(دنیا بھر سے) - ہزار لاشوں پر عید!

رضوان طاہر مبین  پير 28 جولائی 2014
جب ایک موت پر ہی خاندان بھر کی عید بے مزہ ہو جاتی ہے۔ وہاں تو پھر ہزار شہدا ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

جب ایک موت پر ہی خاندان بھر کی عید بے مزہ ہو جاتی ہے۔ وہاں تو پھر ہزار شہدا ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

’’میری عید تو ہوگی ہی نہیں اس بار…‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ابھی جمعے کو ہی میرے پڑوس میں رہنے والے ایک نوجوان کو ہدف بنا کر قتل کر دیا گیا۔ بس یہ سمجھو، ہنستے بستے گھر میں قیامت آگئی ہے، ایسے میں کیسی عید اور کہاں کی عید؟‘‘

چند دن قبل کی یہ گفتگو آج یوں یاد آئی کہ غزہ میں صیہونی درندگی گزشتہ کئی روز سے مسلسل جاری ہے اور ایسی جارحیت جس کے لئے سفاکیت اور درندگی کے لفظ کم تر معلوم ہوتے ہیں۔

تین یہودی نوجوانوں کے قتل کا بھونڈا الزام اور غزہ کو تہہ وبالا کر دیا گیا۔ بارود بلا تفریق عام فلسطینی آبادی پر بھی برسا اور نشانہ لے لے کر اسپتالوں اور ساحل پر کھیلتے بچوں پر بھی گرا۔ پتا نہیں یہ کون سی جنگ تھی جس میں دنیا کا کوئی اصول اور کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا ! کیا اسے ہی کہتے ہیں تہذیب؟۔

ہمیشہ کی طرح اسرائیلی دہشت گردی نے بڑی تعداد میں نومولود شیر خوار بچوں کو شہید کرنے کی بھیانک روایت بھی قائم رکھی۔

قصہ مختصر، فلسطینی خواتین، نوجوانوں اور بچوں سمیت شہدا کی تعداد دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں سے نکل کر ہزار کے ہندسے کو پار کر گئی اور ہمیں ابھی تک یہی سمجھ نہیں آیا کہ ہمیں کرنا کیا چاہیے۔ شاید بہت سے لوگوں نے یہ سوچا اور پوچھا بھی نہ ہو کہ فلسطین کی صورت حال پر ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ کئی دن بیت گئے، خوشی کا تہوار عید آگیا۔

مجھے وہ گفتگو یاد آئی کہ خدا نخواستہ جس کا ایک پیارا اُٹھ جائے اس کی خوشی کیا ہوتی ہے؟ وہاں تو ہزار لاشیں ہیں، اور ان شہدا کے لاشوں کے بیچ وہاں ہلال عید نظر آیا، تو اس سوگوار فضا میں شاید اس کے اشک بھی رواں رہے ہوں گے، وہ بھی لہو میں نہائی ان ننھی منی کلیوں کی لاشیں دیکھ کر گریہ کرنے لگا ہوگا جن کا واحد قصور یہ تھا کہ وہ کسی مسلمان کے گھر میں پیدا ہوئیں۔

ہم نے رمضان سے جاری اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف شاید ڈھنگ سے سوچا بھی نہ ہو۔ بس غزہ کو خبر برائے خبر لیا ہوگا۔شاید گود کے کسی بچے کے کفن زدہ لاش کو بلند کئے کسی باپ کے بین پر شاید ہمارا دل پسیجا ہو۔ مگر کتنی دیر؟

ہمارے گھر میں تو امن ہے، ہمارے بچے تو خیریت سے ہیں نا۔بس!

ہم اپنی عید منارہے ہیں۔ شاید ہم ایمان کے اسی درجے میں ہیں۔ کاش ہم یہی سوچ لیں کہ جب ایک موت پر ہی خاندان بھر کی عید بے مزہ ہو جاتی ہے۔ وہاں تو پھر ہزار شہدا ہیں۔ بس دل سے ذرا یہ سوچ لیجیے کہ پھر کیسی عید؟۔

شاید ضمیر جاگ جائے!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

Rizwan Tahir Mubeen

رضوان طاہر مبین

بلاگر اِبلاغ عامہ کے طالب علم ہیں، برصغیر، اردو، کراچی اور مطبوعہ ذرایع اِبلاغ دل چسپی کے خاص میدان ہیں، روزنامہ ایکسپریس کے شعبہ میگزین سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔