ہیپاٹائٹس کے علاج کیلیے ’’ٹیبلٹس‘‘ ایک انقلابی تبدیلی ہے

اجمل ستار ملک  جمعرات 31 جولائی 2014
ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے کے حوالے سے منعقدہ ایکسپریس فورم میں مختلف طبی ماہرین کی گفتگو۔  فوٹو : شہباز ملک/ ایکسپریس

ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے کے حوالے سے منعقدہ ایکسپریس فورم میں مختلف طبی ماہرین کی گفتگو۔ فوٹو : شہباز ملک/ ایکسپریس

تکنیکی اعتبار سے جگر میں ہونے والی سوزش کو ’’ہیپاٹائٹس‘‘ کہتے ہیں۔

دنیامیں لاکھوں افراد ہیپاٹائٹس A,B,C,D اور E کا شکار ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق جگر کے کینسر میں مبتلا 100 میں سے 70 افراد ہیپاٹائٹس C کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ ہیپاٹائٹس C جگر کے کینسر کی بڑی وجہ ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا میں 500 ملین ایسے افراد ہیں جو ہیپاٹائٹس ’’بی‘‘ اور ’’سی‘‘ کا شکار ہیں اور صرف پاکستان میں 13 ملین افراد ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا اکثر افراد کوپتا تک نہیں کہ وہ ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہیں۔رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہیپاٹائٹس سے مرنے والوں کی تعداد ’’ایڈز اور تپ دق ‘‘ سے مرنے والوں کی نسبت زیادہ ہے۔ ہیپاٹائٹس کے حوالے سے گفتگو کرنے کے لیے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں مختلف حکومتی اور طبی ماہرین کو مدعو کیا گیا ۔پروگرام میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر زاہد پرویز (ڈی جی ہیلتھ پنجاب)

ہیپاٹائٹس بی اور سی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ عالمی مسئلہ ہے ۔دنیا میں تقریباً چوبیس کڑور لوگ ایسے ہیں جو ہیپاٹائٹس بی کا شکار ہیں اور پندرہ کروڑ ایسے ہیں جو ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہیں۔ پاکستان میں یہ بیماری بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے ہم اس کو روکنے کے لیے بھر پور کوشش کر رہے ہیں.

جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے، رپورٹس کے مطابق پنجاب میں ہیپاٹائٹس سی 6.7 فیصد اور ہیپاٹائٹس بی 2 فیصد ہے۔پنجاب کے کچھ اضلاع ایسے ہیں جہاں پر زیادہ سے زیادہ تیرہ فیصد تک بھی ہیپاٹائٹس رپورٹ ہوا ہے۔ یہ اضلاع وہاڑی ، حافظ آباد ، پاک پتن، بہاولنگر، بہاولپور، اوکاڑہ اور ڈیرہ غازی خان ہیں۔ اسی طرح جو اضلاع زیادہ ہیپاٹائٹس بی کا شکار ہیں ان میں ڈی جی خان ،جھنگ، راجن پوراور رحیم یار خان ہیں۔اس سال حکومت پنجاب نے ہیپاٹائٹس کے علاج کے لیے ایک ارب بیس کڑور روپے مختص کیے ہیں۔

دو سال سے کم عمر کے تمام بچوں کو ہیپاٹائٹس بی کے حفاظتی ٹیکے لگائے جارہے ہیں اور ہمارا یہ ٹارگٹ ہے کہ 2017 تک 100 فیصد بچوںکوریج دیں۔ ویزاعلٰی پنجاب نے خود فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب میں بچوں کو 9 مہلک بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ویکسی نیشن دی جائے جن میں ہیپاٹائٹس بھی شامل ہے۔ لہٰذاEBI پروگرام میں ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کے ٹیکہ جات شامل ہیں اور ایک مربوط پروگرام کے تحت بچوں کی ویکسی نیشن کی جارہی ہے۔ہیپاٹائٹس کی تشخیص کے لیے پنجاب میں 12 جگہوں پر PCR سینٹر قائم کیے گئے ہیں اور مریضوں کے لیے فری کِٹس مہیا کی گئی ہیں جہاں پہلے ہیپاٹائٹس کی تشخیص ہوتی ہے ، اسکے بعد PCR کی مدد مریض کا RNA ٹیسٹ ہوتا ہے جس کے بعد علاج معالجے کی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔

پچھلے سال ہم نے ایک لاکھ مریضوں کو ہیپاٹائٹس بی سے تدارک کے لیے ادویات اور ٹیکے لگوائے اس طرح ہیپاٹائٹس کا علاج ہر مامور ساڑھے تین لاکھ عملہ کی ہیپاٹائٹس بی کی ویکسی نیشن کی۔

اس طرح ہم نے پنجاب کے تینتیس اضلاع میں لوگوں کی ہیپاٹائٹس سے آگاہی کے لیے مہم چلائی ہے اور لوگوں کی ہیپاٹائٹس سے آگاہی کے لیے معلومات فراہم کی جارہی ہی ۔پنجاب کے تمام ہسپتالوں میں ’’ہاسپٹل ویسٹ مینجمنٹ کمیٹیاں بنائی ہیں اور ویسٹ مینجمنٹ کی ’’سیف ہینڈ لنگ کے طریقہ جات اپنائے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پنجاب کے اٹھارہ ضلعوں میں ہسپتالوں میں انسولیٹر لگا دیے ہیں اور باقی ضلعوں میں بھی اس پر کام جاری ہے۔جو نئی ادویات اور ایجادات آرہی ہیں ان کو بھی ہم نے PC1 میں شامل کیا ہے تاکہ جب PC1 منظور ہوتو ہم ان کو بھی استعمال کرنا شروع کردیں۔ اگر ہمیں آنے والی نئی ادویات کم قیمتوں میں ملیں تو ہم عوام کو یہ ادویات مفت مہیا کریں گے اس کے علاوہ ہم ملٹی نیشنل کمپنیوں سے انٹرفیرون اور دوسری معیاری ادویات خرید رہے ہیں تاکہ مریضوں کا معیاری علاج ہو۔ پنجاب بھر میں بلڈ بینکوں کی سکریننگ کے لیے ہیپاٹائٹس’’بی‘‘ سی‘‘ اور ایڈز کی فری کٹس مہیا کی ہیں اور بلڈ بینکوں پر لازم ہے کہ وہ بلڈ ٹرانسفیوژ کرنے سے پہلے ان کی سکریننگ کریں۔

پنجاب بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں آگیا ہے۔ اس کے قوانین بھی بن چکے ہیں اور جو بلڈ بینک ان قوانین پر عمل نہیں کریں گے ان کو’’بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی ‘‘ کے تحت بند کردیا جائے گا اور صرف وہی بلڈ بینک کام کرسکیں گے جو بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی سے رجسٹرڈ ہوں گے۔ہم پنجاب لیول پر بلڈ ٹرانسفیوژن سینٹرز کو سینٹرالائز کر کے وہاںماڈرن ایکویپمنٹ مہیا کر رہے ہیں۔اگر لاہور میں ایک بلڈ ٹرانسفیوژن سینٹر ہو تو تمام ہسپتالوں میں اس کی سیٹلائٹس برانچ ہوں گی تاہم سکریننگ ایک ہی جگہ پر ہوگی۔ پھر سکرینڈ بلڈ کو وین کے ذریعے معتلقہ سینٹر میں پنجا دیا جائے گا۔یہ بہت ہی سائنسی طریقہ ہے جو کراچی کے کچھ پرائیویٹ ہسپتالوں میں رائج ہے ۔ہم نے وہاں سے اس طریقے کو کاپی کیا ہے۔

ڈاکٹر غیاث النبی طیب (ماہر امراض معدہ و جگر ،پروفیسر جنرل ہسپتال لاہور)

ہیپاٹائٹس کے مرض سے تدارک کے لیے آئندہ آنے والے سالوں میں پرہیز سب سے اہم چیز ہے۔ چاہیے آپ ہیلتھ بجٹ میں جتنا بھی پیسہ مختص کریں اور جتنے بھی ذرائع ہوں اس بیماری کو ڈیل کرنے کے لیے جتنے بھی ذرائع ہوں کبھی بھی پورے نہیں ہوسکیں گے اور خاص کرہیپاٹائٹس ’’بی‘‘ اور ’’سی‘‘ جیسا مرض جب ایک دفعہ لاحق ہوتو ساری زندگی کسی نہ کسی شکل میں تکالیف رہتی ہیں۔اب تک ہم ہیپاٹائٹس سی کا علاج جس طریقے سے کرتے آئے ہیں اگرچہ وہ بہت موثر تھا مگر پھر بھی اس میں کچھ نہ کچھ گنجائش تھی جس کو پورا کرنے لیے یہ ادویات آئیں ہیں۔

اگر پرانی ادویات کی بات کریں تو پچھلے بیس سال سے ہم نے انکے ساتھ مریضوں کا علاج کیا۔وہ لوگ جو کہ سو فیصددوائی لیتے رہے ہیں اور صحیح ٹائم پرڈاکٹر کے پا آئے تھے ان میں کامیابی کا تناسب 90 فیصد سے زیادہ تھا ۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جہالت بھی ہے، غربت بھی ہے ، اور ہیپاٹائٹس سے متعلق زیادہ آگہی بھی نہیں اس لیے زیادہ ترلوگوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ علاج مکمل نہیں کرواپاتے یا علاج کے وقت’’ ڈوزز‘‘ چھوڑتے رہتے ہیں۔

خاص طور پر ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام میں مریضوں کو مفت ادویات ملتی تھیں، ان کی بیماری بھی زیادہ ایڈوانس ہوتی تھی، تعلیم بھی کم ہوتی تھی اور دوہفتے بعد اسپتال کے چکروں کے بعد ادویات لینا وغیرہ جیسے عوامل کی وجہ سے ان کے کامیابی کا تناسب مختلف سینٹرز سے حاصل کی جانے والی رپورٹس کے مطابق 55سے 60فیصد بنتا ہے لیکن اگر اس کا مقابلہ ہم پرائیویٹ سیکٹر سے کریں تو وہاں سے موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق کامیابی کا تناسب 80سے 85 فیصد رہا ہے۔

یعنی اگر ہم گورنمنٹ سیکٹر کو دیکھیں تو 45فیصد کا گیپ ہے اور اگر پرائیویٹ سیکٹر کو دیکھیں تو15 سے 20 فیصد گیپ ہے۔پہلی بات میں پرہیزکی کرنا چاہوں گا۔ پرہیز میں اس کے جو مختلف طریقے چل رہے ہیں اس میں گورنمنٹ نے اپنا کام کیا ہے، میڈیا نے اپنا کام کیا ہے، ڈاکٹرز نے اپنا کام کیا ہے۔سب سے پہلے تو یہ کہ لوگوں کو پتا تو ہو کہ ہیپاٹائٹس کس بلا کا نام ہے۔ دو سال پہلے تک ہیپاٹائٹس C کے متعلق زیادہ لوگوں کی رائے تھی کہ یہ گندے پانی یا گندی خوراک سے پیدا ہوتا ہے ۔

اس لحاظ سے میں میڈیا کو خراج تحسین دوں گا کہ اب بچے بچے کو پتا ہے کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی خون اور خون آلودہ چیزوں سے پھیلتا ہے ۔اس کے بعد ہسپتالوں کی بات آجاتی ہے۔ ہسپتالوں میں ’’انفیکشن کنٹرول پالیسی ‘‘ کو جامع طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے چاہے وہ پرائیویٹ ہسپتال ہوں یاپبلک ہسپتال۔ اگر یہ پالیسی پوری طرح نافذ العمل ہوجاتی ہے تو میں پورا یقین کے ساتھ کہا سکتا ہوں کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی کا پھیلاؤ کافی حد تک کنٹرول میں آجائے گا۔ ہیپاٹائٹس C کے خلاف ابھی تک ویکسین میسر نہیں ہے مگر ہیپاٹائٹس بی کے خلاف ویکسین میسر ہیں۔ اور ان ویکسین کا میابی کی شرح اتنی اچھی ہے کہ اگر چھوٹے بچوں کو دی جائے تو 95 فیصد بچوں میں کامیابی سے اس وائرس کو کنٹرول کر لیا جاتا ہے۔اور یہی عمر ہے جس میں ہیپاٹائٹس بی دائمی شکل میں تبدیل ہوتا ہے۔

نائی کے پاس اگر شیو کروانے جانا ہے تو اپنی کِٹ اپنے ساتھ رکھیں، اگر کٹ نہیں ہے تو کم از کم استرے میں بلیڈ لازمی تبدیل کروائیں اور انکے باقی آلات کو بھی اچھی طرح دھلوالیں۔ناک کان میں چھید کروانے سے بھی ہیپاٹائٹس ہوسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابھی تک انٹرنیشنل لٹریچر میں جو ڈیٹا آرہا ہے اس حساب سے نئی ادویات بہت موثر ہیں۔مارکیٹ میں دو ادویات رجسٹر ہوچکی ہیں simeprevir اورsofosbuvir دونوں کی جینوٹائپ تھری میں کامیابی کی شرح بہت بہتر ہے۔ گو کہ علاج کا دورانیہ تین کی بجائے چھ ماہ ہوتا ہے۔ یہاں پر ایک اہم نقطہ یہ اٹھتا ہے کہ کیا انٹر فیرون انجکشن جس کو ہم پچھلے بیس سالوں سے استعمال کرتے آئے ہیں اور اس کو بھی اگر صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو کامیابی کے امکانات 80 سے 85 فیصد ہیں۔

اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ اگلے پانچ سالوں تک یہ انجکشن مارکیٹ میں بننا بند ہوجائیں گے۔ جو نئی آنے والی ادویات ہیں گو کہ ابھی انٹرنیشنل مارکیٹ میں رجسٹر نہیں ہوئیں مگر ان کے نتائج ہمارے سامنے ہیں ، ہر دفعہ جب کانفرنس میں جاتے ہیں تونتائج ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ اس کے علاوہ بھی تین نئی گولیاں 2015 تک مارکیٹ میں رجسٹرہوچکی ہوں گی اور انکا استعمال دنیا کے بیشتر ممالک میں ہو شروع چکا ہوگا۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں اصل مسئلہ قیمت کا ہے۔sofosbuvir بنانے والوں کا آپ اچھا پن کہہ لیں کہ انہوں نے پاکستان اور مصر کے لیے کسی

فائدے اور نقصان کے بغیر سپیشل قیمت دی ہے۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں اس کی ایک گولی کی قیمت ایک ہزار ڈالر ہے جبکہ پاکستان اور مصر کو20 ڈالر میں دی گئی ہے۔پاکستان جیسے ممالک جہاں ہیپاٹائٹس زیادہ ہے اگر ایک کمپنی بیس ڈالر کی گولی کر سکتی ہے تو مجھے امید ہے کہ باقی کمپنیاں بھی ایسی ہی قیمت پر ادویات مہیا کریں گی۔تو جو ہم لوگوں کا مشن ہے کہ اگلے دس سالوں میں ہیپاٹائٹس کی شرح چھ فیصد سے کم کرکے ایک فیصد نیچے لے آئیں تو شاید ممکن ہوسکے کیونکہ WHOکاٹارگٹ ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں پوری دنیا میں ہیپاٹائٹس C کی شرح ایک فیصد سے نیچے لائی جائے۔

وہ خاندان جن کے گھر کے اندر ہیپاٹائٹس بی یا سی کا مریض ہے اس کو سال میں ایک دفعہ اپنی سکریننگ ضرور کروانی چاہیے۔جن کا آپریشن ہوا ہے یا انتقال خون ہوا ہے ان کو بھی سکریننگ کروانی چاہیے۔یا جن لوگوں نے جسم پر ٹیٹو بنوائے ہیں ان کو زندگی میں ایک دفعہ سکریننگ کروانی چاہیے۔ ایمبولینس ، لیبارٹری والوں جیلوں میں رہنے والوں کی بھی میں ایک دفعہ سکریننگ کروانی چاہیے۔ایک بات جو کلیئر کرنا چاہوں گا کہ ہم لوگوں کا سٹینڈرڈ آّپریٹنگ سسٹم یہ ہے کہ جب ٹیکے لگ جاتے ہیں تو چھ مہینے کے بعد دوبارہ ٹیسٹ کرواتے ہیں وہ فائنل ٹیسٹ ہوتا ہے جس میں ہم کہتے ہیں کہ ہیپاٹائٹس سے جان چھوٹ گئی کہ نہیں چھوٹی۔ اگر ہیپاٹائٹس Cکا وائرس چھ ماہ بعد نیگیٹیو ہے تو 90 فیصد چانس ہیں کہ آپ ہمیشہ کے لیے باقی ساری زندگی ہیپاٹائٹس سے کلیئر ہوجاتے ہیں۔

دس فیصد چانس ہوتا ہے کہ آخری سٹیج میں شاید کسی موقع پر جراثیم دوبارہ نمودار ہوجائیں۔یہ مسئلہ عموماً جینوٹائپ 2 کے ساتھ شائد زیادہ ہے مگر جینو ٹائپ 1 اور جنیوٹائپ 3 کے ساتھ نسبتاً کم ہے۔اگر کسی مریض میں چار پانچ سال بعد دوبارہ ہیپاٹائٹس شروع ہوجائے تو سوچنے والی بات یہ ہوتی ہے کہ یہ نیا وائرس ہے یا وہی پرانا نمودار ہوگیا ہے۔ اس کے لیے جنیٹک میپنگ واحد طریقہ ہے جس سے ہم یہ فیصلہ کر پاتے ہیں کہ وہ پرانا انفیکشن نمودار ہوا یا نیا انفیکشن ۔ لیکن جنیٹک میپنگ بہت مہنگی ہے۔

ڈاکٹر عارف محمود صدیقی (پروفیسر علامہ اقبال میڈیکل کالج)

تکنیکی طور پر جگر کی سوزش کو ’’ہیپاٹائٹس‘‘ کہتے ہیں۔اگر آپ میڈیکل کی کتابوں میں دیکھیں تو ہیپاٹائٹس کی وجوہات میں ایک لمبی لسٹ ہو گی اور شاید پچاس سے زائد ایسی بیماریاں ہیں جو ہیپاٹائٹس کے زمرے میں آتی ہیں لیکن ہیپاٹائٹس ’’بی ‘‘ اور ’’سی‘‘ پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہپاٹائٹس ’’بی‘‘ اور ’’سی ‘‘ وائرس کی وجہ سے جگر میں سوزش ہوجاتی ہے۔

’’ہیپاٹائٹس بی اورسی‘‘ کے حوالے سے لوگوں میں ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ غلط خوراک یاگندے پانی سے ہیپاٹائٹس پھیلتا ہے ، یہ باالکل غلط تصور ہے۔۔ گندے پانی اور گندی خوراک سے کئی اور بیماریاں تو پھیلتی ہیں مگر ہیپاٹائٹس ’’بی اور سی ‘‘ نہیں پھیلتا۔اس کے پھیلنے کی بڑی وجہ ’’ہیپاٹائٹس ‘‘ سے متاثرہ مریض کا خون یا اس کے رطوبات کسی صحت مند آدمی کے جسم کے اندر گھس جائیں۔ جسم کے اوپر خون لگنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ عموماً کیسے ہوتا ہے؟ اگر کسی بلڈ ٹرانسفوژن میں اگر بلڈ دینے والے کو ہیپاٹائٹس ہو تو پھر بلڈ لینے والے کو بھی ہیپاٹائٹس ہوجاتا ہے۔اسی طرح بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر ڈسپوزیبل سرنج کو باربار استعمال کیا جائے اور کسی ہیپاٹائٹس سے متاثرہ شخص کو لگائی گئی سرنج کسی اور شخص کو لگائی جائے تو وہ شخص بھی ہیپاٹائٹس کا شکار ہوجاتا ہے۔

ناک، کان چھیدوانے، جسم میں ’’ٹیٹو‘‘ بنوانے سے بھی ہیپاٹائٹس ہو سکتا ہے ۔میڈیکل پروسیجر جن میں اوزار استعمال ہوتے ہیں اگر ان کو معیاری طور پر ’’سٹریلائز ‘‘ نہ کیا جائے تو ان کے استعمال سے بھی ہیپاٹائٹس ہوسکتا ہے ۔ان وجوہات کا جاننا اس لیے ضروری ہے کہ اگر ہم کو پتہ ہو گا تواس وائرس کو پھیلنے سے روکا جاسکے گا۔ میاں بیوی کے تعلق سے بھی ہیپاٹائٹس ہو سکتا مگر اس کے امکانات صرف پانچ فیصد ہوتے ہیں۔ہم جنس پرستی سے اس کے پھیلنے کا بہت زیادہ چانس ہوتا ہے۔اگر اس کے علاج کے حوالے سے بات کی جائے توبہت اچھی بات یہ ہے کہ ہیپاٹائٹس ’’بی ‘‘ کے لیے ایک بہت کارگر ویکسین حفاظتی ٹیکوں کی شکل میں میسر ہے۔

یہ بڑاہم حفاظتی ٹیکہ ہے جس کے استعمال سے 95 فیصد سے زیادہ لوگوں کو ہیپاٹائٹس بی سے تحفظ ملتا ہے۔ لہٰذا جس کے بھی خاندان میں ہیپاٹائٹس ’’بی‘‘ کا مریض ہے یا ہیپاٹائٹس ’’بی ‘‘ ہونے کا اندیشہ ہے اس کو چاہیے کے ہیپاٹائٹس کی یہ تین ’’ڈوزز‘‘ ضرور لگوائے۔اور ’’ای بی آئی ‘‘ پروگرام کے تحت بھی بچوں کو یہ ویکسین لگائی جارہی ہے۔ اگر ہیپاٹائٹس’’سی ‘‘ کی بات کریں تو اس کی کوئی ویکسین نہیں ہے بلکہ انجکشن اور کیپسول سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ پچھلے بیس، پچیس سالوں سے یہ علاج ان دونوں چیز وں سے ہی ہو رہا تھا۔اور اس علاج میں نئی نئی چیزیں پیدا ہورہی تھیں اور ان دواؤں سے کامیابی کی شرح تقریباً 75 فیصد تک پہنچ چکی تھی ۔ اب مارکیٹ میں کچھ گولیاں آگئی ہیں اور کچھ آنیوالی ہیں جن سے انٹرفرون انجکشن کے بغیر بھی ہیپاٹائٹس ’’ C‘‘ کا علاج ممکن نظر آرہا ہے ۔

کچھ ادویات پاکستان میں آنے والی ہیں۔ان نئی ادویات کی رجسٹریشن کے حوالے سے حکومتی اقدامات بروقت اور قابل تحسین ہیں۔ یہ ایک بڑی خوش آئند بات ہے کہ اس طرح کی گولیاں دنیا میں آرہی ہیں اور ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ دنیا کی کوششوں اور لوگوں کی آگا ہی سے ہیپاٹائٹس ’’ C‘‘کو چیچک کی طرح شائد دنیا سے ختم کردیا جائے لیکن اس کے لیے بڑے پیمانے پرآگا ہی اور علاج معالجے کی ضرورت ہوگی۔جو نئی دوائی پاکستان میں آرہی ہے اس کا نام سویلڈین ہے۔ یہ دوائی ’’انٹرفرون‘‘ کے ساتھ بھی لگ سکتی ہے انٹرفرون کے بغیر بھی لگ سکتی ہے۔ جس مریض کا ہیپاٹائٹس بہت ایڈوانس مرحلے میں پہنچ چکا ہے اس کو انٹرفرون کے ساتھ لگائی جاتی ہے۔اورجس شخص میں تازہ تازہ ہیپاٹائٹس کی تشخیص ہوئی ہے ۔

اس کا انٹرفرون انجکشن کے بغیر ’’ریباوائرن ‘‘ “ribavirin” کے کمبی نیشن سے بھی علاج ممکن ہے۔اس کے علاوہ بہت سی مہنگی ادویات ایسی ہیں جو ابھی مارکیٹ میں آنیوالی ہیں۔یہ امید کی جاسکتی ہے کہ آنیوالے سالوں میں ہیپاٹائٹس کی ٹریٹمنٹ ’’انٹرفرون ‘‘ انجکشن کے بغیر ہوگی۔انٹرفرون انجکشن کے قریباً پچاس کے قریب ’’سائڈ ایفکٹس ‘‘ ہوتے ہیں اور مریض کے لیے کافی تکلیف دہ ہوتا ہے اگرچہ ہمارے 95 فیصد سے زیادہ افراد ’’سائیڈ ایفکٹس‘‘ کے باجود اس کا کورس مکمل کرلیتے ہیں لیکن پھربھی انجکشن کا ایک خوف اور سائیڈ ایفکٹس ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ہیپاٹائٹس C کے وائرس کو ’’جینو ٹائپ 3‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے علاج کی کامیابی کی شرح 60 سے 70 فیصد ہے۔

جبکہ امریکہ اور یورپ میں پائے جانیوالے ہیپاٹائٹس C کے وائرس کے علاج میں کامیابی کی شرح 50 فیصد تک ہوتی ہے۔ہیپاٹائٹس کے تدارک کے لیے سب سے بنیاد ی بات تو یہ ہے کہ’’پرہیز علاج سے بہتر ہے ‘‘ ۔ ہیپاٹائٹس کی آگاہی کے لیے اشتہارات سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔

اشتہارات کو مسلسل بنیادوں پر چلانے کی ضرورت ہے۔ ماس میڈیا کے ذریعے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے ضرورت ہے۔حکومت کی طرف سے ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کے لیے باقاعدہ پروگرام چل رہا ہے جس میں انٹرفرون انجکشن میسر ہے دیگر ادویات بھی میسر ہیں اور بیت المال بھی اس میں حصہ ڈال رہا ہے۔ہیپاٹائٹس کے علاج کے لیے نئی گولی کی قیمت کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں ایک گولی کی قیمت ایک ہزار ڈالر ہے جو تقریباً ایک کروڑ روپے سے زیادہ میں کورس بن جاتا ہے جبکہ ہمارے ملک میں یہ بہت سبسڈائزڈ ریٹ پر آرہی ہیں ۔ اسی طرح دنیا میں بہت سے ادارے ایسے ہیں جن سے ہم اپیل کریں کہ ہم معاشی طور پر کمزور ملک ہیں اور ہمارے ملک میں سستے داموں یہ دوائیاں آئیں یا ہم اجازت لے کر اپنے ملک میں ان ادویات کو بنائیں تاکہ ہم اپنے غریب لوگوں ادویات دے سکیں۔

تھوڑا سا بلڈ بینکس کے بارے میں ذکر کرنا چاہوں گا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جس ڈونر نے خون دینا ہوتا ہے اس کا سکرین ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اور ٹیسٹ کرنے کے بے شمار سستے اور مہنگے طریقے ہیں۔تو جو ناقص معیار کے بلڈ یینکس ہیں وہ انتہائی سستے طریقے سے بلڈ ٹیسٹ کرتے ہیں۔جس میں یہ چانس ہوتا ہے کہ ہیپاٹائٹس پھیلنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جب مہنگے بلڈ بینکوں سے زیادہ قمیت لگتی ہے تو وہ سکریننگ کے لیے سستے بلڈ بینکوں کی طرف راغب ہوتے ہیں اور اس میں لامحالہ طور پر ہیپاٹائٹس پھیلنے کا زریعہ بن جاتا ہے۔

حکومت کی اس میں بہت بڑی کنٹربیوشن ہے اور ہونی چاہیے کہ بلڈ بینکس کو اعتماد میں لے کر ان کی سکروٹنی کرنا چاہیے اور جہاں جہاں خامیاں ہیں ان کو صحیح کرنا چاہیے ۔میں سمجھتا ہوں کہ ان کو بند کرنے کی بجائے ان کی خامیوں کی نشاندہی کی جائے اور ان کی تصحیح کی جائے تاکہ وہی بلڈ بینک جو مسئلہ کا ذریعہ ہے وہ حل کا ذریعہ بن جائیں۔جہاں تک جنرک ادویات کو رجسٹر کرنے کا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ عالمی معیاریعنی FDAٓاور EU سے ہٹ کر جنرک ادویات کو رجسٹر کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔لہٰذا ان نئی ادویات کو کلینکل ٹرائلز اور حفاظتی ڈیٹا کے بغیر مریضوں پر استعمال کرنا ٹھیک نہیں ہے۔

ڈاکٹر کاشف ملک (شیخ زید ہسپتال) 

ٹیبلیٹس کی شکل میں ادویات آنے سے ایک انقلابی تبدیلی آئی ہے۔ ہم سب انجکشن لگوانے سے ڈرتے ہیں۔ انجکشن تھیراپی سے ہر بندہ ڈرتا ہے ۔ لیکن چونکہ یہ پائپ لائن میں ہے اور اسکے پیچھے بہت سی ادویات ابھی آنے والی ہیں۔ سوالڈین پہلی دوائی ہے جس کی پاکستان میں قیمت کم ہونے کی وجہ سے ہم کو میسر ہوگئی ہے۔ لیکن اسکے ساتھ کچھ ادویات اور ہیں جو آنے والے وقت میں آئیں گی۔ کہا جاتا ہے کہ آئندہ دو تین سال میں انٹرفیرون انجکشن کا استعمال ختم ہو جائے گا اور انٹرفیرون انجکشن نہیں لگایا جائے گا۔ اور یہ ہیپاٹائٹس کے علاج کے حوالے سے سب سے مثبت تبدیلی ہوگی۔

جب تک ان گولیوں کی قیمت ہماری رینج میں نہیں آئے گی تو ہمیں پاکستان میں اسے مریضوں کو دینے میں مشکل پیش آئے گی۔جہاں تک ہیپاٹائٹس کے تدارک کی بات ہے تو اس حوالے سے لوگوں کو آگاہی دی جائے اور لوگوں کو تھوڑا سا ڈرایا جائے اور تھوڑا سا مثبت طور پر بھی بتایا جائے کہ اگر کسی کو ہیپاٹائٹس ہے تو لاعلاج نہیں بلکہ قابل علاج ہے۔ جو نئی ادویات متعارف کروائی گئی ہیں انہیں جب ہم مریضوں کو دیں گے توپھر جب ہمارا اپنا ڈیٹا آئے گا تو ہم اس دوائی کی افادیت کے بار ے میں زیادہ بہتر بتاسکیں گے کیونکہ ہمارے ہاں ہیپاٹائٹس ’’جینو ٹائپ تھری‘‘ہے ۔اس میں وہ دواساز یہ تجویز کرتے ہیں کہ آپ ٹیبلیٹ دیں اور اس کے ساتھ کیپسول دیں تو چھ ماہ میں یہ ختم ہوجائے گی لیکن بعض دفعہ ہمارے یہاں مریض اس کی تشخیص میں لیٹ ہوجاتے ہیں ان میں سروسسز کا عنصر آجائے تو کہا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ انٹر فیرون کمبائن کرکے دیں۔

اس میںپھر دورانیے کا عنصر ہوتا ہے کوئی تین ماہ چاہتا ہے کوئی چھ ماہ چاہتا ہے۔لیکن ہمارا اپنا ڈیٹا اسی وقت آئے گاجب ہم اس دوائی کو استعمال کریں گے اور اسکے بعد ہم دوائی کی افادیت کے بارے میں بتانے والی پوزیشن میں ہوں گے ۔مغرب کے ڈیٹا کے مطابق انہوں نے پہلے جینو ٹائپ ون کے لیے یہ ادویات بنائی تھیں۔ مغربی ممالک میں جینو ٹائپ تھری ختم ہوگئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے 95 فیصد مریض پرانی ٹریٹمنٹ سے ہی ٹھیک ہوگئے لیکن ہمارے یہاں پرانی ٹریٹمنٹ سے 60 سے 70 فیصد لوگ اچھی سے اچھی ٹریٹمنٹ سے کلیئرکر سکے ہیں۔

اس لیے ہم اس دوائی کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہ سکتے کہ یہ کتنی موثر ہے۔ دوائی ہم شروع کریں گے تو ہی لوکل ڈیٹا شیئر کر سکیں گے اور بتا سکیں گے کہ یہ دوائی زیادہ موثر ہے یا آنے والی دوائیں زیادہ موثر ہیں۔تاہم نئی ادویات کو حکومتی پروگرامز میں بھی ضرور شامل کیا جانا چاہیے تاکہ غریب مریض بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کی آبادی کے چھ سے آٹھ فیصد لوگ ہیپائٹس سی کا شکار ہیں۔ پنجاب میں اس کی شرح زیادہ ہے جبکہ خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور سندھ میں کم ہے جبکہ ہیپاٹائٹس بی کی شرح باالکل اس کے برعکس ہے۔

ہیپاٹائٹس بی پنجاب میں کم جبکہ خیبر پختونخواہ، سندھ اور بلوچستان میں زیادہ ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں 6 سے 8 فیصد لوگ ہیپاٹائٹس سی اور 4 فیصد لوگ ہیپائٹس بی کا شکار ہیں۔پنجاب میں ہیپائٹس سی کے مر یضوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ وثوق سے نہیں بتائی جاسکتی۔مگر یہ ممکن ہے کہ پرانے وقتوں میں باربارانجکشن سرنجز کا استعمال کیا گیا ہو، سرجیکل انسٹرومنٹس کو صحیح استعمال نہ کیا گیا ہو۔ ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے ایک اچھی کوشش ہے ، لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کی جانی چاہیے۔ سب سے پہلے تو پرہیز کا بتایا جائے۔ اگر ہم روز مرہ زندگی کی بات کریں تواگر شیو کروانی ہے تو ریزر شیو سے بچا جائے ۔

اگرخواتین کان یا ناک چھیدوانے جائیں تو اس سے بھی ہیپائٹس ہوسکتا ہے۔اگر آپ اپنا ٹریٹمنٹ کروارہے ہیں تو اس بات کو مدنظر ضرور رکھیں کہ انجکشن نئی سرنج سے لگایا جارہا ہے اور آلات جراحی کے حوالے آپ جس بھی ہسپتال میں آپریشن یا ٹریٹمنٹ کے لیے جارہے ہیں ان کے سٹریلائزیشن کے طریقہ کار کو مدنظر رکھیں۔حکومتی سطح پر اگر لوگوں کو آگاہی فراہم کی جائے تو بہت بہتر ہوگا۔دوسری بات ٹریٹمنٹ کی ہے۔ اس کی ٹریٹمنٹ بہت تبدیل ہو چکی ہے۔

پہلے انٹر فیرون انجکشن لگتے تھے جو ہفتے میں تین دن یا ایک دن چھوڑکر اگلے دن لگتے تھے اس میں ریسپانس اتنا اچھا نہیں ہوتا تھا۔اس کے بعد ہفتے میں ایک دفعہ والے آگئے۔لہٰذا اس حوالے سے ہمارے یہاں کوئی ایسی پالیسی نہیں بنی کہ کس کو کیا دینا ہے؟ہماری ایک پالیسی یہ بھی ہے کہ جو نیا مریض ہے ہے اس کو ہفتے میں تین والے انجکشن دے دیں ۔یہ ایک سستی ٹریٹمنٹ ہے۔لیکن میرا اپنا خیال یہ ہے کہ اس کو پہلے ہی اچھے طریقے سے ٹریٹ کر لیا جائے توہمارے پاس ایسے کیسز کم ہوں گے جن میں دوبارہ ہیپاٹائٹس آجاتا ہے اور اس کے حوالے سے گورننمٹ کو ایک پالیسی بنانی چاہیے کہ انہوں نے کیا ٹریٹمنٹ دینی ہے۔

جہاں تک اورل ٹریٹمنٹ کی بات ہے تو یہ مہنگی بھی ہے ، نئی بھی ہے، حکومت پر بجٹ سے اس پر پیسے لگاتی ہے۔لیکن مستقبل میں حکومت کو اس پر بھی سوچنا چاہیے کہ اگریہ ٹریٹمنٹ آجائے اور ڈیوٹیز وغیرہ کم ہو، دوائی سستی مل جائے تو میرا خیال ہے کہ مریضوں کو اسکا فائدہ ہوگااور ڈاکٹرز پر بھی لوڈ کم ہوگا۔ آپ ہمارے پاس آکر دیکھیں تو اگر ستر مریض ہوں تو ان میں سے پچاس ہیپاٹائیٹس کے ہوتے ہیں اور ان پچاس میں سے بھی تیس ،پینتیس ایسے ہوتے ہیں جن کو انجکشن لگ گئے ہوتے ہیں ، وہ بیچارے باربار آرہے ہوتے ہیں کہ ہمیں نئی ٹریٹنمنٹ دے دیں تو اس حساب سے ہم پر ٹوٹل لوڈ بڑھ جاتا ہے۔اس کے لیے اگر کوئی جامع پالیسی بنے تو ہمیں ٖفائدہ ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔