ریل اور ڈی ریل

انیس باقر  بدھ 20 اگست 2014
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

پاکستان کی تاریخ میں حقیقی جمہوریت کا فقدان رہا ہے، اسی لیے یہ ملک دو لخت ہوا اور فیض احمد فیض  نے صبح آزادی کو یہ کہہ کے پکارا ہے ’’یہ داغ دار اجالا یہ شب گزیدہ سحر‘‘ ہر آنے والے حاکم نے جمہوریت کی نفی کی اور جمہوری اصولوں سے انحراف کیا بلکہ جمہوریت میں نااہل لوگوں کو بلند ترین عہدوں پر فائز کیا گیا۔ ملازمتیں فروخت کی گئیں جمہوریت کی یہ عجیب و غریب کہانی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ حقیقت کہ موجودہ جمہوریت این آر او (No) کے تحفے میں ملی ہے اس میں دو مغربی ممالک اور ایک عرب ملک کی کوششیں شامل رہی ہیں۔

اس کا انکشاف فرینڈلی اپوزیشن پارٹی کی امریکا میں گفتگو سے لگایا جا سکتا ہے۔ پرویز مشرف سے وردی اتارنے اور فوجی عہدہ چھڑانا بھی اسی این آر او کا حصہ تھا جو غیر ملکی لابی اور کاوشوں کا نتیجہ تھا اسی لیے این آر او کے مسودے پر کوئی تفصیلی روشنی ڈالنے کو تیار نہیں بلکہ حکمراں گریزاں ہیں۔

اس کے پس پردہ پہلے اقتدار پیپلز پارٹی کو ملنا تھا لگتا ایسا ہی ہے اور اگر قیاس اور منطق کو ملا کر پتہ چلایا جائے تو دوسرا نمبر (ن) لیگ کا تھا چونکہ اب اگر اسی کلیے پر تکیہ کیا جائے تو قیاس سے یوں لگتا ہے کہ پھر آنے والی باری پی پی پی کی ہے کیونکہ ابتدائی طور پر پیپلز پارٹی (ن) لیگ سے کیے ہوئے معاہدے سے منحرف ہو گئی تھی مگر (ن) لیگ نے کوئی سخت گیر موقف اختیار نہ کیا بلکہ نرم رویہ اختیار کیے رکھا اور اب جواباً پیپلز پارٹی کے قائد حزب اختلاف نے بار بار یہ نعرہ لگایا کہ وہ جمہوریت کو ڈی ریل نہ ہونے دیں گے حالانکہ جمہوریت کی نہ کہیں کوئی پٹری ہے اور نہ ریل لہٰذا کون سی ریل ہے جس کو ڈی ریل یعنی پٹری سے اتارا جا رہا ہے۔

موجودہ جمہوری دور میں شدت پسندی، دہشت گردی کو بے حد توانائی حاصل ہوئی اور کراچی میں جاری آپریشن کو ایک طویل عرصہ ہو گیا مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا بلکہ صورتحال اس قدر المناک ہے کہ تقریباً کراچی میں بسنے والے ہر دوسرے خاندان میں ایک نہ ایک شخص رہزنی کا شکار ہو چکا ہے اور بھتے کی پرچی دکانداروں کے پاس باقاعدگی سے پہنچ رہی ہے ۔اس میں اس قدر تواتر ہے کہ اب دکانداروں نے قوت خرید میں بھتے کا خرچ ڈالنا شروع کر دیا ہے اور اب بغیر کسی پریشانی کے قیمت فروخت میں اس اضافے کو شامل کر دیا جاتا ہے کیونکہ قانون کے پاس جانے سے کچھ حاصل نہ ہو گا پہلے یہ عمل کراچی کے محدود علاقوں میں تھا پھر پورے کراچی اور اب یہ عمل ملک گیر صورت اختیار کر چکا ہے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کے زمانے میں (ن) لیگ یہ شور مچاتی تھی کہ غیر ملکی رقم واپس لائیں گے اور کشکول توڑیں گے مگر اقتدار سنبھالتے ہی یہ نعرہ اب کہیں سے سنائی نہیں دیتا بجلی کی قیمت میں اضافہ اور اس کی پیداوار میں کمی کا تسلسل برقرار ہے۔ روپے کے زوال میں کمی تو آئی مگر عام آدمی کی صورت حال نہ بدلی اس خلا کو دیکھتے ہوئے 10 برس سے زیادہ بیت گئے ایں جناب آتے رہے اور آں جناب جاتے رہے عوام کی حالت زار نہ بدلی بلکہ بد سے بدتر ہوتی گئی، محدود اور مخصوص لوگوں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا گیا مگر بیشتر تعلیمی اداروں میں جو ایڈہاک ملازمین تھے وہ ایڈہاک ازم پر ہی ملازمتیں کر رہے ہیں ہر سال ان کی سال بھر کی ملازمت میں توسیع کر دی جاتی ہے اور وہ تمام مراعات سے خالی ہیں۔

یہ انتخاب جیسے ہوئے ہر ایک کے احوال لوگوں کے سامنے ہیں جہاں ایک طرف عدلیہ کی طرف سے انتخابات کا نوٹس نہ لیا گیا بلکہ عمران خان کی فریاد کسی نے نہ سنی لہٰذا مجبوراً انھوں نے ماؤزے تنگ کے لانگ مارچ کی طرز پر اسمبلی کے گھیراؤ کا پروگرام بنایا تو دوسری جانب سے علامہ طاہر القادری  کا لانگ مارچ کا قصد کیا۔ 14 اگست 2014کا مارچ بالکل اسی للکار کے مانند ہے جیسے چیانگ کائی شیک کے خلاف ماؤزے تنگ کا تھا گویا علامہ طاہر القادری پاکستانی حکمرانوں کو دوسرے ملکوں کے آلہ کار سمجھتے ہیں لہٰذا نواز شریف نے طاہر القادری سے بات کرنا پسند نہ کی البتہ پیپلز پارٹی ماضی کی طرح علامہ طاہر القادری کو ایک بار پھر نواز شریف کے آلہ کار کے طور پر آگے بڑھائے گی مگر حالات بدل چکے ہیں۔

اس مرتبہ علامہ صاحب نے سنی اور شیعہ لیڈروں کو اپنا ہم خیال بنا رکھا ہے اس لیے معرکا بڑا اور شدید ہو گا، اگر آپ کو یاد ہو تو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اتنا شدید ردعمل نہ تھا پھر بھی ضیا الحق نے عنان حکومت سنبھال لی تھی اب جب کہ ضرب عضب جاری ہے اور شہروں میں بدامنی لہٰذا ڈی ریل کے شکوک حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتے ہیں علامہ طاہر القادری کی انقلابی کیفیت کا زاویہ نگاہ مولانا عبدالحمید بھاشانی جیسا ہے وہ بھی بندہ ٔ فقر ابوذرغفاری کے فلسفہ حیات سے قریب تر معلوم ہوتے ہیں۔

یہ تو سب جانتے ہیں کہ اسمبلی کا گھیراؤ آسان نہ ہو گا مگر یہ تو ایک ایسے گھیراؤ اور جلاؤ کا نظارہ ہو گا جو حکومت کے لیے تشویش کا باعث ہو گا۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں جس بربریت کا حکومتی مظاہرہ ہوا وہ اپنی نوعیت آپ تھا۔  گلو بٹ ایک ڈرامائی کردار (ن) لیگ کا انوکھا کردار تھا جو گاڑیوں کے شیشے توڑنے میں مصروف تھا، دوئم تحریک کو بے اثر کرنے کے لیے جو طریقے اختیار کیے گئے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ (ن) لیگ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے۔

اگر حکومت یہ سمجھ رہی ہے یا پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ این آر او کی وجہ سے فوجی مداخلت  نہیں ہو گی، مگر  جب ملک ہی داؤ پر لگ جائے گا تو پھر NRO اور درآمد شدہ جمہوریت کیونکر کام آئے گی۔ پاکستان کی جمہوریت کا احوال یہ ہے ملک میں میئر کے بجائے کمشنری نظام رائج ہے پاکستان کے حکمرانوں نے بھارت کا پارلیمانی نظام تو رائج کر لیا مگر زمینداری نظام کا خاتمہ وڈیرہ شاہی کا خاتمہ کرنے کے بعد پارلیمانی نظام چل رہا ہے اور یہ پاکستان میں بالکل ناکام ہو چکا ہے لہٰذا پاکستان میں صدارتی طرز حکومت کے لیے ریفرنڈم کرانے کی ضرورت ہے تا کہ فیڈریشن کو نئے سرے سے پراعتماد بنایا جائے اور چھوٹے صوبوں کو یہ احساس نہ ہو کہ اکثریتی صوبے کی من مانی چلے گی۔

اس کی مثال یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے آزادی مارچ رکوانے اور خصوصاً طاہر القادری کا مارچ رکوانے کے لیے کیا کچھ نہ کیا مگر اتفاق کی بات یہ ہے کہ آزادی اور انقلاب مارچ بھی وہیں سے نکلے اور مارچ کے راستے جس طرح بند کیے گئے ماضی میں اس حماقت کی مثال نہیں ملتی۔ عمران خان کے مارچ پر اس قدر سختی نہ تھی جتنی کہ طاہر القادری کے مارچ پر  تھی کہ ماڈل ٹاؤن بالکل جیل خانہ بن گیا تھا محض اس لیے کہ عمران خان بھی اس جمہوری ریل کا حصہ ہیں۔

جاوید ہاشمی نے مارچ میں دیر یوں کی کہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ مارچ کریں گے تو ریل سے باہر رہ جائیں گے مگر جب انھیں جلد یقین ہوگیا کہ وہ انقلابی تبدیلی نہیں بلکہ ری الیکشن کی باتیں کر رہے ہیں تو وہ مارچ کے لیے چل پڑے مگر طاہر القادری پاکستان کے دستور کی ہر شق پر عمل درآمد کرانے نکلے ہیں تو پھر ان پر سختیاں کی جا رہی ہیں۔ اسی لیے بعض لوگ ان کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دے رہے ہیں مگر جو لوگ این آر او کی چھتری کے نیچے سے نکلے ہیں وہ کیا ملکی لوگ تھے؟ لہٰذا یہ کہنا کہ کون غیر ملکی ایجنڈے پر کام کر رہا ہے بے معنی ہے کیونکہ اب حکومتی سطح پر کرپشن کی آواز کھل کر آ رہی ہے۔ اگر طاہر القادری خالی ہاتھ آئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔