ہٹلر اور ایٹم بم

محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ  پير 28 جولائی 2014
03332257239@hotmail.com

[email protected]

ہٹلر اور ایٹم بم۔ ایک برا آدمی اور ایک بری چیز، لیکن ہمارے لیے دونوں اچھے ثابت ہوئے ہیں۔ جرمنی کے حکمران ہٹلر نے دوسری جنگ عظیم شروع کی اور کروڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ امریکا نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم برسائے اور لاکھوں لوگ مر گئے اور اتنے ہی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ ایک قابل نفرت انسان اور ایک قابل نفرت چیز۔ یقین جانیے برصغیر کے کروڑوں انسانوں کے لیے آزادی کا سبب بنیں یہ جنگ اور یہ بمباری۔ کہتے ہیں کہ بعض اوقات برائی میں سے بھی اچھائی نکلتی ہے۔

ہٹلر کی شخصیت اور ہیروشیما و ناگاساکی پر بمباری سے ہندوستان میں آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ شاید کہ اگر جرمنی کا چانسلر ہٹلر نہ ہوتا اور امریکا دو جاپانی شہروں پر بمباری نہ کرتا تو 14 اگست کو ہم آزاد نہ ہوتے۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان معرض وجود میں آتا۔ یہ بھی رائے کوئی مورخ قائم نہیں کرسکتا کہ قائداعظم اور گاندھی جی دو ممالک کے ’’بابائے قوم‘‘ ہوتے۔

ہٹلر کی شخصیت اور ایٹم بم گرائے جانے پر گفتگو کے بعد ہم جانیں گے کہ 6 اور 9 اگست پینتالیس نے کس طرح ہندوستان کے لیے آزادی کا دروازہ کھولا۔ قدرت گجرات کے دو قانون دانوں کو کس طرح عزت دینا چاہتی تھی۔ اگر یہ نہ ہوتا تو نہیں کہا جاسکتا کہ کراچی سے کلکتہ تک استعمال ہونے والے کرنسی نوٹوں پر کس کی تصویریں ہوتیں۔ جناح و گاندھی کی تصویریں یا کسی اور کی؟ نہیں معلوم کہ یہ بات پہلی بار کہی جا رہی ہے؟

ہٹلر آسٹریلیا میں 1889 میں پیدا ہوا۔ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست پر اسے افسوس تھا۔ تیس برس کی عمر میں وہ ’’نازی‘‘ پارٹی میں شامل ہوا اور دو برسوں میں اس کا غیر متنازعہ قائد بن گیا۔ پارٹی طاقتور ہوتی رہی۔ جس طرح اسرائیل بے گناہ فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے تو ممکن ہے قارئین کو ہٹلر کے بارے میں تعریف کا یہ انداز اتنا برا نہ لگے۔ 33 میں وہ جرمنی کا چانسلر بن گیا، نازیوں نے آمریت کا روپ تو دھار لیا لیکن ہٹلر نے بے روزگار نسل کا خاتمہ کیا اور جرمنی کو خوشحالی کے راستے پر ڈال دیا۔ 36 سے ہٹلر نے فتوحات کا سلسلہ شروع کیا۔ انگلینڈ اور فرانس معاشی بدحالی کے سبب خاموش تھے۔ آسٹریا اور پولینڈ پر ہٹلر نے قبضہ کرلیا۔ 40 میں اس نے ڈنمارک اور ناروے کو روند ڈالا اور پھر ہالینڈ اور بیلجیم کو تاراج کردیا۔

جون تک فرانس بھی شکست کھا گیا تھا۔ اب اس کا اگلا نشانہ انگلینڈ تھا۔ ایک سال بعد جرمنی نے یونان اور یوگو سلاویہ پر قبضہ کیا اور روس کے بڑے علاقے پر فتح حاصل کی۔ روس اور انگلینڈ مقابلہ کر رہے تھے۔ ہٹلر نے دسمبر میں امریکا پر بھی حملہ کردیا۔ اس سے پہلے جاپان پرل ہاربر میں امریکی بحری چھاؤنی پر حملہ کرچکا تھا۔ ہٹلر نے شمالی افریقہ کے بیشتر حصوں کو فتح کرلیا تھا۔ تاریخ میں کسی قوم کی کبھی اتنی وسیع سلطنت پر حکمرانی کی کم مثالیں ہیں۔ آہستہ آہستہ ہٹلر کو ہزیمت اٹھانی پڑتی گئی۔ روس میں اسٹالن گراڈ کی جنگوں میں شکست نے کمال کو زوال تک پہنچا دیا۔ اپریل 45 میں ہٹلر نے خودکشی کرلی اور سات روز بعد جرمنی نے ہتھیار پھینک دیے۔

دوسری جنگ عظیم نے یورپ کو کمزور کردیا۔ معاشی اور سیاسی لحاظ سے ان کے لیے ممکن نہ تھا کہ غلام ملکوں پر حکومت کرسکیں۔ 40 سے امریکا نے برطانیہ پر زور دینا شروع کیا کہ ہندوستان کو آزاد کردیا جائے۔ اس کمزوری کو دیکھ کر کانگریس نے ’’عدم تعاون‘‘ کی تحریک شروع کی۔ انگریزوں نے پارٹی قیادت کو گرفتار کرلیا۔ ابوالکلام آزاد کی رائے ہے کہ کانگریس کے رہنماؤں کی غیر موجودگی میں محمد علی جناح کو مسلم لیگ کو منظم کرنے کا موقع ملا۔

دنیا بھر میں شرطیں لگتیں کہ کون جیتے گا؟ جرمنی و جاپان یا اتحادی۔ جاپان آگے بڑھتے بڑھتے آسام کی سرحد تک آگیا تھا۔ ایسے میں انگریزوں نے وعدہ کیا کہ وہ جنگ کے بعد ہندوستان کو آزاد کردیں گے۔ ہٹلر جیسے قابل نفرت انسان نے اپنی تمام تر برائیوں کے باوجود سامراج کو کمزور کردیا۔ وہ سات سمندر پار سے حکومت کرنے کے قابل نہ رہے تھے۔ یہ سب کچھ ہٹلر کے سبب ہوا۔ اگر وہ دوسری جنگ عظیم نہ چھیڑتا تو ممکن ہے غلامی کی سیاہ رات مزید طویل ہوجاتی، پھر گاندھی، نہرو، پٹیل، ابوالکلام آزاد اپنی طبعی عمر پوری کرکے رخصت ہوجاتے۔

پھر قائداعظم، لیاقت علی خان، سردار نشتر اور خواجہ ناظم الدین تحریک آزادی کے کامیاب رہنما نہ کہلاتے۔ تاریخ یہ نہ کہتی کہ انھوں نے علیحدہ وطن حاصل کرلیا۔ پھر کیا ہوتا؟ کوئی نہیں جانتا کہ تاریخ میں ’’اگر‘‘ نہیں ہوتا۔ یہودی کہتے ہیں کہ ہٹلر نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کو مارا ہے، وہ اسے ’’ہولو کاسٹ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ واقعی ہٹلر کے جرائم کی تاریخ بہت طویل ہے لیکن اس نے سات سمندر پار سے غلام رکھنے والوں کے غرور کو توڑ دیا۔ جن کی سلطنت پر سورج غروب نہ ہوتا تھا، ہٹلر نے ان کے سر کو جھکا دیا۔ اتنے برسوں میں جو کچھ یہودی فلسطینیوں کے ساتھ کر رہے ہیں تو لگتا ہے کہ ہٹلر کی نفرت بے وجہ نہ تھی۔ کچھ بھی ہو بے گناہ کوئی بھی نہیں مارا جانا چاہیے۔

امریکا نے جاپان کے دو شہروں پر حملہ کرکے لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ اب تک تاریخ کا سب سے گھناؤنا قدم کہا جاتا ہے۔ اگر امریکا ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملہ نہ کرتا تو شاید ہم 47 میں آزاد نہ ہوتے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جرمنی تو ہار گیا لیکن جاپان نے ہتھیار نہ ڈالے۔ امریکی سمجھتے تھے کہ اسی طرح لڑتے رہے تو جنگ دو سال اور چلے گی اور اس کے بیس بائیس ہزار فوجی مارے جائیں گے۔ ایٹمی ہتھیار امریکیوں کے پاس تھا لیکن جاپانی اس سے محروم تھے۔ جب پاکستان نے بھارتی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے تو جاپانی ناراض تھے۔

وہ دنیا کی واحد قوم ہیں جو اس عذاب سے گزرے ہیں۔ پاکستانیوں نے دلیل دی کہ امریکا نے آپ پر ایٹم بم اس لیے برسائے کہ آپ اس صلاحیت سے محروم تھے۔ 6 اگست 45 کو امریکا نے ہیروشیما پر ایٹم بم پھینکا۔ اس قدر تباہی دنیا نے اتنے کم وقت میں اتنے کم رقبے پر نہ دیکھی تھی۔ وارننگ دی گئی کہ ہتھیار ڈال دیں۔ جاپانی نہ مانے اور امریکا نے تین دن بعد ناگاساکی پر بم برسا دیے۔ اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ نوجوان اب بھی ہتھیار ڈالنے پر تیار نہ تھے۔ بزرگوں نے کہا کہ اس طرح تو جاپان تباہ ہوجائے گا۔ ہتھیار ڈالنے کے فیصلے کی منظوری پر پوری پارلیمنٹ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ یوں دوسری جنگ عظیم امریکا، برطانیہ اور اتحادیوں کی فتح پر ختم ہوئی۔

ٹھیک دو سال بعد۔ جی ہاں دو ایٹم بم گرائے جانے کے دو سال بعد دو ملکوں یعنی ہندوستان اور پاکستان کو آزادی ملی۔ ممکن ہے ایٹم بم نہ گرائے جاتے تو انگریزوں سے چالیس ہزار فوجیوں کی مدد سے لڑنے والے سبھاش چندر بوس ہندوستان کے کمال اتاترک اور نجات دہندہ ثابت ہوتے۔ 45-46 میں ہندوستان میں انتخابات ہوئے اور مسلم لیگ مسلمانوں کی نمایندہ جماعت بن کر ابھری۔ برطانیہ میں چرچل انتخابات ہار گئے اور لیبر پارٹی برسر اقتدار آگئی۔ عظیم برطانیہ جس کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا وہ کمزور ہوچکا تھا۔ وہ جلدازجلد ہندوستان سے بوریا بستر سمیٹ کر واپس جانا چاہتا تھا۔

آزادی تک پہنچنے کے لیے وزارتیں بنیں، کانگریس اور لیگ کے مذاکرات ہوئے، وزارتی مشن کی تجاویز آئیں۔ بڑے بڑے لیڈروں نے انگلینڈ کا دورہ کیا پھر 2 ریاستوں پر رضامندی، بنگال اور پنجاب کی تقسیم، بٹوارے کے فوجی اور مالی امور اور پھر چودہ اور پندرہ اگست۔ یہاں محمد علی جناح کہلائے قائداعظم تو وہاں موہن چند کرم چند گاندھی کہلائے مہاتما۔ اگر جنگ دو تین برس طول پکڑ جاتی تو 78 سالہ گاندھی اور 71 سالہ جناح کا تاریخ میں کیا مقام ہوتا؟ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ہٹلر ایک قابل نفرت انسان اور ایٹم بم کا برسایا جانا ایک قابل نفرت قدم۔ اگر کھاد سے پھل نکل سکتا ہے یا کیچڑ میں کنول کھل سکتا ہے تو کسی غلط انسان یا غلط کام سے کوئی اچھائی نکل سکتی ہے۔ ہمیں اس انداز سے بھی دیکھنا چاہیے ہٹلر اور ایٹم بم کو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔