امن کے نام زندگی

وجاہت علی عباسی  پير 28 جولائی 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

ہم میں سے بیشتر لوگ اپنے آپ کو کم تر جانتے رہتے ہیں۔ ہم کچھ کیوں نہیں کرسکتے، اپنے آپ کو اور دنیا کو سمجھانے میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ کبھی صحیح طرح یہ جان ہی نہیں پاتے کہ ہم کس کامیابی کے قابل تھے، بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے حالات مواقع اور مشکلات کی پرواہ کیے بغیر وہ سوچ قائم کرپاتے ہیں جو کامیابی کی راہ کا پہلا قدم ہوتا ہے۔

ایک افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر وہ پاکستانی جو کامیاب ہو جاتا ہے صرف اپنا سوچنے لگتا ہے، ہم امریکا، انگلینڈ میں رہنے والے کئی ایسے پاکستانیوں سے ملے ہیں جو پاکستان میں کچھ نہیں تھے لیکن باہر جاکر اپنی محنت سے ملینیئر بنے لیکن اب وہ پاکستان کو ایک ’’باہر والے‘‘ کی طرح دیکھتے ہیں، پاکستان کے ذکر میں وہ اکثر پاکستانیوں پر تنقید کرتے خود کو ان کا حصہ نہیں سمجھتے۔

اگر آپ اپنے لیے کامیاب ہوئے تو کیا کمال کیا؟ خود کو Secure کرنے کی خواہش تو انسان میں تب سے ہے جب وہ تہذیب و تمدن سے کوسوں دور تھا لیکن انسان کمال اس وقت کرتا ہے جب وہ اپنی کامیابی کو اس کام میں لائے جس سے اس کے ملک اور قوم کو فائدہ پہنچے۔

آج ہم ایک ایسے شخص کی بات کر رہے ہیں جس سے نہ صرف پاکستان میں رہنے والے پاکستانیوں بلکہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو بھی سبق لینا چاہیے، کچھ عرصے پہلے تک اگر آپ سے پاکستان میں موجود ایمبولینس کا ذکر کیا جائے تو آپ کے ذہن میں ایک سفید ’’بولان‘‘ جیسی گاڑی آئے گی جو ٹریفک میں پھنسی اس امید میں ہوتی ہے کہ کسی طرح مریض کو اسپتال تک پہنچا دے، نہ ہی ایمبولینس میں کوئی خاص ایڈ نہ ہی تربیت یافتہ عملہ لیکن اب یہ صورتحال بدل گئی ہے۔

آج لوگوں کو ایمبولینس کے نام پر ’’امن فاؤنڈیشن‘‘ کی پیلے رنگ کی ایمبولینس ذہن میں آتی ہے جس میں نہ صرف ڈاکٹر اور نرس موجود ہوتے ہیں بلکہ اس میں اتنے جدید میڈیکل آلات موجود ہوتے ہیں کہ اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی مریض کا علاج شروع ہوجاتا ہے اور اس سب کی بنیاد ایک ایسے لڑکے نے ڈالی جو کراچی کے علاقے لیاری کے ایک چھوٹے سے اسکول جاتا تھا لیکن اپنی ہمت، محنت اور بلند حوصلے سے وہ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی Yale تک پہنچ گیا۔

آج ڈاکٹر جنید رزاق ایمرجنسی میڈیکل ایکسپرٹ اور ڈائریکٹر امن فاؤنڈیشن کے نام سے جانے جاتے ہیں لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انھوں نے اپنی تعلیم کی ابتدا لیاری کے ایک چھوٹے سے اسکول سے کی تھی اور سیکنڈری تعلیم ناصرہ اسکول ڈپو لائن سے مکمل کی، اپنی محنت سے اچھے نمبر لائے اور آدم جی سائنس کالج تک پہنچ گئے وہاں سے انھوں نے آغا خان یونیورسٹی سے اسکالرشپ حاصل کی جہاں اپنی دلچسپی اور عوام کی ضرورت انھیں ’’میڈیکل ایمرجنسی‘‘ میں محسوس ہوئی۔

1994 میں وہ آغا خان یونیورسٹی سے میڈیکل مکمل کرکے وہیں ریزیڈنسی کرنے لگے اور ایدھی ایمبولینس کی ٹریفک ایکسیڈنٹ اور ایمرجنسی فائلوں کی اسٹڈی کرنے لگے جس سے انھیں معلوم ہوا کہ پاکستان میں ڈاکٹرز کو اندازہ نہیں کہ ایمرجنسی کیسز کو کیسے ہینڈل کیا جاتا ہے۔

مغرب میں ایمرجنسی کو کیسے سنبھالتے ہیں، اس کو تفصیل سے جاننے کے لیے رزاق 1996 میں امریکا چلے گئے اور 1999 میں انھوں نے Yale یونیورسٹی سے بہترین ٹرینی کا ایوارڈ حاصل کیا جو کینٹی کٹ اسٹیٹ میں صرف ایک طالب علم کو دیا جاتا ہے ہر سال، اس کے بعد سوئیڈن سے انھوں نے اپنا پی ایچ ڈی مکمل کیا جس میں انھوں نے ایمبولینس سروسز میں اسپیشلائز کیا۔

اتنی اعلیٰ تعلیم اور بہترین تعلیمی اداروں کا نام اپنے ساتھ جڑ جانے کے بعد بیشتر لوگ اپنے آپ کو کیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حساب لگاتے ہیں کہ کتنے سال میں کتنے ملین ڈاکٹر کما لیں گے۔ ظاہری سی بات ہے حالات اور ایکسچینج ریٹ دیکھ کر کوئی بھی شخص انگلینڈ امریکا جیسی جگہ پر ہی اپنا کیریئر بنانا چاہتا ہے لیکن رزاق آج بھی وہی لڑکا تھا جو کھارادر سے اسکول کا بیگ ٹانگ کر جب اپنے ننھے قدم اسکول جانے کے لیے اٹھاتا تھا تو اس کے ذہن میں یہ راستہ صرف اسکول تک نہیں بلکہ قوم کی بہتری تک جاتا تھا۔

رزاق نے امریکا میں کبھی گھر نہیں خریدا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انھیں واپس اپنے ملک جانا ہے، رزاق پاکستان واپس آکر پھر آغا خان اسپتال سے منسلک ہوگئے اور پہلی EMS ایمبولینس سروس شروع کی، رزاق کی وجہ سے اب ہر میڈیکل اسٹوڈنٹ کو EMS روٹین سے گزرنا پڑتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے تک اگر کسی میڈیکل اسٹوڈنٹ کو ایمرجنسی ایکسپرٹ بننا ہوتا تو اسے انگلینڈ جاکر امتحان دینا پڑتا تھا لیکن ڈاکٹر رزاق نے کالج آف فزیشن اینڈ سرجن پاکستان کی مدد سے Curriculum بدلوایا اور اب طالب علم بغیر ملک سے باہر جائے ایمرجنسی سروسز میں اسپیشلائز کرسکتے ہیں۔ آج امن فاؤنڈیشن کی ٹیلی سروس شروع ہوچکی ہے، یعنی 1021 کسی بھی فون سے ملاکر مدد طلب کی جاسکتی ہے، وہی نظام جو امریکا میں 911 کا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت غزہ میں جو ہو رہا ہے وہ بالکل غلط ہے، آج اگر آپ فیس بک استعمال کرتے ہیں تو دیکھ سکتے ہیں کہ ہر دوسرا پاکستانی غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی دل دہلا دینے والی تصویریں اور ویڈیوز ڈال رہا ہے، ایسی ظلم کی کہانیاں جو کوئی کمزور دل برداشت بھی نہیں کرسکتا ہے۔ کیوں ڈال رہے ہیں لوگ یہ تصویریں اور ویڈیوز؟ اس لیے کہ انھیں اپنی ذمے داری کا احساس ہے وہ اس ظلم کو روکنے کے لیے قدم اٹھاتے ہیں کچھ نہیں تو کم ازکم ان مظلوموں کی آواز کو آگے بڑھاتے ہیں۔

آج پاکستان کی سوسائٹی بھی غزہ بنی ہوئی ہے، جو جس طرح لوٹ سکتا ہے ہمیں لوٹ کر چلا جاتا ہے، دودھ میں پانی ملانے والے گوالے سے لے کر عوام کے پیسوں میں دھاندلی کرنے والے لیڈرز تک ہر کوئی ہمارے عوام پر غزہ جیسا ظلم کر رہا ہے۔ ایسے میں جب ڈاکٹر رزاق جنید جیسے لوگوں کی مثال سامنے آتی ہے تو ہمیں اپنے عوام کو پوزیٹو رکھنے کے لیے ایسی سبق آموز داستان کو بھی آگے بڑھانا چاہیے تاکہ سوسائٹی کے ہر سسٹم میں ہم ایک جنید رزاق پیدا کرسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔