(پاکستان ایک نظر میں) - پھیکی عید یا پھیکے لوگ؟

اعظم طارق کوہستانی  بدھ 30 جولائی 2014

کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہمارے سامنے ہوتی رہتی ہیں۔ ان میں سے چند باتیں ہم محسوس کر لیتے ہیں جبکہ بے شمار چیزوں کو ہم محسوس نہیں کر پاتے۔۔۔ نہیں! بلکہ اگر میں یہ کہوں تو زیادہ مناسب ہوگا کہ ہم بہت ساری چیزوں کو محسوس نہیں کرنا چاہتے۔۔۔ ہم روز مرہ زندگی میں آنے والی رکاوٹوں کو پھلانگ کر گزرنے کے عادی ہو چلے ہیں۔ اب اس صورت حال کا بھرپور فائدہ کچھ لوگ اٹھاتے ہیں۔۔۔ ان فائدہ اٹھانے والوں میں دوست اور دشمن کی تخصیص نہیں ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ کیا آپ واقعی بھولے ہیں؟۔۔۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کو کن چیزوں میں الجھادیا گیا ہے؟۔۔۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ آپ اپنی حقیقی خوشیوں سے محروم کر دیے گئے ہیں۔۔۔ مصنوعی خوشیاں دے کر آپ کو کسی بچے کی طرح بہلادیا گیا ہے۔ آپ مانے یا نہ مانیں۔۔۔ آپ کے نہ ماننے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی۔ کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ آپ محروم ہوگئے ہیں یا کردیے گئے ہیں۔ عید کا پھیکا پن بڑھتا جارہا ہے۔ عید کی خوشیاں معدوم ہوتی جارہی ہیں۔

ایک مضمون نظر سے گزرا جس کا عنوان ہی عید اور بوریت کے نام سے تھا۔ لکھا تھا کہ پاکستانی کی حیثیت سے ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ جس اہتمام سے عید کی تیاری اس کی آمد سے قبل کی جا رہی ہوتی ہے۔ وہ جوش و ولولہ عید کے اصل دن مفقود ہوتا ہے۔ عموماً اس بات کو یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔ لیکن جب ہم حقیقتاً اسلام میں عید کے مقصد پر غور کرتے ہیں تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ عید منانے کے لیے کوئی عمر قید نہیں اور اصولی طور پر مسلمانوں کو اسی تہوار کے موقع پر سب سے زیادہ خوشیاں منانی چاہیے۔ آج کل ہماری عید ٹی۔وی کے سامنے، انٹرنیٹ استعمال کرتے، سوتے ہوئے، چند گنے چنے رشتہ داروں سے ملتے اور نک سک سے تیار ہو کر ایک کونے میں بیٹھ کر بوریت کے نعرے لگانے میں صرف ہوتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم عید کے ان تین دنوں میں وقتاً فوقتاً عام چھٹیوں کے فارغ دنوں سے زیادہ بے لطفی محسوس کرتے ہیں۔

جس تہوار کو منانے کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے۔۔۔ اس کو چھوڑ کر ہم نے اپنی خوشیاں مصنوعی طریقوں میں ڈھوند لی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور آجانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنی روایات اور اسلامی تہذیب کو فراموش کر جائیں۔ عید کے دنوں میں بچوں کے لیے خصوصی طور پر میلے لگتے تھے، اب وہ مفقود ہیں۔ بچوں کو ان حقیقی خوشیوں سے محروم کر کے کارٹون دکھانے میں منہمک کر دیتے ہیں۔۔۔ بچوں کی اٹھکھیلیاں اور عیدی جمع کرنے کا وہ شوق اگر چہ ختم نہیں ہوا لیکن کسی حد تک کم ضرور ہوچکا ہے۔ بڑوں کا تو حال ہی عجیب ہوا جاتا ہے۔ عید والے دن بوریت کا ایسا حملہ ہوا جاتا ہے کہ کبھی ایک کمرے میں ڈھیر کبھی دوسرے کمرے میں چت لیٹے ہوئے ہیں۔ عورتوں کا سجنا سنورنا اب عید کے علاوہ دیگر تقریبات میں زیادہ ہونے لگا ہے۔ ویسے سارا سال ادھر ادھر جانے کا اتفاق ہوتا رہے گا۔ عید کے دن گھر سے ہلنے کا بھی نہیں۔۔۔ جیسے انہیں کسی بچے نے stopبول دیا ہو۔ چاند رات کو دیر تک کام کرنا اور صبح دیر پڑے تک سوتے رہنا۔۔۔ او بھائی ! انسان ہو۔۔۔مسلم ہو۔۔۔ کچھ تو مسکراؤ اور ہلہ گلا کرو۔۔۔ اور سونے والے کے متعلق تو ویسے بھی کہا جاتا ہے جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے۔ عموماً یہاں کھوتے کا مطلب اردو میں کھونے سے مراد لیا جاتا ہے۔۔۔ لیکن آپ کا کیا خیال ہے ایسے لوگوں کو پنجابی والا کھوتا کہنا درست نہیں۔۔۔!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

اعظم طارق کوہستانی

اعظم طارق کوہستانی

اعظم طارق کوہستانی ان کا قلمی نام ہے۔ اصلی نام ’محمد طارق خان‘ ہے۔ نوجوان صحافی اور ادیب ہے۔ آج کل بچوں کے رسالے ’جگمگ تارے‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ بچوں کے لیے اب تک ان کی کہانیوں پر مشتمل دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔