خواتین کا نقطہ نظر ہونا بھی ضروری ہے!

شاہانہ شکیل  پير 18 اگست 2014
آنکھیں بند کرکے مردوں کے نظریات کی پیروی درست نہیں۔   فوٹو: فائل

آنکھیں بند کرکے مردوں کے نظریات کی پیروی درست نہیں۔ فوٹو: فائل

ہر انسان کے اپنے خیالات اور نظریات ہوتے ہیں، جو یک ساں بھی ہوسکتے ہیں اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ بہت سے نظریات کی بنیاد پر کسی بھی فرد کی زندگی گزارنے کے طریقے کا انحصار ہوتا ہے۔

جیسے کسی شخص کو گلاب کے پودے میں صرف کانٹے نظر آتے ہیں، تو کسی کو ان خوب صورت پھولوں کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ جیسے پانی سے بھرا ایک گلاس کچھ لوگوں کے نزدیک آدھا بھرا ہوا اور بعض کے نزدیک آدھا خالی قرار پائے گا۔ درحقیقت دونوں کا نظریہ اپنی اپنی جگہ پر درست ہے۔ یہ گلاس آدھا بھرا ہوا بھی ہے اور آدھا خالی بھی۔

یہ اختلاف زندگی میں ایک عام سی بات ہے۔ کسی بھی چیز کو دیکھنے، سمجھنے اور پرکھنے کا ہر انسان کا اپنا زاویہ ہوتا ہے اور یہی زاویہ نگاہ ہی اس کا نظریہ کہلاتا ہے۔ انسان کا نظریہ متوازن اور غیر متوازن، منفی اور مثبت بھی ہو سکتا ہے۔ جس کی بنیاد پر وہ چیزوں کو پرکھتا ہے۔ مثبت نظریات کے حامل افراد زندگی کے نا مساعد حالات کا مقابلہ بڑی آسانی سے کر لیتے ہیں، جب کہ منفی خیالات کے مالک افراد چھوٹے چھوٹے مصائب اور پریشانیوں سے بہت جلد گھبرا جاتے ہیں۔ کسی مسئلے کے ایک پہلو کو دیکھ کر قایم ہونے والا نظریہ غیر متوازن کہا جا سکتا ہے۔ یہ پیچیدگیوں کا باعث بھی ہوتا ہے۔

اس معاملے کا سب سے عجیب پہلو یہ ہے کہ نظریات کے اس میدان میں بھی اکثر خواتین مردوں کے دست نگر ہیں۔ ہمارے ہاں طے شدہ ذہنیت کے تحت یہ سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے اسی رائے سے اتفاق کرنا ہے، جو ان کے گھر کے مردوں کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ شادی کے بعد ایک دم سے لڑکی کو اپنے مختلف نظریات کو بھی تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ یہ اس کے نئے گھر کا تقاضا قرار پاتا ہے۔

وہ خود بھی اس سمت نہیں سوچتی کہ اس کی رائے اور اس کی فکر اس کی اپنی ہونی چاہیے، اور نہ ہی دوسرے اس سمت میں سوچ سکتے ہیں کہ کوئی خاتون بھی کسی معاملے پر اپنا نقطہ نظر رکھ سکتی ہے۔ یہ ایک انسانی حق کی ایسی خلاف ورزی ہے کہ جس پر کوئی بات بھی نہیں کرتا کہ بطور انسان کسی عورت کے اپنے خیالات بھی ہو سکتے ہیں۔

اس صورت حال کی ایک وجہ شاید یہ ہو کہ خواتین نے مردوں کی متوازی اپنی ایک الگ ہی دنیا بنا رکھی ہوتی ہے۔ معاشرے کے بہت سے ناگزیر کاموں کو وہ مردوں کے کام کہہ کر ایک طرف رکھ دیتی ہیں، کیوں کہ انہیں ہر صورت مردوں کی سوچ کے طابع ہی رہنا ہے۔

یہاں خواتین کے نقطہ نظر اور اپنی سوچ کے حوالے سے یہ تحریک دینا مقصود نہیں کہ وہ لٹھ لے کر مردوں سے تندو تیز بحث شروع کر دیں، بلکہ یہاں بطور انسان اور ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ان کی ذمہ داری پرتوجہ دلانا ہے۔

خواتین کو چاہیے کہ گردوپیش پر نظر رکھیں اور دوسروں کے نظریات اور خیالات کا باریک بینی سے جائزہ لیں۔ اخبارات، رسائل و جرائد اور مختلف کتابوں کا مطالعہ کریں۔ کسی بھی پریشانی کا بہتر حل کس طرح نکلے اس کے لیے مسئلے کے تمام پہلوئوں پر سنجیدگی سے غور و فکر کریں۔ کسی بھی نئے کام کی ابتدا و انتہا پر بھی نظر رکھیں، اس سے اپ میں قوت فیصلہ اور مضبوط قوت ارادی پروان چڑھے گی۔

کسی بھی کام سے متعلق شروع سے ہی منصوبہ بندی کریں۔ جس کام کو بھی کریں۔ اس کے ہر پہلو کے متعلق معلومات حاصل کیجیے۔ انٹرنیٹ کی سہولت ہو تو اس سے بھی استفادہ کریں۔

ہمارا نظریہ ہماری شخصیت کو پروقار بناتا ہے۔ اس طرح ہم غور وفکر کے ذریعے ایک انسانی حق کا استعمال کرتے ہیں۔ اسی میں زندگی کا لطف ہے۔ ساتھ ہی خیال رہے کہ جولوگ مثبت نظریات کے حامل ہوتے ہیں، ان کی باتوںسے ان کے نظریات کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو منفی خیالات کے حامل ہمیشہ زندگی سے نا امید رہتے ہیں۔ وہ نامرادیوں اور ناکامیوں کا رونا ہی روتے رہتے ہیں۔ ان کی زندگی حسن و جاذبیت سے عاری ہوتی جاتی ہے۔

اگر ہمارا نظریۂ زندگی مثبت ہو گا، تو ہم زندگی کو خوش دلی سے جینے کی کوشش کریں گے اور زندگی کے ہر رنج کا مقابلہ کریں گے اور مثبت نظریے کی بدولت ہی ہمیں یہ ہمت حاصل ہوتی ہے، لیکن یہاں پر پہلے آپ کا اپنا نقطہ نظر اور اپنی سوچ ہونا ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔