چیئرمین صاحب ذرا سنبھل کر

سلیم خالق  جمعـء 22 اگست 2014
skhaliq@express.com.pk

[email protected]

طویل قانونی جنگ کے بعد پی سی بی کو آخرکار ’’منتخب‘‘ چیئرمین مل ہی گیا، ماضی میں بورڈ کے سرپرست اعلیٰ اس کا انتخاب کرتے تھے، اب بھی ایسا ہی ہوا مگر الیکشن کی رسمی مہر بھی ثبت کر دی گئی،حکومت کی جانب سے گورننگ بورڈ میں شامل نجم سیٹھی دوبارہ سربراہی سے انکار کر چکے تھے۔

ایسے میں یہ بات یقینی تھی کہ دوسرے رکن شہریار خان ہی اس منصب کو سنبھالیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا،ان کے مقابل آنے کی کسی نے کوشش بھی نہ کی، وہ ماضی میں بھی بورڈ چیف رہ چکے،اس وقت پلیئرز پاور کے سامنے ڈٹ کر کھڑے نہیں ہو پائے تھے، 80 برس کی عمر میں انسان جب گھر پر پوتے پوتیوں کے ساتھ وقت گذارنے کو ترجیح دیتا ہے تو انھوں نے ملکی کرکٹ کو سدھارنے کا نیا چیلنج قبول کر لیا ہے،اس بار ان کی راہ میں کئی کانٹے بھی موجود ہیں، ٹیم کی کارکردگی معیاری نہیں جبکہ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ بھی نہیں ہو رہی۔

ایسے میں ان کیلیے اپنے عہدے سے انصاف کرنا اتنا آسان نہ ہو گا، ماضی میں جب شہریار خان چیئرمین بنے تو اس وقت الیکٹرونک میڈیا کا دور شروع ہوا ہی تھا، اب اس نے جان پکڑ لی ہے، معمولی سی بات بھی بریکنگ نیوز بن جاتی ہے، نجم سیٹھی پورے دور میں میڈیا کی زبردست تنقید کا نشانہ بنے، اب شہریار خان کو بھی یہ محاذ سنبھالنا ہو گا، انھیں ایسے فیصلے کرنے چاہئیں کہ کسی کو ان پر انگلی اٹھانے کا موقع ہی نہ مل پائے۔

نئے چیئرمین نے آتے ہی پہلا اعلان مصباح الحق کو کپتان برقرار رکھنے کا کیا، وہ ان سے آدھی عمر 40 سال کے ہو چکے، ان کی حالیہ کارکردگی بھی خاص نہیں، سری لنکا کیخلاف دونوں ٹیسٹ میں قومی ٹیم کو بدترین شکستوں کا سامنا کرنا پڑا، رینکنگ میں تیسری پوزیشن بھی چھن گئی،ایسے میں شہریار خان یہ کہتے کہ ’’مصباح کی پوزیشن کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں، البتہ ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا رہے گا‘‘ تو یہ زیادہ مناسب رہتا،اگر وہ سابق چیئرمین کے تمام فیصلے برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو انہی کو عہدے پر رہنے دیتے، تبدیلی کا مطلب نئی سوچ ہوتا ہے۔

شہریار کو بھی یہ بات مدنظر رکھنا ہوگی، بھارتی ٹیم انگلینڈ میں بدترین انداز سے ہاری، انھوں نے سیریز کے درمیان میں ہی کوچ ڈنکن فلیچر کو سائیڈ لائن کر کے کمنٹری کیلیے وہاں موجود روی شاستری کو ٹیم کا انچارج بنا دیا،یہ ایک بولڈ فیصلہ تھا، ممکن ہے اس سے بھی کوئی فائدہ نہ ہو لیکن کم از کم بی سی سی آئی نے یہ تو بتایا کہ وہ بھی صورتحال پر تشویش کا شکار ہے، میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ پاکستان بھی فوراً کوچ کو تبدیل کر دے مگر کم از کم 10 رکنی بھاری بھرکم مینجمنٹ سے چند غیر ضروری افراد کو واپس بلا کر وہ اپنے مضبوط چیئرمین ہونے کا ثبوت تو دے سکتے تھے۔

ماضی میں شہریار خان کے دور میں ہی انضمام الحق نے اپنی اناپسندی کے چکر میں ملک کا نام خراب کیا، اوول ٹیسٹ ہماری کرکٹ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا، اسی طرح یونس خان نے ملاقات کیلیے انتظار کرانے کی معمولی بات پر کپتانی چھوڑ دی تھی، شہریار خان کو اب ان باتوں سے سبق سیکھنا ہوگا، انھیں پلیئرز کو زیادہ ڈھیل نہیں دینی چاہیے ورنہ پھر پہلے جیسے تنازعات سامنے آ سکتے ہیں۔

گذشتہ دنوں پی سی بی کے ڈائریکٹرز کا اجلاس منعقد ہوا، اس کی تصویر دیکھ کر ہنسی بھی آئی، وہی لوگ جو شہریار خان کی پہلی اننگز میں بھی ساتھ موجود تھے اب بھی شان سے بیٹھے دکھائی دیے، ذاکر خان، ہارون رشید اور انتخاب عالم کی ایسی کیا قابلیت ہے کہ انھیں کوئی نہیں ہلا سکتا، بورڈ ویسے ہی کئی مسائل کا شکار ہے، شہریار خان کو ایسے آفیشلز کو گھر بھیج کر اعلیٰ تعلیم یافتہ نئے افراد کا تقرر کرنا چاہیے، شاید اس سے کوئی بہتری آ جائے ورنہ صورتحال جوں کی توں ہی رہے گی۔

گذشتہ دور میں شہریار خان نے میڈیا ڈپارٹمنٹ اپنے قریبی دوست عباس زیدی کے سپرد کیا ہوا تھا،ان کی خوش قسمتی ہے کہ اب بھی یہاں امجد بھٹی جیسے قابل افسر موجود ہیں،ان کی مدد کیلیے آغا اکبر اور رضا راشد بھی ساتھ ہیں، جس طرح اس شعبے میں بورڈ کے پاس ایک اچھی ٹیم ہے دیگر شعبوں میں بھی ماہر افراد کا تقرر کرنا چاہیے، انتہائی قابل اور محنتی سی او او سبحان احمد کی معاونت سے شہریارخان اس بار کچھ ایسے کام کر جائیں کہ انھیں اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے، ڈاؤن سائزنگ کے نام پر پی سی بی سے چھوٹے ملازمین کو نکالنے کے بجائے سفید ہاتھیوں کا صفایا کیا جائے، شہریار خان کو حکومت کی مکمل سپورٹ حاصل ہے، وہ منتخب چیئرمین بنے ہیں۔

ایسے میں انھیں کسی سے ڈرنا نہیں چاہیے، اسی طرح ورلڈکپ قریب ہے، موجودہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ پاکستانی ٹیم کوئی غیرمعمولی کارنامہ انجام دے گی، لہذا چیئرمین کو چند ہنگامی اقدامات کرنے ہوں گے شاید ان سے کوئی بہتری آ جائے، بصورت دیگر میگا ایونٹ میں شکست کے بعد آنے والا طوفان مضبوط سے مضبوط کرسی کو بھی ہلا دیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔