ضرب عضب اور القاعدہ …

ذوالقرنین شاہ  پير 28 جولائی 2014

ضرب عضب اپنے ابتدائی مراحل میں کامیابی کے زینے طے کرتا ہوا تیزی سے اگلے مرحلوں میں داخل ہو رہا ہے۔ فوج کی دفاع وطن کے لیے دی جانے والی قربانیوں پر پوری قوم ان کی شکر گزار ہے۔یقیناً سوات آپریشن کے ماڈل کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت کے تعین میں دورانیے کو کم سے کم رکھنے پر ضرور توجہ دی گئی ہوگی۔ کیوں کہ وقت جتنا بڑھتا جائے گا دہشت گردی کے نیٹ ورک کو سانس لینے میں آسانی میسر ہوگی اور یہی وہ وقت ہوگا جب اس نیٹ ورک کے Sleeping Cells ہمدردگان عناصر اور دیگر براہ راست یا بالواسطہ ہمدردگان و پروموٹرز کو اپنے مذموم عزائم کے لیے Space ملنے کا موقع میسر آئے گا۔

بڑھتی ہوئی IDPs کی تعداد، مسائل کی زیادتی اور وسائل کی کمی کے علاوہ مفرور دہشت گرد عناصر جن کی اچھی بھلی تعداد پاکستان کے سیٹل ایریاز میں آچکی ہے اور اپنے ہمدردگان تک رسائی کے عمل میں مصروف ہوگی۔ آپریشن کے لیے مشکلات پیدا کرے گی، نیز پاکستانی سیاست کے مدوجزر اور بے وقت کے سیاسی راگ حکومت وقت کی بوکھلاہٹ اور کمزور اخلاقی بنیادیں پاکستان کی اس بقا کی جنگ کو تقویت دینے کے بجائے بالواسطہ طور پر دہشت گردی کے اس عفریت کو مدد پہنچا رہی ہے، جس کے سائے خیبر سے کراچی تک ہر دہلیز پر پہنچ چکے ہیں۔

ریاست پاکستان 50 ہزار لاشیں وصول کرچکی ہے مگر افسوس آج بھی دہشت گردی کے براہ راست یا بالواسطہ ہمدردگان نظریاتی کشمکش کی آڑ میں اپنی دکانوں کی حفاظت کرنے کی خاطر اس کو اپنی جنگ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں، کیوں کہ یہ ان کے معاشی، سیاسی مفادات کے خلاف ہے۔

دہشت گردی کے فرنٹ لائن کے مراکز کو تو ضرب عضب یقیناً تباہ کردے گی کیوں کہ افواج پاکستان کے پاس وہ حوصلہ اور وسائل موجود ہیں مگر حکومت پاکستان ان نظریاتی مراکز، گمراہ اور فسادی قیادت کا کیا کرے گی جو وطن عزیز کی شہ رگ میں پنجے گاڑے ہوئے ہیں، جو مذہب کو ڈھال بناکر عوام کو گمراہ کررہی ہے، ان مراکز کا کیا ہوگا جن کو ملکی اور بین الاقوامی ادارے دہشت گردی کی نرسریاں قرار دے رہے ہیں۔ حکومت وقت اور ذرایع ابلاغ کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ قوم کو بتائے کہ دہشت گردی کی اس جنگ کو جیتنے کے لیے ذمے داری  ہر اس شخص کے کاندھے پر ہے جو اس دھرتی کو اپنا وطن سمجھتا ہے۔

یہ جنگ طویل ہے، اس کو مختصر سمجھنا خودکشی کے مترادف ہے۔ القاعدہ کی حکمت عملی طویل المدتی ہے، القاعدہ کے نیٹ ورک کو سمجھنے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ اس نے کم مدت میں کرہ ارض پر بسنے والے ہر انسان کو کسی نہ کسی طرح متاثر کیا ہے۔ کون جانتا تھا کہ ایک ڈاکٹر اور دوسرا پیشے کے اعتبار سے انجینئر مل کر Global Village کو جہنم بنادیںگے، اخوان المسلمون کی تحریروں کے متاثرین جنوبی ایشیا میں آکر عالمی سطح پر خوف کی ایسی فضا تشکیل دیں گے کہ فائیو اسٹار ہوٹلز جیلیں بن جائیں گی۔

دنیا کے محفوظ ترین ایئر پورٹس پر خوف کی چادر بچھ جائے گی۔ مگر القاعدہ نے ثابت کیا کہ تنظیمی لحاظ سے اس کے کمزور یا طاقت ور ہونے پر تو سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں مگر نظریاتی بنیادیں ایسی بنا دی ہیں۔ ایشیا اور افریقہ کو چھوڑیے، مغربی یورپ اور امریکا کے سماج میں القاعدہ نے اپنا گھر بنالیا ہے، اب ان علاقوں کو افریقہ یا جنوبی ایشیا کے دہشت گردوں سے نہیں بلکہ Home Grown Terrorists سے خطرہ ہے، اس لیے مغربی ممالک کے بجٹ کا زیادہ حصہ دہشت گردی کے مراکز کو ختم کرنے پر استعمال ہورہا ہے۔

ان کے پالیسی ساز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے 9/11 کے بعد اس عفریت کا ادراک کرنے میں کامیاب رہے جب کہ ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی رہی، ہمارے رہنما پاکستانی قوم کو اس بات پر کنفیوژ کرتے رہے کہ کوئی مسلمان دہشت گرد نہیں ہوسکتا، کوئی مسلمان کیسے مساجد، مدارس، امام بارگاہ اور درسگاہوں کو بموں سے اڑانے کی جسارت کرسکتا ہے۔ وہ یہی راگ الاپتے رہے کہ یہ یہود و ہنود کی سازش ہے، اس میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے، بلیک واٹر، سی آئی اے، موساد، ایف بی آئی وغیرہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہ کارروائی کر رہے ہیں۔ انتہا یہ کہ القاعدہ کے وجود سے ہی انکاری کہ ایسی کسی تنظیم کا سرے سے وجود نہیں ہے، اسامہ بن لادن سی آئی اے کا ایجنٹ ہے۔

9/11 سے پہلے اور بعد کی تمام تر کارروائیاں امریکا کی اپنی تیار کردہ ہے۔ اتنا کنفیوژن کچھ مذہبی و سیاسی جماعتوں نے پھیلایا کہ مذاکرات کے دور کا آغاز ہوگیا۔ انھوں نے گڈ طالبان بیڈ طالبان کی اختراع نکال لی۔ ہم امریکا سے ڈبل گیم کرتے کرتے خود اس کا شکار ہوگئے۔ ہمارے اثاثے ہمارے لیے وبال جان بن گئے، جن اثاثوں پر ہم نے 2 عشرے ضایع کیے، اب ان کا ہاتھ ریاست پاکستان کے گریبان تک پہنچنے لگا ہے، لیکن آج بھی ہماری بڑی سیاسی، مذہبی پارٹیاں دل سے آپریشن کو قبول نہیں کر پارہی ہیں۔ آج بھی حالات کے جبر کے تحت کڑوی گولی کو  ہضم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال میں NATO انخلا کے بعد ہلمند کے عقابوں سے توقعات وابستہ کی جارہی ہیں اور یہ توقع کیے بیٹھے ہیں کہ عقاب تخت کابل کو بہت جلد فتح کرلیںگے اور پھر پاکستان کے اندر ہزاروں مدارس کا جال ان کی پشت پناہی کے لیے کھڑا ہوجائے گا۔ مگر یہ ہمارے سیاسی نابغائوں اور مذہبی پنڈتوں کو شاید سمجھ نہیں آئے گا کہ ان کا مقابلہ افغانستان کے طالبان سے نہیں بلکہ القاعدہ Core Team کے ساتھ ہے جس کی جنوبی ایشیا میں جڑیں کافی گہری ہیں۔ طالبان  تو محض شطرنج کے مہرے ہیں جب کہ دماغ القاعدہ کا ہے۔ سونے پر سہاگا امت مسلمہ کا نام نہاد ظہور مسٹر بغدادی کی چند فتوحات ہمارے بعض رہنمائوں کے دلوں میں امید کے چراغ جلارہی ہے اور یہ نابغہ روزگار اسپ تازی کی لگامیں کھینچنے کو بے قرار ہیں۔

بطور قوم ہمیں جلد سے جلد اس کنفیوژن سے باہر آجانا چاہیے کہ یہ جنگ مغربی طاقتوں کی نہیں ہماری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شروعات ہم نے نہیں مغربی طاقتوں نے کی مگر بد قسمتی سے اس کی سزا پاکستانی معاشرے کو بھگتنی پڑرہی ہے اس میں قصور ہمارا بھی ہے کہ پچھلے 30 سال میں اپنی ترجیحات کسی اور کے مفادات کے لیے طے ہوتی رہی ہیں۔ پاکستان کا عسکری بازو اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہے، اب پاکستان کے سیاسی سسٹم کو آگے آکر دہشت گردی کے اس عفریت کا مقابلہ کرنا ہوگا، کیوں کہ القاعدہ کا اگلا پڑائو پاکستانی شہروں اور دیہاتوں کی گلیاں اور محلے ہوںگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔