مغرب کا ایک اور جنگی جواز (آخری حصہ)

شبانہ یوسف  پير 28 جولائی 2014
shaboroz@yahoo.co.uk

[email protected]

سماجی نفسیات دانوں کا دعوی ہے کہ انسانی منفی سرگرمیوں کی وجوہات جاننے کے لیے نفسیاتی تجزیہ جو بہت سے نظاموں پر مبنی ہے کارگر ہوسکتا ہے ان میں سے ایک ٹرانسفیرنس کا عمل ہے جس کے ذریعے نفسیاتی تجزیہ کار مریض کے اچھے یا برے عمل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا اظہار مریض ’دوسرے‘ کی طرف کرتا ہے۔

یہ احساسات کسی انسان کے درون ذات کے ماضی سے وابستہ ہوتے ہیں، دوسرے الفاظ میں انسانی ذات کی تاریخ سے ان کا تعلق ہوتا ہے، جو کسی نہ کسی حد تک حال کو معنویت بھی عطا کرتے ہیں اور روزمرہ انسانی زندگی پر اپنے اثرات بھی مرتب کرتے ہیں۔ ان تھیوریوں کی روشنی میں امریکا کا کردار پروجیکشن کے عمل پر مبنی ہے جس میں ایک مریض تمام برائیاں دوسرے میں سمجھتا ہے جیسا کہ امریکا عہد حاضر میں طالبان یا اسلام کو برائی اور تباہی کا مرکز بنا کر دنیا میں پیش کرتا ہے۔

امریکا کے سیاسی بچپن کا جائزہ انھی تصورات کی روشنی میں لیتے ہوئے سماجی نفسیات دانوں نے سرد جنگ کو ایک ایسی ہی نفسیاتی ساخت کے نتیجے کے طور پر دنیا میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو ایک حد سے بڑھے ہوئے خوف اور پاگل پن کی تعمیر تھی، اس کے مطابق دونوں بلاک سوویت یونین اور امریکا ایک دوسرے کو دھمکانے کے لیے جو کچھ بھی کررہے تھے خود کو دفاع کار کے طور پر پیش کرتے ہوئے دوسرے کو امن کے لیے خطرہ گردان رہے تھے اور اپنے ہر ظلم اور تشدد کو دفاعی عمل قرار دے رہے تھے۔

مغربی سماجی نفسیاتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس اور امریکا ایسے دو نفسیاتی دفاع کار کے طور پر شناخت کیے جاسکتے ہیں جو ایک دوسرے سے نفرت اور خوف میں بیک وقت مبتلا تھے۔ ایک کی نفرت دوسرے کے اندر خوف کو جنم دیتی ہے اور اس خوف کے نتیجے میں دوسرے کے اندر بھی واپس نفرت جنم لیتی ہے اور اس نفرت کا عملی اظہار پھر پہلے میں خوف کو جنم دیتا ہے۔ روس اور امریکا کی سیاسی تاریخ اسی نفرت اور خوف کو دائرے پر مبنی ہے، یہ دائرہ نفسیاتی تجزیوں میں ’خوف اور نفرت‘ کے نام سے جسےVicious circle کہتے ہیں بہت جانا پہچانا ہے۔

سماجی و سیاسی نفسیاتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس کا خوف امریکا کو جنگی سازو سامان تیار کرنے پر ابھارتا ہے اور یہ خوف جنگ کی صورت نفرت کی ساخت میں ڈھل کر سامنے آتا ہے ، پھر امریکا کے اس عمل کے ردعمل میں سوویت بلاک میں خوف سے ابتدا ہوتا ہے جو نفرت کی شکل اختیار کرکے جنگی دفاعی حربوںمیں ڈھلتا ہے، یعنی دونوں ایک دوسرے سے خوف میں بھی ہیں اور نفرت میں بھی ہیں۔ سرد جنگ اسی دائرے پر مبنی ہے۔ اس طرح سے امریکا کی سیاسی زندگی میں روس کا ایک اہم کردار رہا ہے اسی لیے امریکا سوویت بلاک سے وابستہ ممالک کو اپنی نفرت کا نشانہ بناتا آرہا ہے۔

نفسیاتی سیاسی دفاع کار امریکا کی بربریت کو نفسیاتی مرض ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے شاید یہ بھول گئے ہیںکہ موجودہ عہد میںدہشت گردی کے نام پر ہونے والی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان امریکا ان ممالک کو دے رہا ہے جو امریکا کے ساتھ روس کے خلاف کھڑے تھے یعنی افغانستان اور پاکستان۔

بہرحال امریکا اور سوویت بلاک کی جنگی سرگرمیوں کے خطرناک نتائج سے خبردار کرتے ہوئے بھی حنا سیگل نفسیاتی تھیوریوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، گلف کی جنگ کا جائزہ لیتی ہے اور امریکی جنگی سرگرمیوں کو ایک نیا جواز فراہم کرتے ہوئے اصرار کرتی ہے کہ سرد جنگ کے بعد 1989 میں دیوارِ برلن کے گرنے کے بعد امریکا کو اپنی نفسیاتی عادت کے مطابق جو روس کے ساتھ سرد جنگ کی چار دہائیوں میں پختہ ہوچکی تھی، کو پورا کرنے کے لیے ایک نئے دشمن کو تلاش کرنا تھا یا تخلیق کرنا تھا اسی لیے 1991 کی گلف کی جنگ عراق کے خلاف برپا کی گئی۔

سیگل کے ان خیالات کی روشنی میں 9 ستمبر 2012 کو نیویارک میں ہونے والا ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کی شرح دو حوالوں سے کی جانی چاہیے۔ ایک تو یہ کہ امریکا نے یہ حملہ خود کیا، اپنی نفسیاتی عادت کے مطابق اپنا دشمن تخلیق کرنے کے لیے۔ دوسری شرح حملہ آوروں کے کردار کی بھی وہی کی جانی چاہیے کہ ان کو امریکی طاقت کا جو خوف تھا، اس نے ان کے لاشعور میں بے چینی کو جنم دیا جس کے نتیجے میں یہ غیر متوقع حملہ کیا گیا۔

اسی روشنی میں ہونے والی دہشت گردی کی جنگ جس میں افغانستان پر قبضے کا جواز طالبان کی تنظیم کی تباہی دیا گیا اور 2003 میں عراق پر قبضہ بھی انھی تھیوریوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو امریکی نفسیاتی عادت کا نتیجہ ہیں، جس کے تحت امریکا ہی اصل مجرم یا جنگی جنون میں مبتلا ثابت ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے موجودہ عہد میں طالبان کے حوالے سے امریکا اپنے عمل کو جواز دے رہا ہے، اسی طرح اسرائیلی زائیونسٹ ریاست فلسطین کے نہتے انسانوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہوئے حماس کو موردالزام ٹھہرا کر اپنے آپ کو دفاع کار کے طور پر پیش کررہی ہے۔

اس طرح اگر نفسیاتی تجزیاتی تھیوریوں یا نفسیات دانوں کے خیالات کی روشنی میں مقامی، قومی یا بین الاقوامی سیاست کا جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ نفسیاتی تھیوریوں کی مدد سے امریکی سیاسی و جنگی جرائم کی حقیقت کی پردہ پوشی کی جارہی ہے، کیونکہ نفسیاتی سماجی تجزیہ کاروں کے مطابق لاشعوری بے چینی کسی تضاد کو سمجھتے ہوئے برداشت کرنے کے بجائے عدم برداشت کو جنم دیتی ہوئی اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ اپنے مخالف سے محفوظ رہنے کے لیے خود کو تیار کرے۔

انھی تصورات کی روشنی میں دیکھا جائے تو امریکا نے اپنے پاگل پن کی تسکین کے لیے ایک مجموعی دشمن اسلامی دہشت گردی کے نام سے خود ساختہ تیار کیا ہے جس کی فوجی و جنگی اسلامی قوت امریکا اور اس کے اتحادیوں سے کئی گنا کم ہے اور جو دنیا کے لیے کسی خطرے کا باعث نہیں اور نہ ہی امریکا کے لیے، لہٰذا خوف اور نفرت کے نفسیاتی دائرے کا اطلاق یہاں ممکن نہیں جس کے تحت امریکا جواز دے سکے کہ دنیا عدم تحفظ کا شکار ہے، بلکہ امریکا اور اس کے اتحادی جس نفسیاتی جنگی مرض کا شکار ہیں ان کا علاج بھی نفسیات کے انھی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جانا چاہیے

۔ لہٰذا دنیا بھر کے نفسیاتی سماجی و سیاسی تجزیہ کاروں کو امریکا کے ساتھ بھی وہی کرنا چاہیے جو ایک ایسے فرد کے ساتھ کیا جاتا ہے جو نفسیاتی مرض میں مبتلا ثابت ہوجائے۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوگا، کیونکہ غیر عقل یا لاشعور کو صرف الزام دیا جارہا ہے تاکہ شعوری فلسفوںکی اہمیت کا شعور حاصل کرتے ہوئے تیسری دنیا کے لوگ مایوس ہوکر ان کے ایک نئے جال میں آجائے کہ عقل تو انسانی مسائل حل نہیں کر سکتی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بورژوا طبقات نے عقل کو اس لیے ناکام کہنا شروع کیا کہ تیسری دنیا اس کی بنیاد پر انھی کی طرح اپنے ہر جائز و ناجائز عمل کوان کے خلاف جواز فراہم کرتے ہوئے ان کے مقابل کھڑی نہ ہوسکے۔

اگر تنقیدی جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بورژوا عقل نے کبھی بورژوا کے مفادات کے خلاف کوئی عمل نہیں کیا۔ کبھی یہودی زائیونسٹ کے میزائل یا بم خود اسرائیل کی بستیوں یا عوام پر کیوں نہیں گرتے؟ کبھی امریکی ڈرون پاکستان یا افغانستان کے علاقوں میں حملہ آور ہونے کے بجائے واشنگٹن ڈی سی کے عوام کو موت کے گھاٹ کیوں نہیں اتارتے؟ کبھی لندن بمباری کے دوران جان بچانے کی خاطر بھاگتے ہوئے بے گناہ عوام میں سے برطانوی سپاہی کی گولی عقل کی ناکامی کی وجہ سے کسی گورے کا سینہ چھلنی کرنے کے بجائے کسی مسلم ہی کی جان کیوں لے لیتی ہے؟ اتحادی افواج عراق یا افغانستان پر ہی کیوں حملہ آور ہوتی ہیں؟ کسی یورپی یا امریکی ریاست میں ان کو دہشت گرد کیوں دکھائی نہیں دیتے؟

یہ جنگیں اگر غیر عقلیت کا نتیجہ ہوتیں تو ان کی لپیٹ میں یہ بورژوا یا سرمایہ دار خود ہوتا یا امریکا و برطانیہ کی اپنی ریاستیں اپنی ہی فوج کے ہاتھوں برباد ہورہی ہوتی، تو یہ بات مانی جاسکتی تھی کہ یہ عقل کا نہیں غیر عقل کا عمل ہے، البتہ اس روشنی میں پاکستانی ریاست کا کردار دیکھا جائے تو یہ نفسیاتی تھیوری کے تصورات کی روشنی میں ٹھیک لگے گا جو اپنے ہی ملک کے لوگوں کو امن کے نام پر موت کے گھاٹ اتارنے پر مصروف ہیں۔ مختصر یہ کہ مغرب والوں نے نفسیاتی تجزیاتی تھیوریوں کے ذریعے عقل سے کام لیتے ہوئے اپنے ظلم کو ایک اور جواز بخشا ہے۔ ورنہ اگر ارباب اختیار جب کسی مسئلے کو حل کرنا چاہیں تو اس کا حل ممکن ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔