ، کس لیے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر اس کا ماحصل سوائے انتشار، شدت پسندی اور جہالت کے فروغ کے کچھ نہیں ہو گا۔ ایسے ہی نان ایشوز Non Issues کو ایشوز Issues بنا بنا کر ہم نے پہلے ہی اپنی زندگیوں کو عذاب بنا رکھا ہے۔ سو اس کا جس قدر جلد سدباب کیا جائے اتنا ہی بہتر ہو گا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر سنجیدہ مسائل کا ایک مضحک پہلو بھی ہوتا ہے۔ اس حوالے سے میرے دوست قاضی آفاق نے اردو زبان کی اس بے معنی عربنائزیشن کی ایک مزاحیہ تصویر بھجوائی ہے کہ اس عمل کے بعد ہماری زبان کی شکل کس کس طرح کی ہو سکتی ہے۔ یہ مکالمہ چاند رات کو ان کے پڑوسی ضیا صاحب کو رمضان کی مبارک دینے سے شروع ہوتا ہے۔

’’ضیا صاحب۔ رمضان مبارک‘‘
جھٹ سے رکے پاس بلایا اور سخت لہجے میں بولے ’’آپ تو پڑھے لکھے لگتے ہیں… رمدان ہوتا ہے صحیح تلفظ، رمزان نہیں، عربی کا لفظ ہے عربی کی طرح بولا جانا چاہیے‘‘
’’آپ صحیح کہہ رہے ہیں دیا صاحب
فوراً چونکے ’’یہ دیا کون ہے؟
میں نے مؤدبانہ عرض کیا ’’آپ‘‘ فرمایا کیسے بھئی میں زیا ہوں‘‘

عرض کی جب رمضان، رمدان ہو گیا تو پھر ضیا بھی دیا ہو جائے یہ بھی تو عربی کا لفظ ہے۔ ضداد کا تلفظ خالی رمضان تک کیوں محدود ہو‘‘ ضیا صاحب جانے لگے تو ہم نے درخواست ڈال دی دیا صاحب کل افطاری میں بکوڑے بنوائیے گا تو ہمیں بھی بھیج دیجیے گا‘‘ فوراً پھڑپھڑا کر بولے ’’یہ بکوڑے کیا چیز ہے؟‘‘ ہم نے کہا عربی میں ’’پ‘‘ تو ہوتا نہیں تو بکوڑے ہی ہوئے بلکہ بکورے کیونکہ عربی میں ’’ڑ‘‘ بھی نہیں ہوتا۔ پیپسی بھی بیبسی ہو گئی ہے‘‘ ایک دم غصے میں آ گئے اور چیخ کر بولے ’’تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو؟

ہم نے کہا ’’پاگل نہیں، باگل‘‘ کہیے عربی میں باگل ہی ہوتا ہے‘‘ اور بھی غصے میں آ گئے۔ کہنے لگے ’’ابھی چپل اتار کر ماروں گا‘‘ ہم نے کہا چپل نہیں شبل کہیے۔ عربی میں ’’چ‘‘ بھی نہیں ہوتا۔ اب تو واقعی طیش میں آ گئے اور بولے ’’ابے گدھے باز آ جا‘‘ میں نے کہا ’’باز تو میں آ جاؤں گا مگر گدھا نہیں جدھا کہیے، عرب میں ’’گ‘‘ نہیں ہوتا‘‘ اب ان کا پارا ساتویں آسمان پر تھا ’’تو آخر عرب میں ہوتا کیا ہے؟‘‘ زبان ہماری بھی پھسل جاتی ہے کہہ دیا ’’آپ جیتے‘‘

ایک منٹ کے لیے اس کے مزاحیہ پہلو کو ایک طرف رکھ دیجیے اور صرف یہ دیکھئے کہ اس طرح کی جذباتی یا سپانسرڈ تحریکوں (جنھیں دُرفنطنیاں کہنا زیادہ مناسب ہو گا) کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے!

سو جو لوگ بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر اس سازش کا حصہ بنے ہوئے ہمیں انھیں سمجھانا، عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا اور ان سپانسرڈ لوگوں کا راستہ روکنا ہم سب کا اجتماعی فرض ہے کہ اب ہم مزید انتشار افورڈ بھی نہیں کر سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔