ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں نصف تعداد بے گناہ شہریوں کی ہے، برطانوی رپورٹ

ویب ڈیسک  جمعـء 1 اگست 2014
ڈرون حملوں میں 67 بچے ڈمہ ڈولہ میں 2006 میں ایک مدرسے پر حملے میں جاں بحق ہوئے تھے۔ فوٹو: فائل

ڈرون حملوں میں 67 بچے ڈمہ ڈولہ میں 2006 میں ایک مدرسے پر حملے میں جاں بحق ہوئے تھے۔ فوٹو: فائل

لندن: برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک غیرسرکاری ادارے نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ 10 برسوں کے دوران امریکی ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد میں سے نصف سے زائد لوگ بے گناہ شہری ہیں۔

بیورو آف انویسٹی گیٹیو جرنلزم نامی برطانوی ادارے نے گزشتہ برس ’نیمنگ دی ڈیڈ‘ یعنی ’مرنے والوں کی شناخت‘ نامی ایک خصوصی مہم کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے نام اکٹھے کرنا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 10 برسوں میں پاکستان میں امریکا نے کم وبیش 370 ڈرون حملے کئے۔ ان ڈرون حملوں میں 2 ہزار 342 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے انہیں تفصیلات اکٹھی کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں سے صرف 700 یعنی ایک تہائی افراد کی شناخت ہی ہوسکی ہے۔ شناخت کئے گئے افراد میں سے 323 عام شہری تھے۔ مجموعی طور پر 168 بچوں میں سے 99 کی شناخت کی جاسکی ہے۔ جن میں سے67 بچے باجوڑ ایجنسی کے علاقے ڈمہ ڈولہ میں 2006 میں ایک مدرسے پر حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔

برطانوی ادارے کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں میں کم از کم 55 عورتیں ہلاک ہوئی ہیں تاہم ان میں سے صرف  2 ہی کی شناخت کی جاسکی ہے جن میں ایک 60 سال سے زائد عمر کی خاتون بی بی مامنہ تھیں جو اپنے مکان کے قریب کھیتوں میں کام کرتے ہوئے جاں بحق ہوئیں۔ دوسری عورت اسپین سے تعلق رکھنے والی ریچل برگس گارشیا تھیں جو القاعدہ کے رکن العزیزی کی اہلیہ تھیں۔

رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں برس 10 جولائی کو شمالی وزیرستان میں کئے گئے ڈرون حملے میں القاعدہ کے 3 ارکان ہلاک ہوئے جن کی شناخت خود القاعدہ کے ایک سینیئر رہنما اور اسامہ بن لادن کے خاندان کے رکن صنافی النصر نےسماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر فیض الخالدی، تاج المکی اور ابو عبدالرحمان الکویتی کے نام سے کی ہے۔

واضح رہے کہ امریکی حکام کہتے ہیں کہ ڈرون حملوں میں صرف شدت پسندوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ حکومت پاکستان باقاعدگی سے اس قسم کے حملوں کی مذمت کرتا رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔