خواتین کارکن اور صنفی امتیاز…

زبیر نذیر خان  جمعـء 22 اگست 2014

کسی بھی معاشرے کے استحکام اور اسے مضبوط تر بنانے کے لیے بنیادی حقوق کی فراہمی انتہائی ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والا ہر شخص برابر ہے، ہم سب آزاد اور برابری کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں اور ہم سب کے ساتھ یکساں برتائو ہی کیا جانا چاہیے اور یہ کہ کسی میں کوئی فرق نہ رکھا جائے۔ یہ حقوق ہر شخص کو حاصل ہیں، چاہے ہم ایک دوسرے سے کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں، قانون کی نظر میں ہم سب برابر ہیں، قانون سب کے لیے ایک جیسا ہے، اسے ہم سب کے ساتھ منصفانہ رویہ رکھنا چاہیے۔

قدرت نے بھی سب کو یکساں جواہر سے نوازا ہے، چنانچہ جنس کی بنیاد پر تعصب برتنے کے بجائے مرد اور عورت کو یکساں طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ انسانی حقوق کے عالمی قانون کے تحت مرد و زن کے لیے سماجی اور قانونی معاملات میں یکساں رویہ اختیار کرنے کا تحفظ موجود ہے لیکن بدقسمتی سے ہمیشہ  معاشرے میں صنفی مساوات سے اجتناب برتا جاتا ہے۔ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن یہ امر قابل افسوس ہے کہ آج کے جدید دور میں معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والی عورتوں سے جنس کی بنیاد پر دنیا بھر میں تعصب برتے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔

ترقی پذیر ملک ہونے کے ناتے پاکستان میں بھی خواتین آج کے مرد کے شانہ بشانہ جدوجہد میں برابر کی شریک ہیں۔ مختلف مسائل کے سبب معاشی مشکلات کا شکار معاشرے میں عورت گھر کی چار دیواری سے نکل کر ہر شعبہ ہائے زندگی میں آگے بڑھ کر اپنی ذمے داری ادا کرنے میں مصروف ہے، لیکن اسے صنفی بنیاد پر میدان عمل میں مسائل درپیش ہیں۔ کام کرنے کی بیشتر جگہوں پر خدمات سرانجام دینے والی خواتین کارکنان کو مختلف مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، ان کو مساوات، شراکت، برابری اور شمولیت اور سماجی انصاف کی عدم فراہمی صنفی مساوات کے اصول کے منافی ہے۔

مردوں کے مقابلے میں خواتین کارکنان کو زیادہ کرب اور مسائل سے گزرنا پڑتا ہے، اس حوالے سے سب سے اہم مسئلہ مردوں کے برابر کام کرنے کے باوجود ان کو مساوی طور پر معاوضہ نہ دیا جانا ہے جب کہ وہ اسی نوعیت کی ذمے داری مناسب طور پر سرانجام دے رہی ہوتی ہیں۔

ایک عالمی تحقیقاتی سروے کے مطابق نہ صرف ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی کام کرنے والی خواتین کو عدم صنفی مساوات کا سامنا درپیش ہے، ہم منصب مرد کے مقابلے میں خاتون کارکن کو کم تنخواہ دی جاتی ہے، اور ایک ہی کام پر یکساں معاوضے کے اصول کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے، بدقسمتی سے اس میں رنگ و نسل اور زبان کا تعصب بھی شامل ہوجاتا ہے جو انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ کی بھی منافی کرتا ہے۔

پاکستان میں خواتین کارکنان کے حقوق کے لیے کوشاں ہوم بیسڈ ویمن ورکرز فیڈریشن کی جنرل سیکریٹری زہرہ خان کا کہنا ہے کہ کام کرنے والی خواتین کے مسائل انتہائی گمبھیر ہیں، ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور امن و امان کی خراب صورتحال کے بعد غربت افلاس، بے روزگاری، معاشی تنگ دستی اور وسائل کی عدم دستیابی کے سبب کام کے لیے گھر سے نکلنے والی عورت ہی نہیں بلکہ گھر میں رہ کر باعزت طور پر روزی کمانے والی خاتون کو بھی جنس کی بنیاد پر بے تحاشا مسائل کا سامنا ہے تو دوسری جانب ملازمت کرنے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین بھی میدان عمل میں صنفی بنیاد پر مشکلات کا شکار ہیں۔

تجارتی و صنعتی اداروں، فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کارکنان کے لیے کم سے کم تنخواہ کے قانون پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا، جب کہ مختلف حیلے بہانوں سے ان کے معاوضہ میں کٹوتی کرلی جاتی ہے، احتجاج پر ملازمت سے برخواستگی کی دھمکی دی جاتی ہے۔

کام کرنے کی جگہ میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنا عام بات ہے، اس میں اعلیٰ افسر سے لے کر ادنیٰ ملازم بھی شامل ہوتا ہے، گھر سے نکل کر کام پر جانے والی عورت دوران سفر راستے میں مردوں کی گھورتی اور تعاقب کرتی نگاہوں کا سامنا کرتی ہے توادارہ میں پہنچ کر اسے ذومعنی اور فحش قسم کی فقرے بازی اور نامناسب اشارے کنایوں کی اذیت اٹھانی پڑتی ہے۔

عام طور پر گارمنٹس فیکٹریوں اور اداروں میں ملازمت کی فراہمی کے لیے نوجوان اور خوبصورت لڑکیوں کو ترجیح دی جاتی ہے، مالی تنگ دستی کا شکار عورتوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر درندہ صفت لوگ جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے سے بھی نہیں چوکتے،رات گئے تک خواتین کارکنان کو کام پر روکنا اور اوور ٹائم تو درکنار معقول معاوضے بھی ادا نہ کرنا معمول ہے۔

دوران کام کھانے کی سہولت کے لیے کینٹین کا فقدان ہے، بعض اداروں میں مشترکہ بیت الخلاء خواتین کارکنان کے لیے اذیت کا باعث بنتے ہیں، جب کہ اس بنیاد پر خاتون پر الزام عائد کرکے ملازمت سے برخواست کرنے کے بھی شواہد ملے ہیں،کام کے دوران ضروریات کے لیے 2 سے 3 منٹ دیے جاتے ہیں جب کہ لنچ بریک میں تاخیر ہونے پر تنخواہ سے کٹوتی کی جاتی ہے۔

حاملہ ہونے کی صورت میں خاتون کارکن کو سہولیات فراہم کرنا تو بہت دور کی بات ہے جب کہ اس پر ملازمت سے برخواستگی کی تلوار لٹک جاتی ہے، جنسی ہراساں کیے جانے کے حوالے سے ایکٹ بن جانے کے باوجود بدقسمتی سے اس پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔

حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی خاتون کارکنان پر دہشت گردی کا مقدمہ تک درج کیا گیا ہے، قانونی حق طلب کرنے کے لیے عدالتی چارہ جوئی کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکر کو مقدمہ واپس نہ لینے پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جب کہ بعد ازاں پولیس نے معاملہ میں جانب داری برتنے کا اقرار بھی کیا، بروقت تنخواہ طلب کرنے پر فائیو اسٹار ہوٹل کی ملازمہ کو کمرے میں بند کرکے ہراساں کیا گیا جب کہ ایک بینک افسر نے ماتحت ملازمہ خاتون کا جعلی نکاح تیار کرکے اسے بیوی بننے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔

جنس کی بنیاد پر خواتین کارکنان کے ساتھ ناانصافی یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ایک واقعے میں کلائنٹ کی جانب سے مسلسل تنگ کرنے کی شکایت پر بینک ملازمہ کو نوکری سے الگ کرنے کی دھمکی دے کر خاموش رہنے کی تلقین کی گئی۔ پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے مرکزی رہنما ایوب قریشی کا کہنا ہے کہ خواتین کارکنان کے ساتھ جنس کی بنیاد پر عدم صنفی مساوات درست نہیں، ان عوامل کی بنیادی وجہ یونین سازی کا نہ ہونا ہے، تعلیم کا فقدان اور مالی بدحالی کا شکار خواتین کارکنان اپنے حقوق سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ جبری مشقت پر بھی مجبور ہیں۔

سوشل سیکیورٹی، مستقل ملازمت کی ضمانت نہ ہونا اور ٹھیکے داری نظام پورے معاشرے کی تباہی کا سبب بن رہا ہے، اس حوالے سے ریاست کو اپنی ذمے داری ادا کرنے کی ضرورت ہے، کام کرنے والے کے حقوق، کام کے بدلے مناسب معاوضہ اور کسی بھی مزدور یونین میں شمولیت خاتون کارکن کا بھی حق ہے، اگر ان حقوق کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے تو ہمارا معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔