شہر قائد کی فضا مسموم، پانی زہریلا، جائیں تو جائیں کہاں؟

عبداللطیف ابو شامل  جمعرات 21 اگست 2014
محکمۂ صحت فوری حرکت میں نہیں آیا تو ہلاکتوں کا اندیشہ ہے ۔  فوٹو : فائل

محکمۂ صحت فوری حرکت میں نہیں آیا تو ہلاکتوں کا اندیشہ ہے ۔ فوٹو : فائل

شہر قائد کے باسیوں کی زندگی ہمیشہ سے اجیرن رہی ہے۔

یہ شہر جسے شاید کبھی’’ روشنیوں کا شہر بے مثال‘‘ کہا جاتا ہوگا بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس کے باسی سسک رہے اور ہر پل مر رہے ہیں۔ اس موت سے بدتر زندگی میں بھی وہ وطن عزیز کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کا بار اٹھائے ہوئے ہیں۔ بلدیاتی مسائل، امن و امان کی انتہائی مخدوش صورت حال کا عذاب سہتے شہریوں کے لیے ایک اور روح فرسا خبر منظر عام پر آگئی ہے۔

پاکستان کونسل برائے سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ سینٹر کے ماہرین نے اپنی ایک تحقیق کے بعد انکشاف کیا ہے کہ کراچی کے بعض علاقوں کی فضا میں لیڈ اور کیڈمیئم جیسی دھاتوں کی مقدار، بیجنگ اور نئی دہلی سے بھی زیادہ ہے۔ وزارت برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے تحت قائم ادارے پاکستان کونسل فار سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کے سینٹر فار انوائرمینٹل اسٹڈیز کی طرف سے کراچی میں فضائی آلودگی کی سطح جانچنے کے لیے حال ہی میں ایک مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ شہر کی فضا میں سیسہ یا لیڈ اور کیڈمیئم جیسی مضر صحت دھاتوں کے انتہائی باریک ذرات کی مقدار، عالمی ادارہ برائے صحت اور امریکی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات کے مقرر کردہ معیار سے کہیں زیادہ ہے۔

اس مطالعے کی مصنفہ اور کونسل کی سینئر سائنٹیفک آفیسر دردانہ رئیس ہاشمی کے مطابق اس مطالعہ کے لیے کراچی کے 108 مختلف علاقوں سے نمونے اکھٹے کیے گئے۔ ان میں 54 نمونے کمرشل علاقوں، 36 رہائشی، 14 صنعتی اور چار کم آبادی والے علاقوں سے حاصل کیے گئے۔ یہ نمونے فضا میں خارج ہونے والی گیسوں اور مائع مادوں پر مشتمل تھے۔ دردانہ رئیس کا کہنا ہے ’’ہم نے شہر کے مختلف علاقوں میں فضائی آلودگی کا درجہ معلوم کیا ہے۔

ان نتائج کو ہم نے مختلف زونز میں تقسیم کیا ہے مثلاً رہائشی علاقوں میں، صنعتی علاقوں میں اور کمرشل علاقوں میں فضائی آلودگی کا درجہ کتنا ہے اور بیک گراؤنڈ علاقے میں کس قدر فضائی آلودگی ہے۔ بیک گراؤنڈ ہم ایسے علاقے کو کہتے ہیں جہاں آبادی بھی بہت کم ہے اور ٹریفک وغیرہ بھی۔ اس تحقیق کے نتائج کا ہم نے عالمی ادارہ صحت اور یونائیٹڈ اسٹیٹس کی انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجینسی کی گائیڈ لائنز کے ساتھ موازنہ کیا ہے۔

نئی دہلی کے رہائشی علاقوں میں کیڈمیئم کے ذرات کی مقدار 0.01 سے 0.02 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تک ہے۔ دردانہ رئیس کے مطابق اس اسٹڈی میں مختلف علاقوں کی فضا میں 10 مائیکرو میٹر سائز کے انتہائی چھوٹے ذرات کی مقدار معلوم کی گئی۔ ان ذرات کو PM10 کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 10 مائیکرو میٹر یا اس سے چھوٹے ذرات سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہو کر صحت سے متعلق مسائل پیدا کرتے ہیں۔

سینٹر فار انوائرمینٹل اسٹڈیز کے مطالعے کے مطابق ان PM10 میں لیڈ یا سیسے کے ذرات کی مقدار 1.163 مائیکرو گرام فی مکعب میٹر پائی گئی۔ جب کہ عالمی ادارہ صحت کیے مطابق یہ مقدار 0.005 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تک ہونی چاہیے۔ اسی طرح کیڈمیئم کی مقدار 0.008 مائیکروگرام فی مکعب میٹر پائی گئی جبکہ محفوظ مقدار 0.005 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تک ہی ہے۔ دنیا میں فضائی آلودگی کے حوالے سے معروف دیگر شہروں کے ساتھ موازنہ بھی سنٹر فار انوائرمینٹل اسٹڈیز کی اس تازہ تحقیق میں کیا گیا ہے۔ اس موازنے کے مطابق نئی دہلی کے رہائشی علاقوں میں کیڈمیئم کے ذرات کی مقدار 0.01 سے 0.02 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تک ہے جبکہ لیڈ کے ذرات کی مقدار 0.27 سے 0.46 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تک ہے۔

چینی دارالحکومت بیجنگ میں کیڈمیئم کے ذرات کی مقدار 0.005 µg/m3 جبکہ لیڈ یا سیسے کے ذرات کی مقدار 0.33 µg/m3 تک ہے۔ شہر کی فضا میں لیڈ اور کیڈمیئم جیسے مادوں کی بڑی مقدار میں موجودگی کے باعث لوگوں میں صحت خصوصاً سانس سے متعلق بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں فضائی آلودگی کو دنیا میں صحتِ عامہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی کے باعث 2012ء میں دنیا بھر میں اندازاً 70 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ بیجنگ میں کیڈمیئم کے ذرات کی مقدار 0.005 µg/m3 جب کہ لیڈ یا سیسے کے ذرات کی مقدار 0.33 µg/m3 تک ہے۔ دردانہ رئیس کا کہنا تھا، سانس کے ذریعے کاربن مونو آکسائیڈ، لیڈ اور کیڈمیئم پھیپھڑوں میں جانے کی بدولت نہ صرف سانس اور پھیپھڑوں سے متعلق بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ آنکھوں اور دل کے امراض بھی عام ہوتے جا رہے ہیں۔ جب کہ اچانک ہونے والی اموات کے پیچھے کارفرما عوامل میں سے ایک اہم وجہ ہماری فضا میں خطرناک ذرات کی مقدار میں اضافہ ہی ہے۔ فضائی آلودگی میں اضافے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے دردانہ رئیس کا کہنا تھا: ’’کراچی میں گاڑیوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے فضائی آلودگی کا لیول بڑھ گیا ہے۔

کیڈمیئم گاڑیوں میں استعمال ہونے والی بیٹریوں میں بھی ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں چوںکہ پرانی بیٹریاں استعمال ہوتی ہیں تو ان کا پانی اکثر لیک ہوکر سڑکوں پر گِرتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے بالکل بھی احتیاط نہیں کی جاتی۔ اس کے علاوہ پرانی گاڑیوں اور ان کی نامناسب دیکھ بھال کے باعث فضا میں کاربن مونو آکسائیڈ بہت پھیل رہی ہے کیوںکہ ان کے انجنوں میں فیول جلنے کا عمل درست طور پر نہیں ہوتا۔‘‘ دردانہ رئیس کے مطابق فضائی آلودگی میں اضافے اور اس سے درپیش خطرات کے حوالے سے ایک قابل تشویش بات عوام میں اس حوالے سے شعور کا نہ ہونا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کراچی کی زیادہ تر آبادی کو نہ تو یہ معلوم ہے کہ فضائی آلودگی کے نقصانات کیا ہے اور نہ ہی یہ کہ اسے کم کرنے کے لیے وہ کس طرح اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی ایک اور خبر شہریوں کو افسردہ کیے ہوئے ہے کہ شہر قائد میں نگلیریا پھیلنے کا خدشہ بدستور موجود ہے۔ انسداد نگلیریا کمیٹی نے شہر بھر سے2094 پانی کے نمونے حاصل کیے ان میں سے 1473 نمونوں میں کلورین کی مطلوبہ مقدار شامل نہیں تھی۔ یکم مئی سے یکم اگست کے دوران محکمہ صحت اور ادارہ فراہمی و نکاسی آب ماہرین پر مشتمل مشترکہ انسداد نگلیریا کمیٹی کے ماہرین نے 2094 پانی کے نمونے حاصل کیے تھے، انسداد نگلیریا کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پانی کی کیمیائی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق مختلف علاقوں میں قائم واٹر بورڈ کے 108 پمپنگ ہاؤس میں بھی کلورین کی مطلوبہ مقدار شامل نہیں کی جارہی ہے۔

مشترکہ کمیٹی کو لیاقت آباد سے 87، سائٹ سے 78، نارتھ کراچی 77، ملیر سے 75، گلشن اقبال کے 41 پانی کے نمونوں کے کیمیائی تجزیے کے بعد معلوم ہوا کہ ان علاقوں میں شہریوں کو فراہم کیے جانے والے پانی میں کلورین کی مقدار انتہائی کم پائی گئی۔ جب کہ بعض علاقوں میں کلورین نہ ہونے کے برابر تھی، ماہرین طب نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ شہریوں کو فراہم کیے جانے والے پانی میں کلورین شامل نہ کرنے سے نگلیریا کا مرض شدت اختیار کرسکتا ہے۔

محکمہ صحت اور واٹر بورڈ حکام پانی میں نگلیریا کے جرثومے کے خاتمے کے لیے کلورین کی مطلوبہ مقدار کو یقینی بنائیں بصورت دیگر یہ مرض شدت اختیار کرسکتا ہے۔ نگلیریا کا جرثومہ صاف پانی میں نشوونما پاتا ہے اور ناک کے ذریعے پانی دماغ تک پہنچنے کے بعد متاثرہ فرد کو موت کی نیند سلا دیتا ہے۔ کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں نگلیریا کی تشخیص کی کوئی سہولت میسر نہیں۔ رواں سال کے دوران نگلیریا جرثومے سے 6 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق کراچی کے مختلف علاقوں گڈاپ ٹاؤن، گلشن اقبال اور بلدیہ ٹاؤن کے سیوریج کے پانی میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوگئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کی جانب سے حاصل کیے گیے سیوریج کے پانی کے ان نمونوں کے کیمیائی تجزیے کے دوران انکشاف ہوا کہ کراچی کے ان تینوں ٹاؤنز کے سیوریج کے پانی میں پولیو وائرس موجود ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں امسال مجموعی طورپرحاصل کردہ 77 فی صد نمونوں میں وائرس کاانکشاف ہوا ہے۔

تفصیلات کے مطابق کراچی عالمی ادارۂ صحت کے ماہرین نے کراچی کے گڈاپ ٹاؤن کے مختلف علاقوں سے گزرنے والے سیوریج کے نالوں سے 18 نمونے حاصل کیے تھے جب کہ گلشن اقبال کے سیوریج کے پانی سے 13 اور بلدیہ سے 13 نمونے حاصل کیے گیے۔ سیوریج کے پانی کے کیمیائی تجزیے کے دوران گڈاپ کے علاقوں سے حاصل کیے جانے والے نمونوں میں سے 10 میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوگئی ہے۔ گلشن اقبال کے 13 میں سے 10 سیوریج کے پانی کے نمونوں اوربلدیہ کے 6 نمونوں میں بھی پولیووائرس کی تصدیق کی گئی ہے۔

سیوریج کے پانی میں پولیو وائرس تیزی سے بڑھ رہا ہے جس پر ماہرین طب نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں پولیو وائرس کا خطرہ بدستور موجود ہے جو کسی بھی وقت اپنے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔ محکمۂ صحت ہفتے میں 2 روز انسداد پولیو مہم شروع کرے تاکہ تیزی سے پھیلنے والے پولیو وائر پر قابو پایا جاسکے جبکہ اس سلسلے میں غفلت برتنے والے محکمہ صحت کے افسران کے خلاف بھی سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔