سب مایا ہے

عمر قاضی  پير 28 جولائی 2014
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

یہ شہر کراچی جس سے ہم بیزار بھی اور جس سے ہمیں پیار بھی ہے کبھی کبھی مجھے ایک عورت کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ ایک ایسی عورت جس سے ہم بہت تنگ بھی ہوتے ہیں اور اس کے سوا ہم رہ بھی نہیں پاتے۔ کیا کراچی اس عورت کی طرح ہے جس کے بارے میں شیکسپیئر نے لکھا تھا کہ Frailty, thy name is woman! یعنی اے خطا! تمہارا نام عورت ہے۔ کیا عورت خطا ہے۔ اگر یہ خطا بھی ہے تو کس درجہ خوبصورت خطا ہے۔ مرزا غالب نے کہا تھا کہ:

قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو

کاش کہ تم میرے لیے ہوتے

مردوں کا عورتوں کے بارے میں یہی رویہ رہتا آیا ہے۔ وہ ہمیشہ یہ ہی کہتے ہیں کہ عورت جیسی بھی ہے۔ بھلے وہ بے وفا ہو، بھلے وہ لڑنے جھگڑنے والی ہو، مگر وہ میرے لیے ہو۔ اس شہر کی طرح جس شہر کی برائی اب ایک روایت بن گئی ہے۔ اس شہر میں جب بھی لوگ ملتے ہیں تب شہر کے بارے میں اپنی منفی رائے کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اگر ان سے کہا جائے کہ آپ کو کراچی پسند نہیں ہے تو اسے چھوڑ کر کیوںنہیں جاتے؟ تو وہ کوئی مناسب جواب دینے کے بجائے ناراض ہوکر خاموش ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ کسی قیمت پر بھی اس شہر کو چھوڑنا نہیں چاہتے جس شہر سے ابن انشاء سے لے کر شیخ ایاز تک میرے بہت پسندیدہ شاعر بہت پیار کرتے تھے۔

شیخ ایاز کی بڑی خواہش تھی کہ جس طرح ’’ڈکنز لندن‘‘ نامی انگریزی کتاب لکھی گئی ہے اسی طرح کوئی ’’ایاز کا کراچی‘‘ بھی لکھے مگر جس شہر کے ادب دوستوں نے ابن انشاء کے حوالے سے کوئی کتاب نہیں لکھی وہ لوگ ایاز اور کراچی پر کیا لکھیں گے؟ لیکن یہ ہے بڑی زیادتی کہ ابن انشاء نے اس شہر کے ساتھ اتنی محبت کی مگر اس شہر نے ابن انشاء سے بے وفائی کی۔ اب یہ شہر ابن انشاء کو بھول چکا ہے جس شہر پر اس نے خوبصورت گیت لکھے۔وہ انشاء جس نے یہ مشہور غزل بھی لکھی تھی کہ:

انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا

وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

مگر وہ ہی انشاء تھے جنہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ:

دل درد کی شدت سے خوں بستہ و سی پارہ

اس شہر میں پھرتا ہے اک وحشی و آوارہ

شاعر ہے کہ عاشق ہے جوگی ہے کہ بنجارہ

دروازہ کھلا رکھنا۔۔۔۔

وہ اس شہر کو چھوڑنا بھی چاہتے تھے اور اس شہر کو چھوڑ بھی نہیں سکتے تھے۔ یہ ایک ایسی محبت تھی جیسی محبت مرد اور عورت میں ہوا کرتی ہے۔ ابن انشاء نے کراچی سے ایسی محبت کی جیسی محبت ایک مرد کسی عورت سے کرتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس شہر نے بے وفا عورت کی طرح اس شاعر کو بھلا دیا، جس شاعر کو مرزا غالب سے محبت تھی اور اقبال کی وہ بہت عزت کیا کرتے تھے مگر شاعری میں اس کا انداز الگ تھا۔ اس نے اپنی شاعری میں اردو اور ہندی کو اس طرح جوڑا جیسے دو خوبصورت چیزوں کو ملایا جاتا ہے۔

اس ملاپ سے ان کی شاعری کی ایک الگ پہچان سامنے آئی اور جب موسیقاروں نے ان کی شاعری کو سروں میں سجایا تو وہ بہت مختلف شاعر محسوس ہوئے ہم سب کو۔ ہم سب جو اب اس شاعر کو بھلا چکے ہیں جس نے اگر ’’چاند نگر‘‘ نہ بھی لکھی ہوتی تب بھی ان کی یہ ایک نظم انھیں اردو ادب میں لازوال شاعر بنانے کے لیے کافی تھی۔ وہ نظم جو سب کو پسند ہے۔ یعنی سب مایا ہے۔

یہ نظم ایک حقیقت ہے۔ اس نظم کو سننے والا ہر کوئی آپ سے یہی کہے گا کہ یہ سچ ہے کہ سب مایا ہے۔ اگر سب مایا نہ ہوتا تو کیا ابن انشاء جیسے شاعر کو یہ شہر بھلا پاتا؟ ہر چیز مایا ہے۔ محبت بھی مایا ہے۔ ایک شاعر کی شاعری بھی مایا ہے۔ اس کا کسی درد میں رہنا اور زندگی کا عذاب سہنا بھی مایا ہے۔ مگر اس حقیقت کو انشاء نے کس قدر خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے۔ جس طرح انھوں نے لکھا ہے کہ:

جس نار پر ہم ہر ایک غزل ہر شام لکھیں

تم جانتے ہو ہم کیوں کر اس کا نام لکھیں

دل اس کا چوکھٹ چوم کر واپس آیا ہے

سب مایا ہے!!

مگر انسان کا المیہ یہ ہے کہ وہ زبان سے تو اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ ہر چیز مایا ہے، اس کے موہ میں آنا ٹھیک نہیں ہے مگر وہ مایا سے محبت کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس لیے ہمارے شاعر نے بھی اس شہر کو مایا جال سمجھا اور بار بار خود کو کہا کہ اس شہر کو چھوڑ کر چلے جاؤ مگر یہ اس شہر کی مایا تھی جس نے انشاء کو یہ شہر چھوڑنے کے لیے تیار ہونے نہیں دیا۔

زندہ قومیں اپنے شعراء کے فن کو احسان سمجھتے ہیں اور انھیں ہمیشہ خراج عقیدت پیش کرتی ہیں۔ مگر ہم اگر پورے ملک کی بات نہ کریں اور صرف کراچی تک محدود رہیں تب بھی ہمیں یہ احساس ہوگا کہ اس شہر نے اپنے شاعر کو بڑی بے دردی سے بھلا دیا۔ اس لیے ان کی سالگرہ یا ان کی برسی پر یہاں کوئی پروگرام نہیں ہوتا۔

اب میڈیا کا دور ہے ۔ میڈیا نے اپنے چکا چوند کرنے والی برقی کشش سے ہم سے حافظہ بھی چھین  لیا ہے اور وہ ہمیں بھولی بسری یادیں بھی یاد دلاتا رہتا ہے مگر یہ میڈیا اس شاعر کو یاد نہیں کرتا جس کا میڈیا سے گہرا تعلق بھی رہا۔ جو صرف شاعر نہ تھے بلکہ ایک ادیب بھی تھے اور صرف ادیب ہی نہیں بلکہ ایک صحافی بھی تھے۔ مگر وہ سیاستدان نہ تھے۔ اگر ابن انشاء سیاستدان ہوتے تو آج اس کے نام پر سڑکیں ہوتی اور بہت بڑی اور اہم عمارتوں پر ان کا نام رکھا جاتا ۔ مگر انھوں نے لوگوں سے جھوٹے وعدے نہیں کیے۔

انھوں نے اپنے سریلے انداز میں لوگوں کو سچ باتیں بتائیں۔ ان کی باتوں کا انداز کس قدر پیارا تھا؟ اگر آپ ان کی شاعری کو صرف ایک پل کے لیے بھلاکر ان کی طنز و مزاح والی ’’اردو کی آخری کتاب‘‘ پڑھیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ وہ کس قدر حساس اور ذہین تھے مگر انھوں نے اپنی ذہانت کو کیش نہیں کروایا۔ وہ جس طرح اپنی شاعری میں اپنے لیے جوگی اور بنجارے کے الفاظ پسند کرتے ہیں وہ اپنے مزاج میں بھی ویسے تھے۔ انھوں نے کبھی ایسی حسرت نہیں پالی جو دنیاداری کے زمرے میں آتی ہو۔ انھوں نے اگر پالا تو صرف پیار کا وہ روگ جو اس کی شاعری کا روح ہے۔

ابن انشاء کی شاعری کی بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس نے کبھی اردو شاعری کو مذہب کے دائرے میں محدود کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ اس لیے ان کی شاعری میں آپ کو ہندی دوہے جیسے اشعار بھی ملیں گے اور آپ کو بھگت کبیر کے پیارے پیارے الفاظ بھی جا بہ جا نظر آئیں گے۔ کیوں کہ انشاء جی سودائی تو تھے مگر ان میں تعصب نہیں تھا۔ انھوں نے ہمیشہ محبت کا ساتھ دیا اور پیار کی بات کی۔ مگر شاید یہ دنیا جو ہر پل اور ہر وقت ایک مایا جال میں جکڑے رہنے کی خواہش رکھتی ہے اسے ابن انشاء کو بھی مایا سمجھا اور اسے بھلا دیا۔ حالانکہ سب کچھ مایا ہے مگر انشاء مایا نہیں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔