اسلام آباد کی سیاسی لڑائی

سلمان عابد  اتوار 17 اگست 2014
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

تحریک انصاف اور عوامی تحریک کا آزادی اور انقلاب مارچ تمام تر ٹکراؤ کے خدشات کے باوجود اسلام آباد پہنچ گیا ہے۔ اگرچہ گوجرانوالہ میں عمران خان کے آزادی مارچ پر حملہ نے ٹکراؤ کی کیفیت پیدا کر دی، لیکن عمران خان کی جانب سے اسی طرح کے ردعمل سے گریز کرکے سیاسی بردباری کا مظاہرہ کیا گیا ۔

کیونکہ اگر وہاں تحریک انصاف اور مسلم لیگ )ن(کے کارکنوں کے درمیان تشدد کا عمل پھیل جاتا تو اس کا سب سے بڑا نقصان خود حکومت کو ہونا تھا ۔اسی طرح حکومت نے جس انداز میں عوامی تحریک اور ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں یہ رائے دی تھی کہ ان کے کارکن پرتشدد کارروائیوں کی مدد سے اسلام آباد پر سیاسی چڑھائی کریں گے ، غلط ثابت ہوا۔انتظامی حکمت عملی کے مقابلے میں سیاسی حکمت عملی اور ڈاکٹر قادری کو اسلام آباد جانے کی اجازت درست حکمت عملی تھی۔اس میں گورنر پنجاب چوہدری سرور کو داد دینی چاہیے کہ انھوں نے بردباری کا مظاہرہ کرکے وہ کچھ کیا جو حکومت کی ذمے داری کے زمرے میں آتا تھا۔

عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اسلام آباد سے اپنے مطالبات کی منظوری تک نہ اٹھنے کا اعلان کر رہے ہیں۔عمران خان لاہور سے اس عزم کے ساتھ نکلے ہیں کہ وہ وزیر اعظم نواز شریف کے استعفی کے بغیر نہیں آئیں گے۔ ان کے دیگر مطالبات میں ٹیکنوکریٹ یا غیر سیاسی حکومت کی تشکیل، الیکشن کمیشن کا استعفی ، انتخابی دھاندلیوں پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر مشتمل کمیشن ، انتخابی اصلاحات اور دھاندلی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرکے نئے اور شفاف انتخابات شامل ہیں ۔ جب کہ اس کے برعکس ڈاکٹر طاہر القادری کا موقف بھی کچھ عمران خان کے مطالبات سے جڑا ہوا ہے ۔ البتہ اہم بات یہ ہے کہ دونوں دھرنوں کا نشانہ وزیر اعظم نواز شریف اور پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف ہیں ۔

عمران خان نے اسلام آباد پہنچ کر جو رات کی تاریکی میں جلسہ کیا ، وہ واقعی قابل دید تھا ۔ بارش کے باوجود جس انداز سے عمران خان کے صبح فجر تک نعرے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ حکومت پر دباؤ ڈال کر بہت کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اس لیے اسلام آباد میں دونوں جماعتوں کے دھرنوں میں وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے استعفی کے نعروں کی سیاسی گونج فی الحال غالب نظر آتی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ اسلام آباد کے اس دھرنے میں حکومت ، تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے لوگ کس حد تک اپنے اپنے موقف میں سیاسی لچک کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔

وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں عدالتی کمیشن بنا کر معاملات کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی ، لیکن یہ حکمت کارگر نہ ہو سکی۔ وزیر اعظم کی یہ تجویز کیونکہ آخری لمحات میں آئی ، اس لیے اس کو بنیاد بناکر عمران خان نے کسی بھی صورت میں اپنا آزادی مارچ ملتوی نہیں کرنا تھا ۔عمران خان اس عدالتی کمیشن پر وزیر اعظم کی موجودگی انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکے گی ۔اگر عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اپنے موقف میں لچک نہیں دکھاتے تو سیاسی ڈیڈ لاک کا پیدا ہونا فطری امر ہوگا ۔یہ ڈیڈ لاک کسی بھی صورت میں حکومت کے حق میں نہیںہوگا، کیونکہ دھرنے کی طوالت اور ممکنہ مسائل حکومتی کنٹرول سے باہر ہوسکتے ہیں ۔

جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو وہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے مطالبات پرالیکشن کمیشن کی نئی تشکیل نو، انتخابی اصلاحات ، کچھ حلقوں پر دوبارہ گنتی، انتخابی دھاندلیوں پر عدالتی کمیشن کی مدد سے تحقیقات کے معاملات پر غور کرسکتی ہے البتہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے استعفیٰ پر وہ کوئی بات چیت نہیں کریں گے۔

دیکھنا ہوگا کہ حکومت عمران خان کے ساتھ کیا کچھ ڈیل کرتی ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ کیا کچھ طے ہوتا ہے ۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حکومت کے ساتھ جو کچھ بھی ڈیل ہو اس میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان کس حد تک اشتراک ہوتا ہے۔اسی طرح عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری میں سے جو بھی حکومت کے ساتھ کمزور ڈیل کرے گا ، ان میں سے اس کی سیاست بھی متاثر ہوگی ، یہ تاثر عام ہوگا کہ انھوں نے سمجھوتہ کرکے محفوظ راستہ تلاش کیا ہے ۔اس لیے خود عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری بھی ایک دوسرے کی سیاسی قوت کے سامنے دباؤ میں ہونگے کہ وہ مضبوط موقف اختیار کریں ۔

عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا مسئلہ یہ ہے کہ دونوں فریق نے صورتحال کو اس حد تک شدت دے دی ہے کہ وہ کچھ بڑا حاصل کیے بغیر آسانی کے ساتھ اپنے آپ کو اور اپنے کارکنوں کو کیسے مطمن کرسکیں گے ۔کیونکہ اگر یہ دونوں فریق اپنے تمام تر بڑے مطالبات پر پسپائی اختیار کرکے اسلام آباد سے واپس آتے ہیں تویہ تاثر عام ہوگا کہ انھیں حکومت کے مقابلے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔اس لیے سب فریقوں کو عملی طور پر ایک ایسی ڈیل کی ضرورت ہے ۔

جس پر سب کو یہ احساس ہو کہ وہ ہارے نہیں ، بلکہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر واپس آئے ہیں ۔حکومت مخالف قوتیں سمجھتی ہیں کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب جس بڑے دباؤ سے دوچار ہیں ، انھیں اس مشکل میں ریلیف دینا اپنے آپ کو کمزور کرنا اور حکومت کو مضبوط بنانے کے مترادف ہوگا ۔اس لیے مڈٹرم انتخاب کے اعلان کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ، سب فریق اسلام آباد کے دھرنے کے خاتمے کے بعد بھی نئے انتخابات کے نعرے کو اپنی سیاست کی بنیاد بنا کرسیاسی رسہ کشی کے کھیل کو جاری رکھیں گے۔

اس لیے اب حکمرانوں کے لیے اپنے موجودہ حکومتی انتظامی ڈھانچے اور پانچ برس کی مدت کی خواہش کو مکمل کرنا آسان نہیں ہوگا ۔ اس وقت اسلام آباد کے کھیل میں دو اہم کردار ہیں ۔ اول پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کوشش کریں گے کہ فریقین میں ایسا اتفاق ہو جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اگر عمران خان نے سیاسی لچک کا مظاہرہ نہ کیا تو ان کی سیاسی حیثیت کمزور ہوگی ، یہ بات کافی حد تک ٹھیک ہے ،لیکن عمران خان کو کچھ تو دینا ہوگا ۔

دوئم اگر وہ اس مفاہمت میں ناکام ہوتے ہیں تو گیند سیاسی قوتوں کے ہاتھ سے نکل کر براہ راست اسٹیبلیشمنٹ کے ہاتھوں میں آجائے گی ۔ اسٹیبلیشمنٹ اگر نہیں بھی چاہے گی تو تب بھی اسے سیاسی ڈیڈ لاک کے درمیان آنا ہوگا ۔ایسی صورت میں فیصلوں کی اصل طاقت سیاسی قوتوں کے ہاتھ سے نکل کر ان ہی قوتوں کے پاس جائے گی ، جو ماضی میں اسی طرح کی سیاسی مفاہمت کا حصہ رہے ہیں ۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سارے کھیل میں اگر مسئلہ سیاسی طور پر حل نہیں ہوتا تو اسٹیبلشمنٹ اسلام آباد کی نئی صورتحال سے اپنے آپ کو بہت زیادہ لاتعلق یا خاموش تماشائی کے طور پر نہیں رکھ سکے گی ۔ ایک صورت عدلیہ کے کردار کے ساتھ بھی جڑی نظر آتی ہے ، جہاں اس کے فیصلوں کو بنیاد بنا کر کچھ ایسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں جو سب کے لیے قابل قبول ہوں ۔کیونکہ عدلیہ کے اس فیصلہ کے بعد ریاستی ادارے صورتحال کو جواز بنا کر غیر آئینی اقدام سے باز رہیں ،براہ راست اقدام کی نفی کرتا ہے ۔

البتہ اب یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اسلام آباد کے سیاسی دھرنے سے حکومت کمزور ہوئی ہے اور اسی کمزوری کی بنیاد پر اسے بہت کچھ کھونا ہوگا ۔ وہ کیا کھوتی ہے اس کا فیصلہ چند دنوں میں ہوگا کہ کون کس پر سیاسی برتری حاصل کرتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔