ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

شہلا اعجاز  جمعرات 21 اگست 2014
shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

اسرائیل کی فلسطین پر جنگی مہم جوئی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، اس تمام عمل میں جانے والی قیمتی انسانی جانوں پر دنیائے عالم صرف چپ چاپ آنسو بہا رہی ہے، اگر صرف ایک فلم پر اسرائیل کی فلسطین پر جنگی شرارتوں کو اور دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کو دیکھا جائے تو اسرائیل ایک بڑے شیطانی دہشت گرد کے روپ میں واضح طور پر نظر آتا ہے، ایک ایسا دہشت گرد جو کھلے عام ڈنکے کی چوٹ پر اپنی دلی تمنائیں پوری کر رہا ہے، اقوام متحدہ کے متحد ہونے اور بکھر جانے سے اس کی حرکتوں پر قطعاً فرق نہیں پڑتا۔

ایک طویل عرصے سے امریکا کی پاکستان کے غریب علاقوں پر دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے ڈرون حملوں کی کارروائیاں اسرائیل کی جنگی شرارتوں کے سامنے کیا جواز رکھتی ہیں، انسانی عقل حیران ہے ایک دنیا پریشان ہے لیکن کون ہے جو اس دادا گیری کو روک سکے۔

صرف ایک نظر میں دنیا بھر میں اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف اٹھنے والے احتجاجی مظاہروں کو دیکھا جائے تو ایک دلچسپ صورتحال ابھرتی ہے یعنی حکومتوں اور عوام کے درمیان ذہنی دراڑ سی نظر آتی ہے یعنی عوامی حلقوں میں فلسطین کے مظلوم عوام کے لیے ہمدردی، اتحاد اور یگانگت ہے جب کہ بہت سے بڑے ہاتھیوں کی حکومتیں اپنی سونڈوں کو ایک ہی سمت میں ہلا رہی ہیں اسرائیل نوازی کی یہ مہم دنیا بھر میں کیا پیغام دے رہی ہے آیندہ آنے والے چند برسوں میں یہ بھی واضح ہو جائے گا۔

پچھلی صدی میں اس باب کی تاریخ میں کیا ہوا۔ صیہونیت کو عالمی طور پر پروان چڑھانے کے لیے انگلستان، جرمنی، امریکا اور فرانس نے بہت کام کیے۔ اس وقت ان کی نظروں میں امت اسلامیہ کا مضبوط کنٹرول ٹارگٹ تھا جس کے لیے بیج بوئے گئے۔ عرب ممالک میں یہودی ایجنڈے کو پھلنے پھولنے کے لیے حمایتیں وعدے اور ریاضتیں کی گئیں اور ایک اہم معاہدہ بالفور 1917ء کی رو سے اتنا مضبوط بنا دیا گیا کہ عرب خطے پر اسرائیلی طرز کی حکومت کا ایک پلان کھڑا کر دیا گیا۔

اس پہلی کامیابی کے بعد عہد خلافت کو نشانہ بنایا گیا برسوں سے عربی زبان کی ترکی میں کیا اہمیت تھی آج بھی اس دور کی عربی میں تحریر کردہ قیمتی کتابیں کسی دور پار کے کتب خانے میں کہیں پڑی ہوں لیکن جس پائے کا علم اس ترکی اور عربی زبان کے جھگڑے اور فتنے کی نظر ہوا اس سے مسلم ممالک کی ترقی سو برس پیچھے چلی گئی۔ سلطان عبدالحمید کے دور میں یہ فتنہ فساد اتنا ابھرا کہ کشتی ملاحوں کے بنا ڈولنے لگی لیکن اس آوارہ کمزور کشتی کے وجود سے ان طاقتوں کے وجود کو تقویت ملی جو اب اسرائیل کے جھنڈے تلے سانس لے رہے ہیں۔

جرمنی کا ہٹلر یہودیوں کے قتل عام کے حوالے سے تاریخ میں ایک مقام رکھتا ہے کہا جاتا ہے کہ وہ خود صیہونی تھا لیکن جب اسے اصل حقیقت کا علم ہوا تو وہ پھٹ پڑا اور اگر ہٹلر ان یہودیوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ کرتا اور یہودی دنیا پر اپنی دولت اور طاقت کے بل پر قابض ہو جاتے تو جو آج بڑے بڑے مغربی ملک جو اسرائیل نوازی کا دم بھرتے ہیں بھیانک انجام کا شکار ہوتے لیکن اس وقت پوری دنیا میں ہٹلر ایک جابر اور ڈکٹیٹر کے طور پر جانا گیا اور یہودی قوم ایک مظلوم قوم کے طور پر ابھری۔

یہ بھی درست ہے کہ عام یہودی قوم ہی دراصل اصل جبر و ظلم کا نشانہ بنی لیکن عالمی طور پر اعلیٰ رتبوں پر ہونے والی سازشوں کا جال اتنا مضبوط تھا کہ یہ ہلاکتیں آیندہ آنے والے برسوں میں یہودیوں کے لیے ایک ایسا صحت افزا پیغام لائیں جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے ایک بڑا خطہ اسرائیل کے پرچم تلے ہے، اسرائیل ایک مضبوط امیر ملک ہے دنیا بھر میں ہونے والی انوسٹمنٹ میں یہود قوم سب سے آگے ہے۔

ہٹلر کا کہنا تھا کہ وہ پوری یہود قوم کو غرق کر دینا چاہتا ہے اور جو بچے کھچے یہودی ہیں آنے والی نسلوں کو خود علم ہو جائے گا کہ اس نے اس قوم کے ساتھ ایسا کیوں کیا تھا۔ گویا اسے اس بات کا ادراک تھا کہ ایک بڑی تعداد کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے باوجود بھی جو زہر اب بھی دنیا میں بچ گیا ہے آنے والے وقتوں میں وہ کتنا بڑا ناسور بن کر دنیا میں تباہی پھیلائے گا۔

یہودی اہل یورپ اور اہل امریکا کو کسی خاطر میں نہیں لاتے لیکن اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے ان کا استعمال کرتے ہیں، اقوام متحدہ نے فلسطینیوں کا بے بہا خون بہانے کے بعد بڑی دقتوں سے اسرائیل کو سرزنش کرنے کی کوشش تو کی تھی اس کوشش کے پیچھے مختلف بڑی طاقتوں کی وہ سادہ لوح عوام تھے جو دنیا میں خوں ریزی کے خلاف ہیں اور اسی عوام کی حمایت حاصل کر کے ہی وزارتوں کی کرسیوں پر چمکتے چہرے سجتے ہیں لیکن ان کی کتنی سنی جاتی ہے۔

بس اتنا ہی کہ خود پر بھروسہ کر کے عوام نے اسرائیل کی منڈیوں میں بننے والی اشیا کا بائیکاٹ کیا۔ بہت سے دل جلوں نے ان کی بڑی بڑی انوسٹمنٹ کمپنیوں سے اپنا سرمایہ نکالا، کسی نے کہا کہ آیندہ اسرائیل ہماری فوج نہیں جائے گی تو کسی نے کئی اشیا کی درآمدگی پر پابندی لگا دی، لیکن ابھی تک دنیا بھر کی بڑی طاقتیں اس بات پر متفق نہیں ہوئیں کہ انھیں اسرائیل کی اس جنگی دہشت گردی کے خلاف متحد ہو کر کسی بڑے فیصلے کا اعلان کرنا چاہیے۔

ہم نے یہی سنا اور پڑھا ہے کہ ہٹلر یہودیوں کا دشمن تھا وہ خطہ ارض سے اس قوم کا صفایا کر دینا چاہتا تھا لیکن آخر وہ ایسا کیوں چاہتا تھا، اشتراکیت اور صیہونیت کے بیچ ایسا کیا مختلف تھا جس نے ابھی تک ایسے پردے ڈالے ہوئے ہیں کہ آج بھی بہت سے ممالک میں بہت سے لوگ اس طرح کام کر رہے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ وہ دراصل کس کے لیے کام کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں کیونکہ انھوں نے ایک مشن کو مکمل کرنا ہے اس مشن سے اور کتنے مشن جڑے ہیں ان کی زنجیر کس سے جا کر ملتی ہے۔

کتنے ممالک میں مبتدی، کارکن، استاد اور کامریڈ ہیں یہ سب کھلے دل سے اشتراکیت کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن اس اشتراکیت اور صیہونیت کے درمیان کون سے خفیہ روابط ہیں، لیکن بڑے بڑے ممالک کی حمایتیں، یقینی ضمانتیں دراصل کھلے راستے کی جانب راغب کرتا ہے لیکن اس کھلے راستے پر بیچ راستے خود ان ممالک کے لیے کیا کچھ بن رہے ہیں، اگر وہ جان جائیں تو نجانے کتنے ہٹلر پیدا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔