سیاسی کشیدگی اور کرنسی

ایم آئی خلیل  جمعـء 22 اگست 2014
   ikhalil2012@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ دو ہفتوں سے ملک میں سیاسی کشیدگی کے باعث معیشت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، کارخانے داروں اور صنعتی اداروں کے مالکان تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ آرڈرز نہ ملنے کے باعث ان کے اداروں میں پیداواری سرگرمیاں ماند پڑچکی ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پیداواری یونٹ بند کرچکے ہیں اور کئی ایسے بھی ہیں جوکہ بند کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اس دوران روپے کی ناقدری میں اضافے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

پاکستانی کرنسی جوکہ کچھ عرصے تک مستحکم تھی اب اس کی قدر میں روز بروز کمی واقع ہوتی چلی جارہی ہے۔ فروری کے ماہ میں پیسے کی قدر اس حد تک کمزور ہوچکی تھی کہ ایک ڈالر کی قیمت 111 روپے تک جا پہنچی تھی۔ جسے 98 روپے تک لانے کے لیے بڑے جتن کیے گئے۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کرنسی کی قدر میں اضافے کا سبب بنا تھا۔ اب پھر روپیہ کمزور ہو چلا ہے اور ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوکر ایک ڈالر 101 روپے سے بھی زائد ہوچکا ہے۔

ماہ اگست میں قیام پاکستان کے حوالے سے روپے کی قدر کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت ایک ڈالر 3 روپے 30 پیسے کا دستیاب تھا، ان دنوں درآمدات اور برآمدات کا فرق پاکستان کے حق میں تھا، پاکستان کئی سال تک تجارتی خسارے سے نا آشنا تھا، حتیٰ کہ جب پہلی مرتبہ 1955 میں روپے کی کم قدری کی گئی تو اس کے بعد سے برآمدات کی مالیت کم اور درآمدات کی مالیت میں اضافے کے باعث تجارتی خسارہ ہوا، جو بعد کے برسوں میں بڑھتا ہی رہا۔

اگر ہم قیام پاکستان کے بعد سے کئی سال کے تجارتی خسارے کا جائزہ لیں تو یہ پاکستان کے حق میں رہا ہے۔ مثلاً 15 اگست 1947 سے جون 1948 کے دوران بیرونی تجارت کے باب میں 448 ملین روپے کا فائدہ حاصل ہوا۔ اسی طرح 1948-49 کے دوران بیرونی تجارت 384 ملین روپے سرپلس رہا۔ 1950 میں کوریائی جنگ چھڑنے کے باعث پاکستان پر بہت ہی دبائو تھا کہ وہ اپنی کرنسی کی ویلیو میں کمی لے کر آئے لیکن ان دنوں مرکزی وزارت خزانہ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔

برطانیہ، انڈیا اور دیگر ملکوں نے اپنی کرنسی کی قدر گھٹا دی تھی، اس دوران برآمدات کے ساتھ درآمدات کا بل تیار کرنے کی جدوجہد بھی جاری تھی۔ آئے روز درآمدات کے بل تیار کرنے اور دیگر پیداواری یونٹ لگائے جارہے تھے، ملک بھر میں کارخانوں کے قیام کی ابتدا ہوچکی تھی اور ملک کی زرعی پیداوار کے ساتھ صنعتی پیداوار کی برآمدات میں اضافہ ہورہا تھا۔ کوریائی جنگ چھڑنے کے باعث عالمی منڈی میں اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔ ہندوستان، کلکتہ کی جوٹ ملوں کے لیے سابقہ مشرقی پاکستان سے جوٹ، پٹ سن کی بڑی مقدار درآمد کرنا تھا، نیز برطانیہ کو پاکستانی کپاس کی بھی اشد ضرورت تھی۔

اس کے علاوہ دیگر ممالک جو کہ پاکستان سے  پٹ سن اور کپاس کے خریدار تھے ان سب کی خواہش تھی کہ پاکستان اپنے روپے کی قدر گھٹادے، لیکن اس وقت کے حکومتی زیرک معیشت دانوں کے مشورے سے حکومت پاکستان نے روپے کی قدر میں کمی کرنے سے صاف انکار کردیا تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا، عالمی منڈی میں کپاس اور پٹ سن جوکہ سابقہ مشرقی پاکستان کی اہم ترین نقد آور فصل تھی جسے سنہری ریشہ بھی کہا جاتا تھا، ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور جہاز بھر بھر کر ان زرعی اشیا کی برآمدات ہوئیں اور غالباً پاکستان کو پہلی مرتبہ 934 ملین روپے کا تجارتی فائدہ حاصل ہوا۔

اگرچہ اس کے بعد سے ٹریڈ سرپلس میں کمی واقع ہوئی لیکن ابھی تک تجارتی خسارے کا سلسلہ شروع نہ ہوا تھا حتیٰ کہ 1955 میں روپے کی قدر گھٹا دی گئی۔ درمیانی برسوں میں ہونے والے تجارتی خسارے کے اعداد و شمار کچھ یوں ہیں کہ 1952-53 کے دوران ٹریڈ سرپلس 126 ملین روپے اور 1953-54 کے دوران تجارتی فائدہ 168 ملین روپے کا ہوا اور 1954-55 کے دوران ٹریڈ سرپلس 120 ملین روپے کا ہوا تھا۔ 1955 میں روپے کی قدر گھٹادی گئی اور ایک ڈالر 4 روپے 40 پیسے کا ہوچکا تھا۔

1955-56 میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 459 ملین روپے کا ہوچکا تھا، اگلے سال ہی یعنی 1956-67 کا تجارتی خسارہ 727 ملین روپے رہا۔ 1960 کی دہائی شروع ہوتے ہی تجارتی خسارے میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوگیا، جس میں سے چند برسوں کے اعداد و شمار ملاحظہ فرمائیں۔ 1960-61 کا تجارتی خسارہ 1389 ملین روپے، 62-63 کا تجارتی خسارہ 1572 ملین روپے، 63-64 کا فارن ٹریڈ خسارہ 2131 ملین روپے اور پھر 1964-65 کا ٹریڈ ڈیفی شینٹ 2966ملین روپے تک جا پہنچا۔

واضح رہے کہ اس وقت کی معیشت اور حکومت اور آج کی معیشت و حکومت میں فرق ہے کہ 1950 کی دہائی ہو یا 1960 کی دہائی۔ آئے روز نئے کارخانے کھل رہے ہوتے، نئے پیداواری یونٹس اپنے کام کا آغاز کرتی، صنعت کار اپنے سرمایہ کو بیرون ملک منتقل کرنے کے بجائے اپنے ہی ملک میں ان کی سرمایہ کاری کر رہے ہوتے۔

اگرچہ اس دوران ہونے والی صنعتی ترقی نے ملک میں کئی خاندانوں کے بینک بیلنس میں بہت اضافہ کیا جس کے باعث معاشی ترقی نے امیروں کی تعداد میں اضافہ کیا لیکن نئے کارخانوں، ملوں کے قیام کے باعث لوگوں کو روزگار میسر آرہا تھا، نوجوان برسر روزگار تھے جس کے باعث اسٹریٹ کرائم تو بہت حد تک کنٹرول ہورہا تھا لیکن آج صورت حال برعکس ہے۔

گزشتہ کئی سال سے ملکی صنعت کار اپنے کارخانوں اور ملوں کو بیرون ملک منتقل کرچکے ہیں، سرمایہ دار اپنی دولت کو پاکستانی روپے میں محفوظ رکھنے کے بجائے اسے ڈالر میں تبدیل کر رہا ہے جس کے باعث ڈالر کی قدر بڑھ رہی ہے اور پھر یہ ڈالر بیرونی ملک منتقل کیا جا رہا ہے، ملک میں یا بیرون ملک پاکستانیوں میں جائیداد خریدنے اور پراپرٹی بنانے کے رجحان میں بہت اضافہ ہورہا ہے۔

اربوں ہی نہیں اب تو کھربوں روپے بیرون ممالک جائیداد کی خرید و فروخت کی نذر کیے جارہے ہیں اور پاکستان میں بھی نئے کارخانوں کے قیام کے بجائے اب سرمایہ کار پراپرٹی خرید کر دوچار ماہ بعد اسے معقول منافع کے عوض فروخت کردیتا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں قلیل مدت میں بغیر محنت کے وہ بہت بڑی رقم حاصل کرلیتا ہے، اس کے علاوہ بیرون ملک صنعتوں کی منتقلی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

روپیہ کی قدر میں مسلسل کمی کے خدشات کے پیش نظر بیرونی سرمایہ کاری میں بھی کافی حد تک کمی واقع ہوچکی ہے، ان تمام باتوں کے یہ نتائج نکل رہے ہیں کہ ملک کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع ختم ہورہے ہیں۔ صنعتوں میں جب پیداوار نہیں ہوگی، لہٰذا ایسی صورت میں کارخانوں کی بندش کے باعث مزدور بیروزگار ہورہے ہیں۔

موجودہ سیاسی حالات کے باعث صنعت کار، کارخانہ دار اپنی تشویش ظاہر کررہے ہیں کہ آرڈرز نہیں مل رہے ہیں، پیداوار بن بکے موجود ہے کیوں کہ ان کی ترسیل میں خدشات پیدا ہورہے ہیں، ان وجوہات کی بنا پر مزدوروں کو کام بھی نہیں مل رہا ہے، ان کے چولہے ٹھنڈے ہورہے ہیں، کارخانہ دار اور صنعت کار بددل ہوکر اپنے پیداواری یونٹوں کو بیرون ملک منتقلی پر غور کررہے ہیں۔

لہٰذا اس صورت حال کی جلد از جلد شافی حل کی ضرورت ہے تاکہ ملکی پیداوار کا سلسلہ دوبارہ تیزی سے شروع ہو، لوگوں کو روزگار میسر آئے، جس سے معیشت میں ایک طرف استحکام کی صورت پیدا ہوگی، معیشت اور حکومت پر اعتماد کی صورت میں بھی روپے کی قدر میں بہتری لائی جاسکتی ہے، بصورت دیگر کرنسی کی کم قدری کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اسے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک سے سیاسی کشیدگی کو ختم کیا جائے تاکہ ملکی معیشت کا پہیہ رواں دواں ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔