کرسی ہاتھ سے نکل گئی تو۔۔۔۔

پروفیسر سیما سراج  منگل 29 جولائی 2014

ارے واہ! زبردست کھیل ہے Musical Chair۔ ہم بچپن سے یہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ شاید یہ ہماری ابتدائی تربیت ہے۔کرسی کے لیے دوڑ دھوپ کرنا اور آخر میں کرسی حاصل کرکے انعام و اکرام حاصل کرنا۔ جی ہاں! جو آخر میں کرسی پر بیٹھ گیا وہی جیت گیا۔ توگویا ہمیں بچپن ہی سے Musical Chair کے ذریعے کرسی کے پیچھے بھاگنا سکھادیا گیا۔ اب آپ خود ہی سوچیں 12 کھلاڑی اور گیارہ کرسیاں۔ ایک ایک کرکے کھلاڑیوں اور کرسیوں کی تعداد کم ہوتی چلی گئی۔اور ہر ہارنے والا شور مچاتا رہا کہ بے ایمانی ہوئی ہے۔

توبہ ہے ہار تو کسی سے برداشت ہی نہیں ہوتی خیر جیتنے والے میں بھلا کون سا ظرف ہوتا ہے اس کا تو بس ہی نہیں چلتا کہ کرسی پر کھڑے ہوکر اچھلنا کودنا شروع کردے۔ اب دیکھیں نا ہر شخص کو تو کرسی پر بیٹھنے کا سلیقہ تھوڑی ہوتا ہے۔ لیکن خواہش کا کیا کیا جائے۔ کرسی کو حاصل کرنے کی خواہش تو ہر دل میں مچلتی ہے۔ قسم سے کرسی پر بیٹھ کر کس قدر رعب آجاتا ہے۔ گویا ہم صاحب بہادر ہیں اور باقی سب ہمارے ماتحت۔ کرسی بے چاری تو بے جان ہوتی ہے۔

اصل طاقت تو ان اختیارات میں ہوتی ہے جو کرسی پر بیٹھ کر ملتے ہیں۔ لیکن کچھ کرسیاں ایسی بھی ملتی ہیں جن پر بیٹھ کر بندہ بے اختیار ہوتا ہے۔ خیر اختیارات اور بے اختیاری کی جنگ ایک توجہ طلب طویل موضوع ہے۔ اور ہم تو کھیل رہے ہیں میوزیکل چیئر۔ اب آخر میں ایک کرسی بچی ہے اور دو کھلاڑی۔ اب کھلاڑیوں کی بھی تو قسمیں ہیں۔ کمزور، شاطر، بے وقوف، عقل مند، تربیت یافتہ، ذہین، خاندانی، شوقیہ، پروفیشنل، اب دیکھنا یہ ہے کہ کرسی پر بیٹھتا کون ہے۔

میوزک شروع ہوچکا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب حسب پسند کھلاڑی کرسی کے قریب آئے تو میوزک رک جائے۔ اور وہ آسانی سے کرسی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ دوسرا کھلاڑی مبارک باد دے گا۔ نہیں وہ بے ایمانی بے ایمانی کا شور مچائے گا۔ دیکھی نا۔ لڑائی کی کیا بات ہے۔ کھیل میں تو ایسا ہوتا ہے کوئی بات نہیں آج تم کل ہم۔ باری باری سب کو موقع ملے گا۔ کھیل ختم تھوڑی ہوا ہے جاری ہے۔

بے ایمانی کا لفظ ہماری زندگیوں میں کچھ اس طرح رچ بس گیا ہے کہ ایمانداری سے کیے گئے کام میں بھی بے ایمانی نظر آنے لگتی ہے۔ کیا کیا جائے زبان پر یہ لفظ چڑھ سا گیا ہے۔ بلکہ زبان زدعام ہوگیا ہے۔ اب اس میں قصور بندے کا بھی نہیں ہے، جو چیز کثرت سے گردوپیش نظر آئے گی اس کا تو ذکر ہوگا۔ اب ہارنے والے کو شرمندگی بھی تو مٹانی ہوتی ہے۔ چھوڑیں بھی ہار جیت تو ہوتی ہی رہتی ہے۔

ایک تو اماں کی یہ عادت مجھے بالکل پسند نہیں ہے۔ اپنی کرخت آواز کے ساتھ سوچ کے تسلسل کو ہمیشہ توڑ دیتی ہیں۔ ’’ارے ذرا کرسیوں پر دیکھو کتنی مٹی ہے، ذرا جھاڑن لے کر صاف تو کردو۔‘‘ تخت پر بیٹھ کر اماں نے کرسیوں کے بارے میں حکم صادر فرمایا۔ اب تخت پر بیٹھنے کے عادی بھی کرسی کی فکر کرنے لگے ہیں۔ ہماری قسمت دیکھیں یا تو کرسیاں صاف کریں یا پھر کرسیاں لگائیں اور اٹھائیں۔ ٹھہرے عام لوگ۔ لڑائی جھگڑا ہوا تو یہی کرسیاں ایک دوسرے پر دے ماریں۔

کرسی بے چاری تو بدنام ہے خرید لو، ادھار لے لو، بیچ دو، سودا کرلو۔ ہائے! کرسی بنانے والے نے تو کرسی بیٹھنے کے لیے بنائی ہوگی اسے کیا پتا کہ کرسی کی بے شمار اقسام تیزی سے دنیا میں پھیل جائیں گی۔ کمزور کرسی، مضبوط کرسی، بڑی کرسی یا چھوٹی کرسی۔   کرسی دیکھ کر آپ بندے کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ اگر آپ کو عہدے کے متعلق جاننا ہو تو پوچھ لیں کہ بندہ کس کرسی پر بیٹھا ہے۔ آرام دہ کرسی واقعی آرام دہ ہوتی ہے لیکن کرسی اتنی آرام دہ نہیں ہونا چاہیے کہ بندہ پھیلتا ہی چلا جائے۔ بعض کرسیاں ایسی خاصیت رکھتی ہیں کہ بندہ ان پر بیٹھ کر اکڑ جاتا ہے۔ بندے کا کیا قصور سارا قصور کرسی کا ہوتا ہے۔ ایسی کرسی جس کے چاروں طرف لوگ گھوم رہے ہوں اس پر بیٹھ کر معمولی انسان بھی اپنے آپ کو مافوق الفطرت ہستی سمجھنے لگتا ہے۔

کرسی کبھی بھی انسان کی وفادار نہیں ہوتی ہے۔ ایک نہ ایک دن انسان کو یہ کرسی چھوڑنی ہی پڑتی ہے۔ اگر آپ ضدی ہیں اور تیار نہیں تو زبردستی گھسیٹ کر اتار دیے جائیں گے ورنہ کرسی الٹ دی جائے گی۔

کرسی الٹ دینا، کرسی چھین لینا، کرسی پلٹ دینا، کس قدر ذو معنی ہیں۔ یہ تین الفاظ اپنے اندر کس قدر معنویت سمیٹے ہوئے ہیں۔

کرسی پر بیٹھنے کے آداب ہوتے ہیں۔ جیسے کھانے کے آداب، محفل کے آداب، پہلے یہ آداب باقاعدہ سکھائے جاتے تھے۔ اب تو بے قاعدہ لوگ بھی کرسی پر بیٹھنے کے حقوق طلب کرتے ہیں۔

کرسی کی صفائی کرتے ہوئے ہمیں خیال آیا کہ اب ڈائننگ ٹیبل کی کرسیاں پرانی ہوگئی ہیں۔ بس اماں سے کہنا غضب ہوگیا کہ کرسیاں بدل دی جائیں۔ ’’اے بی بی! ہم بھی پرانے ہوگئے ہیں، ہمیں بھی بدل دو۔‘‘ کبھی کبھی ہماری اماں پتے کی بات کہتی ہیں۔ پرانی کرسیاں پرانے لوگ۔ اگر نئی کرسیوں کا اضافہ کر بھی دیا جائے تو ان پر بھی پرانے لوگ ہی بیٹھے نظر آئیں گے۔ ویسے راز کی بات بتاؤں کبھی کبھی تو دو تین کرسیوں پر ایک ہی بندہ قابض ہوتا ہے، خیر ہمیں کیا۔ ہم فرش نشین لوگ۔ کرسی کی فکر میں کیوں اپنی نیند حرام کریں۔ جتنی بڑی کرسی اتنی ہی بڑی ذمے داری۔

یہ دیکھیں بچوں نے بھی لیڈروں والی حرکتیں اپنالی ہیں۔ گڈو کرسی پر بیٹھ رہا تھا گڑیا نے پیچھے سے کرسی گھسیٹ لی۔ دھڑام سے گڈو زمین پر ڈھیر۔ بس پھر نہ پوچھیں آپس میں لڑائی کے کئی راؤنڈ صلح صفائی مشکل۔ گڑیا کی شرارت گڈو کا غصہ مگر بچوں میں ایک بات اچھی ہے۔ جلد ہی دوستی کرلیتے ہیں۔ کاش بڑے بھی بچوں کی طرح جلد ہی دوستی کرلیا کریں۔

جس طرح انسان بدل جاتے ہیں کرسی کے رنگ و روغن اور ڈیزائن بدلتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ کرسی پر بیٹھ کر کچھ اس طرح بدل جاتے ہیں کہ پہچاننے میں ہی نہیں آتے۔ سنا ہے کہ کرسی پر بیٹھنے کا کچھ اپنا ہی مزہ ہے بلکہ چسکہ ہے۔ کرسیوں کی بھی اپنی اپنی کہانیاں ہیں۔ اور یادگار کردار بھی۔ ہر چیز کا اپنا ایک وقت ہوتا ہے۔ کرسی پر بیٹھنے اور اٹھنے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے۔ جی ہاں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب آپ کو کرسی سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔

ایک بات یاد رکھیں کرسی خطرناک بھی ہوسکتی ہے۔ کرسی کا انتخاب احتیاط کے ساتھ کریں۔ بہت سوچ سمجھ کر۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کرسی بھی ہاتھ سے جائے اور عزت بھی۔ سنا ہے کہ وہ ہی آج کل صاحب عزت ہے جس کے پاس کرسی ہے اگر کرسی ہاتھ سے نکل گئی تو۔۔۔۔۔؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔