عید ‘ایثار و ہمدردی کا دن

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  منگل 29 جولائی 2014
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

عید کے حقیقی معنی خوشی اور مسرت وانبساط کے ہیں۔ عید الفطرکہنے کی ایک وجہ یہ بھی ممکن ہے کہ فطر اور افطار ہم معنی ہیں۔ جس طرح ہر روزے کا افطار بعداز غروب کیا جاتا ہے، اسی طرح پورے ماہ رمضان المبارک کا افطار عید کے روز سعید ہوتا ہے۔ لہٰذا اس مبارک دن کو عید الفطر سے موسوم کیا جاتا۔ افطار کے متبرک اور مقدس ہونے کی حدیث کے مطابق آنحضرت ﷺ نے فرمایا ’’روزے دار کو دو خوشیاں نصیب ہوتی ہیں، ایک جب وہ افطار کرتا ہے اور دوسری جب اس کو باری تعالیٰ کا (روز جزا) دیدار ہوگا۔‘‘ گویا افطار کے وقت روزے دار کی خوشی کی کیفیت کا وہی عالم ہے، جو روز آخرت دیدار الٰہی سے ہوگا۔ لہٰذا جب عید الفطر افطار کی خوشی کا مبارک دن ہے تو ماہ رمضان کے پورے روزے رکھنے پر عید کے دن اسے وہی خوشی و مسرت حاصل ہوگی، جس سے وہ روز جزا دیدار الٰہی کے نتیجے میں سرفراز کیا جائے گا۔ روزہ اللہ کے لیے ہے اور روز جزا اس کے دیدار کی خوشی اس کی جزا ہے۔

عید دراصل نعمت صیام کے حصول پر ایک شکرانہ ہے۔ جس طرح ہفتے بھر کی نمازوں کا شکرانہ جمعے کی عید میں رکھا گیا ہے، اسی طرح مہینے بھر کے روزوں کا شکرانہ جمعے کی عید میں رکھا گیا ہے۔ عید کو عید اس لیے کہتے ہیں کہ وہ عود کر ہر سال آتی ہے۔ عود کا اطلاق دیگر تہواروں اور ایام پر بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس عود کو فرحت و مسرت کے ساتھ مشروط کردیا گیا۔ خوشی اور مسرت کی جو کیفیت اس تہوار میں پائی جاتی ہے وہ کسی اور تہوار میں نہیں۔

قوم رسول ہاشمی کا عید الفطر کے مبارک اور مقدس دن کو غیر اسلامی اقوام کی طرز پر منانے سے کیا ہم اپنے کلمہ طیبہ کے اقرار کی عملی طور پر نفی نہیں کرتے۔ کیا ہم روز قیامت اپنے رب کو منہ دکھانے کے قابل رہیں گے؟ کیا وہ ہماری جفا پر، خفا ہونے میں حق بجانب نہ ہوگا؟

عید الفطر درد دل کا پیغام اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اسلام معاشرتی اور سماجی فلاح کا سب سے بڑا داعی ہے۔ وہ آسودہ حال مسلمانوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ معاشی طور پر بدحال مسلمانوں کا سہارا بنیں۔ اپنے لیے تو سب جیتے ہیں، جینا وہ ہے جو دوسروں کی خاطر ہو۔

عید الفطر کے مبارک دن رسول اکرمﷺ کے دو ارشادات اگر ہماری زندگی کے لیے مشعل راہ بن جائیں تو واقعی ہماری عید ہوجائے۔ آپﷺ نے فرمایا ’’مخلوق اللہ کی عیال ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے جو اس کی عیال سے محبت کرے۔‘‘ اسی طرح آپﷺ نے فرمایا ’’ خدا کی قسم وہ مومن نہیں، جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوک سے کروٹیں بدلتا رہے۔‘‘

اسلام اپنے ماننے والوں میں اجتماعیت کا احساس شدت سے پیدا کرتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر انفرادیت کو اجتماعیت کی خاطر قربان کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔

خالق اور مخلوق کے درمیان ایک روحانی رشتہ ہے۔ جو مخلوق کو نظر کرم سے نہیں دیکھتا، خالق بھی اس پر ابر کرم نہیں برساتا۔ عید الفطر کے مقدس دن ہمیں دکھی انسانیت کا بھرپور خیال رکھنا چاہیے۔ غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں اور دکھ درد میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو تلاش کرکے ان کو اس قابل بنانا چاہیے کہ وہ عید کی مادی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔ یہی ہے عبادت، یہی دین و ایمان اور یہی پیغام عید ہے۔رحمۃ اللعالمینﷺ کا رحمت بھرا اسوہ حسنہ امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ نے فرمایا ’’عید کے دن غریبوں کو خوشحال اور غنی کرو۔‘‘ اس لیے صدقہ فطر کو آپ نے عید الفطر کا جزو لاینفک قرار دیا۔ آپ نے فرمایا ’’روزوں کی عبادت اس وقت تک زمین و آسمان میں معلق اور بارگاہ ایزدی میں قبول نہیں ہوتی جب تک وہ ہر شخص صدقہ فطر ادا نہیں کردیتا، جو صاحب نصاب ہو۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی نظر میں انسان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ اسے درد دل کے واسطے پیدا کیا گیا ہے، جو انسان رحم دل نہیں، سنگ دل ہے، اپنی ہی ذات میں مگن رہتا ہے۔ دوسروں کی دنیاوی ضروریات کا خیال نہیں رکھتا۔ بھوکے، پیاسے، غربت کے مارے انسانوں کو دیکھ کر اس کا دل نہیں روتا، وہ کسی کے درد کی دوا نہیں بنتا۔ وہ مسلمان تو بڑی بات، انسان کہلانے کا حقدار بھی نہیں۔

عید صرف ایک رسمی تہوار نہیں بلکہ ایک عبادت ہے، دین داری میں دنیا داری ہے۔ اپنی خوشیوں کے ساتھ دوسروں کی خوشیوں کی خوشیوں کا سامان کرنا ہی عید کا حقیقی مقصد ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں وہ واقعہ یاد رکھنا چاہیے جب حضور اکرمﷺ نماز عید ادا کرنے کے بعد واپس لوٹ رہے تھے، آپ نے دیکھا کہ بہت سے بچے عید کی خوشی میں کھیل کود رہے ہیں، لیکن ایک بچہ ان سب سے الگ غم کی تصویر بنا اداس بیٹھا ہے۔ آپؐ نے اس بچے کو دیکھا اور اس کے قریب تشریف لے گئے، شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا کہ بیٹے کیوں رو رہے ہو؟ اس لڑکے نے جواب دیا، میرے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں ہے، بچے کے اس جواب کو سن کر آپؐ کی آنکھیں پرنم ہوگئیں، آپؐ نے فرمایا میرے والد بھی بچپن ہی میں انتقال کرگئے تھے، آج سے میں تمہارا باپ ہوں، آپؐ اس کو اپنے ساتھ گھر لائے، اچھا لباس پہنایا۔ وہ بچہ اچھے کپڑے پن کر باہر نکلا تو لوگوں نے پوچھا کہ یہ سب کہاں سے آیا؟ تو اس نے جواب دیا کہ آج سے میرے سرپرست حضور اکرمﷺ ہیں۔ ہم سب کو رسول اللہﷺ کے اصول کو اپناتے ہوئے یتیموں، بیواؤں، غریبوں اور مسکینوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ جس کے بغیر عید کا حقیقی مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ جو بندگان خدا کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ہیں، خدا ان پر مہربان ہوتا ہے۔ خدمت خلق عید الفطر کی روح رواں ہے۔ اس کے بغیر عید کا تصور ایسا ہے، جیسے پھول بغیر خوشبو کے ، جسم بغیر روح کے۔

یورپی مصنف سرتھامس آرنلڈ لکھتے ہیں:

اسلام میں مشترکہ عبادات کا ایک عظیم عمل ہے، یہاں افریقا کے مغربی ساحل کا نیگرو، مشرق بعید کے چین سے ملتا ہے، امیر اور مہذب ترک ملایا کے بعید ترین حصے سے آنے والے غیر مہذب جزیرے کے رہنے والے اپنے (مسلمان) بھائی کو پہچانتا ہے، وہ عیدین مناتے ہیں، نمازی کسی بھی رنگ و نسل اور مرتبے کا ہو، اس کا ماضی کیسا ہی کیوں نہ ہو، اسے اسلامی برادری میں قبول کرلیا جاتا ہے اور وہ مساوی درجہ پاتا ہے۔ اسلام ایک زبردست سیاسی قوت ہے، جیسے کرہ ارض کے فاصلے سمٹتے چلے جائیں گے، ویسے ویسے اس قوت کا اثر زیادہ محسوس ہونے لگے گا۔‘‘

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اپنی تصنیف ’’غنیۃالطالبین‘‘ میں عید کا مقصد حقیقی اور جوہر اصلی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’عید ان کی نہیں جنھوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو زیب تن کیا، بلکہ حقیقتاً عید تو ان کی ہے جو خدا کی وعید اور پکڑ سے ڈر گئے۔ عید ان کی نہیں جنھوں نے بہت سی خوشبوؤں کا استعمال کیا عید تو ان کی ہے جنھوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے۔ عید ان کی نہیں، جنھوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھائیں اور بہت سے کھانے پکائے۔ عید تو ان کی ہے جنھوں نے بہ قدر استطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور نیکی کی راہ پر گامزن ہوئے۔ عید ان کی نہیں جو آفاق میں گم ہوگئے بلکہ عید ان کی ہے جن میں آفاق گم ہوگئے۔ بندہ آفاق نہیں صاحب آفاق بن گئے اور تقویٰ کی روش اختیار کی۔ عید ان کی نہیں جنھوں نے چمکتی دمکتی گاڑیوں میں سفر کیا، بلکہ عید ان کی ہے جنھوں نے ترک گناہ کو شیوہ زندگی بنالیا۔ عید ان کی نہیں جنھوں نے اپنے مکانوں کی آرائش و زیبائش کی بلکہ عید تو ان کی ہے جو دوزخ کے پل سے بخیر و عافیت گزر گئے۔

آپؐ نے فرمایا ’’عید کے دن غریبوں کو خوشحال اور غنی کرو۔‘‘ اس لیے صدقہ فطر کو آپؐ نے عید الفطر کا جزو لاینفک قرار دیا۔ آپؐ نے فرمایا ’’روزوں کی عبادت اس وقت تک زمین و آسمان میں معلق اور بارگاہ ایزدی میں قبول نہیں ہوتی جب تک ہر وہ شخص صدقہ فطر ادا نہیں کردیتا، جو صاحب نصاب ہو۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی نظر میں انسان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ اسے درد دل کے واسطے پیدا کیا گیا ہے، جو انسان رحم دل نہیں، سنگ دل ہے، اپنی ہی ذات میں مگن رہتا ہے۔ دوسروں کی دنیاوی ضروریات کا خیال نہیں رکھتا۔ بھوکے، پیاسے، غربت کے مارے انسانوں کو دیکھ کر اس کا دل نہیں روتا، وہ کسی کے درد کی دوا نہیں بنتا۔ وہ مسلمان تو بڑی بات، انسان کہلانے کا حق دار بھی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔