تحریک پاکستان میں اہل دانش کا کردار…

رضوان گورایا  جمعـء 22 اگست 2014

“Dimension plays basic role in science”

مکاں، زماں کے باہمی تعلق سے آئن اسٹائن نے ایک نئی تھیوری متعارف کروائی۔ یہ وہی Space-Time ہے جو مادے کی موجودگی کے باعث خم (Curve) ہوکر کشش ثقل کو پیدا و کل کائناتی اجسام کی حرکات کا سبب ہے۔ آج وطن عزیز انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے حقیقتاً اس سیاسی نام نہاد دور کا آغاز تو قیام پاکستان کے بعد ہی شروع ہوچکا تھا اور آج تک ہم زندہ قوم اس نازک دور کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں دلچسپ! زندہ قوم کو جشن آزادی بہت مبارک ہو بغیر حقیقی مکمل ’’معاشی آزادی کہ‘‘ ؟

According to my observation “As dimension plays central role in science, like matter curve space-time generate gravity and moves entire universe .general theory of relativity] In Pakistan from 1947-2014 “The Curvature of democracy – dictatorship” due to some people’s self interests absolutely destroy our national dignity, identity in the world”

وطن عزیز کے قیام کے بعد بدقسمتی سے اس جمہوریت، آمریت کے خم نے آج حالات اس سمت موڑ دیے ہیں کہ 67 سال کے باوجود ہمارا پیارا ملک ’’غیر یقینی صورتحال‘‘ سے دوچار ہے! تحریک پاکستان درحقیقت ایک عظیم تاریخی کامیاب سیاسی و سماجی تحریک تھی جس کا بنیادی مقصد برطانوی سامراج سے جدوجہد و تحریک چلا کر ایک آزاد مملکت کا قیام تھا۔ ایک ایسا ملک جہاں تمام مسلمانوں کو اپنی مذہبی و معاشی آزادی و پہچان ملے۔ اس تحریک کا آغاز عالمگیر سے شروع ہونے والی اہل دانش کی ایک “Literacy Movement” سے ہوا۔

سرسید احمد خان جیسے عظیم ماہر تعلیم و عالم (ادیب) اس کی رہنمائی کر رہے تھے۔ تحریک پاکستان کے جب Historical Pages ہم کھولتے ہیں تب ایسٹ انڈیا نامی کمپنی کے مقاصد و داستان جبر سے پردہ اٹھتا ہے۔ اس سامراجی و فرنگی غیر فطری و انسانی کمپنی کا قیام 1600 میں ہوا اور اس کے ناپاک قدم بادشاہ ہند جہانگیر کی کم عقلی وعلمی کی بدولت سرزمین ہندوستان پر برملا جمے! مغلیہ دور کے زوال کے فوراً بعد برطانیہ نے 1700 میں ہند کا مکمل نظام سنبھال لیا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے معاشی، سیاسی، سماجی و فوجی دباؤ نے مغل بادشاہ کے اختیارات کو انتہائی محدود کردیا تھا۔ برطانوی سرکار نے پھر کل برصغیرکی بیوروکریسی، اسٹیٹ، مشنری، اسکول اور یونیورسٹیوں کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا۔ لارڈ میکالےLord Macaulay کی شدت پسند جبری اصلاحات نے زبردستی درس گاہ میں انگریزی زبان کو رائج کرتے ہوئے اپنے برطانوی نظریے و فلسفے اور تاریخ پر مبنی تعلیمی نظام کو درسی دستور میں رائج و متعارف کروایا۔ مذہبی تعلیمات اور زبانوں کو درسگاہوں سے خارج کردیا گیا۔

1835 کو بالآخر انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا جوکہ آج بھی ہمارے دستور کا لازمی جزو ہے۔ مغل بادشاہوں کی بچی کچھی باقیات کا بھی صفایا و خاتمہ کردیا گیا۔ اس کے ردعمل کے باعث اکثر مسلم گھرانوں نے اپنے بچوں کو ایسی درسگاہوں میں پڑھنے سے روکا جہاں انگریزی زبان ہی درسی زبان تھی۔ اس کے برعکس ہندوؤں نے انگریزی نظام و زبان کے زیر اثر تعلیم حاصل کی اور جس کی بدولت سرکار میں کلیدی اسامیاں حاصل کیں۔ اسی دوران سرسید احمد خان نے برطانوی تعلیمی نظام کی اہمیت پر زور دیا انھوں نے مسلم سماج کو عملی سیاست میں حصہ لینے پر راغب کیا لیکن یہ جدید تعلیم کے بغیر ممکن نہ تھا۔

لہٰذا ان کے نزدیک مسلمان تب تک مغربی معاشی و سیاسی میدان میں کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک وہ ان کے نظام کا حصہ اور اس کے مکمل خدوخال کو نہ سمجھیں! 1900 میں جب پہلی انڈین نیشنل کانگریس کنونشن منعقد ہوئی تو سرسید کو بھی اس میں مدعو کیا گیا کئی طاقتور ستونوں وخفیہ ہاتھوں نے ان پر شدید دباؤ ڈالا کہ وہ بھی اس کا حصہ بن کر اس میں شامل ہوجائیں مگر آپ نے اسے یکسر مسترد کرتے ہوئے اہل مسلم کو بھی اس سے دور رہنے کا مشورہ دے دیا۔ پھر آپ نے فوراً آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا۔

یہ وہ بنیادی و ابتدائی پلیٹ فارم تھا جہاں مسلمانوں کو اپنے معاشی و سیاسی اور سماجی مسائل پر تبادلہ خیال کا بھرپور موقع ملا۔ سرسید احمد خان اور ان کے رفقائے کار کی انتھک جدوجہد کی بدولت مسلم امہ کو ایک شناخت ملی اور ٹو نیشن تھیوری کو بنیاد۔ درحقیقت یہ وہی عالمگیر کی لٹریسی موومنٹ تھی جس نے آگے چل کر تحریک پاکستان کی شکل اختیار کی۔

سرسید احمد خان نے وقار الملک اور اپنے اہل دانش رفقائے کار کے ساتھ مل کر 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ جس کا آگے چل کر مفکر پاکستان شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے ایک آزاد ملک کا خواب دیکھا۔ جو 1940 میں قرارداد پاکستان کی شکل میں پایہ تکمیل پر پہنچا اور آخرکار 14 اگست 1947 کو ہمارے پیارے وطن و ملک پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ جس کی قیادت قائد اعظم جیسے غیور غیرت مند محب وطن راہنما نے کی۔

بدقسمتی سے قیام پاکستان سے لے کر آج تک یہاں رائج و مسلط ’’جمہوری، آمریتی خم‘‘ (نظام) نے عوام الناس کو کچھ بھی نہیں ڈلیور کیا۔

ہم کو آزاد ہوئے پورے 68 سال ہوچکے ہیں۔ تو پھر یہ آزادی یا انقلاب مارچ کیوں؟ پاکستان کے سیاسی افق پر کئی روشن ستارے نمودار ہوئے۔ سرسید احمد خان، علامہ محمد اقبال، قائد اعظم اور لیاقت علی خان جیسے غیور، غیر جانبدار، محب وطن اور مخلص لیڈران گرامی بھی گزرے جن کی تمام زندگی کا محور عوام الناس کی فلاح و بہبود، اصلاح، بنیادی انسانی حقوق، معاشی و سیاسی حقوق اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے پر گزر گئی۔

جب ہم اپنے رہنماؤں کی زندگیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی تمام زندگی نہایت سادگی اور صبر و شکر سے گزاری، جن کا ایک ہی اثاثہ و کنبہ تھی اور وہ تھی پاکستان کی ترقی، امن، عزت و اعلیٰ مقام، رعایا کی فلاح و بہبود، معاشی و سیاسی آزادی، عدل و انصاف اور ایک باشعور تعلیم یافتہ قوم اور اگر ہم آج کے لیڈران کو دیکھتے ہیں تو ان سب کا محور ڈالر کی چمک کے گرد گھومتا ہوا نظر آتا ہے۔

ان کا اثاثہ کرنسی و جاگیر ہے۔ ان کا ایمان امریکا اور قبلہ برطانیہ و یورپ ہے ان کا سرمایہ فرنگی بینکوں کی ذہنیت ہے ان کا مستقبل پاکستان ہر گز نہیں ان کا آخری ٹھکانہ دیار غیر ہے۔ جہاں چپے چپے پر میرو جعفر برائے فروخت ہوں اس ملک کا عالم و مکاں کیا ہوگا؟

آج ہم سب برملا کہتے پھرتے ہیں ہم زندہ قوم ہیں اس قوم نے بڑے صبر و تحمل کے ساتھ آمریت بھی دیکھی اور جمہوری بادشاہت سے بھی بھرپور لطف اندوز ہوئے۔ ہر وقت ہر موقعے پر پاکستان کو ’’نازک دور‘‘ کا راگ لگا لگا کر یہاں جمہوریت آمریت کا ایسا خم بنادیا گیا جس نے ہمارے معاشرے کے اقتدار، ہماری شناخت، تہذیب و تمدن،ثقافت، معیشت اور عدل و انصاف کے نظام کو مکمل مفلوج کرکے رکھ دیا ہے اور ایک ایسا خطرناک بگاڑ پیدا کردیا ہے کہ آج ہم سب زندہ ہوکر بھی ایک مجبور بے بس فالج زدہ قوم و مریض کی مانند بن چکے ہیں جو ایک طرف کرسی پر مفلوج ہوکر بیٹھا ہے۔ جسے کبھی جمہوریت اپنے حسن و جادو میں مبتلا کرکے اپنی طرف لے جاتی ہے تو کبھی آمریت اپنے جلو اور دب دبے سے اپنی طرف موڑ دیتی ہے۔

اس باہمی یک سوچ و نظام جسے میں ’’جمہوریت۔ آمریت کا خم‘‘ بولوں گا، نے آج ہمارے قومی وقار کو پوری طرح سے مجروح کردیا ہے اور پوری قوم کو ایک ایسی بندگلی کی طرف دھکیل دیا ہے جہاں سے نکلنا مشکل مگر ہم قوم مل کر چاہیں تو یہ ناممکن ہرگز نہیں پر اس سے پہلے ہمیں بس ایک قوم بننا پڑے گا اور وہ بھی زندہ !!

آج پاکستان اقوام عالم میں بہت تیز رفتاری سے اپنی قومی شناخت کھو رہا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس ملک میں ایک ہی نظام ’’جمہوری و آمریتی خم‘‘ چلا آرہا ہے۔ آج پوری قوم کو اس غیر فطری خم کے بھنور سے باہر نکلنا ہوگا۔ اہل دانش کو ایک بار پھر ایک نئی لٹریسی موومنٹ کا آغاز کرکے اس قوم کو باشعور کرنا ہوگا۔ کوئی بولے آزادی، کوئی بولے انقلاب، آج اہل دانش کو حقیقی معاشی آزادی کا مفہوم و اہمیت اس قوم کو بتانا ہوگا۔ آج ہم کو یقینا  ایک زندہ قوم ہونے کا وعدہ سچ ثابت کرنا ہوگا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔