(کھیل کود) - سرفراز آئندہ یہ غلطی مت کرنا!

سلیم ناصر  بدھ 20 اگست 2014
عاصم کمال ہوں، فواد عالم یا کوئی اور کھلاڑی۔ مگر جب جب نوجوان کھلاڑیوں نے اچھی کارکردگی دکھائی ہے اُسے ٹیم سے فارغ کردیا گیا تو کہیں سرفراز کے ساتھ بھی اب ایسا ہی تو نہیں ہوگا؟۔ فوٹو: اے ایف پی

عاصم کمال ہوں، فواد عالم یا کوئی اور کھلاڑی۔ مگر جب جب نوجوان کھلاڑیوں نے اچھی کارکردگی دکھائی ہے اُسے ٹیم سے فارغ کردیا گیا تو کہیں سرفراز کے ساتھ بھی اب ایسا ہی تو نہیں ہوگا؟۔ فوٹو: اے ایف پی

محو حیرت ہوں کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں نئے آنے والے کھلاڑی بہترین پرفارمنس کے با وجود ٹیم میں اپنی جگہ برقرار کیوں نہیں رکھ پاتے۔

یہ مسئلہ صرف پاکستانی وکٹ کیپر بلے باز سرفراز احمد کو درپیش نہیں بلکہ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں جگہ بنانے والے کئی نوجوانوں کو درپیش ہے۔ ماضی میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا حصہ بننے والے عاصم کمال جس نے اپنے کیریئر کے پہلے میچ میں پاکستان کے لیے 99 رنز کی شاندار اننگز کھیل مگر مدقسمتی سے 100 رنز مکمل کرنے میں ناکام رہے تاہم اس کے بعد اِس نوجوان کھلاڑی  کو ٹیم سے اسطرح دور رکھا گیا جیسے بچوں کی پہنچ سے دوائی کو دور رکھا جاتی ہے۔

اسی طرح پاکستانی ٹیم کے فاسٹ بولر شبیر احمد کو بھی بہترین پرفامنس دینے کے باوجود ٹیم سے دور رکھا گیا یہ تو بھلا ہو آئی سی سی کا جنھوں نے ان کے بولنگ ایکشن کو متنازعہ قرار دے کر پاکستانی انتظامیہ کو ان کو ٹیم سے دور رکھنے کی مشقت سے دور رکھا ،اگر آئی سی سی فاسٹ بولر شبیر احمد کی بولنگ کو متنازعہ قرار نہیں بھی دیتے تو بھی انتظامیہ اس کو ٹیم سے باہر رکھنے کا فیصلہ کرہی لیا تھا۔ بات کی جائے  اگر نوجوان فواد عالم کی تو یہ دنیا کے اُن گنے چنے کھلاڑی میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی ٹیسٹ ڈیبیو میں ہی 150 زنز سے زیادہ اسکور کیا ہو۔ اُنہوں نے ٹیم کی اننگز کا آغاز کرتے ہوئے 168 رنز بنائے اور ٹیم مینجمنٹ کی طرف سے اچھے اوپنر کی تلاش جیسے مشکل کام کو بھی آسان بنادیا۔ مگر پھر، مگر پھر ہوا کیا؟ وہی جو ہر اچھی پرفارمنس دینے والے کھلاڑیوں کے ساتھ ہوتا ہے یعنی ٹیم سے نکال دیے گئے۔ یہ محض 3 کھلاڑیوں کا معاملہ نہیں بلکہ اگر سب کا ذکر کیا جائے تو بات بہت طویل ہوجائے گی۔

اگر ہم سرفراز احمد کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو انھوں نے 2006 میں بہترین کارکردگی کے بدولت  انڈر 19 ورلڈ کپ پاکستان کے نام کیا تھا۔ 2007میں 27 سالہ سرفراز احمد کو قومی کرکٹ ٹیم میں اس وقت جگہ ملی جب پاکستانی وکٹ کیپربلے باز کامران اکمل انجری کا شکار ہوئے،لیکن اس دوران سرفراز احمد کو اپنا لوہا منوانے کے لیے موقع نہیں مل سکا پھر جب 2012 کے ایشاء کپ میں ان کو موقع ملا تو 46 رنز کے ساتھ ٹیم کے ٹاپ اسکورر رہے اور پاکستان یہ میچ 2 رنز سے جیتنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

سرفراز احمد کی حالیہ کارکردگی آپ کے سامنے ہے، سری لنکا کے خلاف بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کولمبو کے مقام پر انھوں نے سینچری اسکور کی۔ یہ صرف سینچری نہیں بلکہ چار اننگرز میں 1 سینچری اور 3 نصف سینچریاں بھی اسکور کیں۔  اگر چہ مجھے سرفراز احمد کی کارکردگی کو دیکھ کر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا چاہیے تھا مگر  ماضی کے تجربات  دیکھ کر ناجانے کیوں پریشانی اور خوف کا شکار ہوں کہ سرفراز احمد نے اچھی کارکردگی دکھا کر خود کے لیے ٹیم میں جگہ بنانا انتہائی مشکل کردیا ہے ۔ اب دیکھتے ہیں کہ اُن کا کیا مستقبل بنتا ہے لیکن جاتے جاتے اُن کو مشورہ تو یہی ہے کہ چلیں اِس بار تو غلطی ہوگئی مگر آئندہ ایسی غلطی کرتے وقت دس بار سوچیے گا ورنہ اپنی چُھٹی کو یقینی سمجھیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔