گُل کھلاتی ’’گلنارا‘‘

عارف عزیز  اتوار 24 اگست 2014
ایسا کیا ہوا کہ وہ اپنے باپ کے دور میں نظربند کردی گئی ہے؟ ۔  فوٹو : فائل

ایسا کیا ہوا کہ وہ اپنے باپ کے دور میں نظربند کردی گئی ہے؟ ۔ فوٹو : فائل

ان دنوں ’ازبکستان کی شہزادی‘ کٹھن حالات کا سامنا کررہی ہے۔ اُسے ازبک سماج میں مفلسوں اور ناداروں کا سہارا، عورتوں کے حقوق کی علم بردار بتایا جاتا ہے۔

فیشن اور اسٹائل کی دنیا پر اُس کا راج تھا۔ وہ پاپ گلوکارہ کے طور پر بھی اپنی پہچان بناچکی تھی۔ کئی سماجی تنظیموں کی اس سربراہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ازبکستان میں متعدد ٹیلی ویژن چینلز اور ریڈیو اسٹیشنز اُسی کے تھے۔ یہ نشریاتی ادارے اسے ایک مخیر خاتون، علم و فنون کی سرپرست کے طور پر مشتہر کرتے تھے، لیکن اب یہ بند ہوچکے ہیں۔ ملک اور بیرونِ ملک اُسے ایک کام یاب بزنس وومن کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ مواصلات، ٹرانسپورٹ، انٹرٹینمینٹ اور فیشن انڈسٹری کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری سے وہ ازبکستان کی امیر ترین خواتین میں شمار ہونے لگی تھی۔

یہ ازبکستان کے صدر اسلام کریموف کی سب سے بڑی بیٹی گلنارا کریمووا کا تذکرہ ہے۔ اسلام کریموف ازبکستان کا صدر ہونا گلنارا کی پہچان کے متعدد کام یاب حوالوں کا اصل سبب ہے۔ چند ہفتے قبل تک اسلام کریموف اپنی بیٹی پر بے حد اعتماد کرتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس کے ذریعے عوام میں اپنا اثر برقرار رکھتے ہوئے ہر سطح پر پزیرائی کے متمنی تھے۔ انہوں نے 1991میں صدر کا منصب سنبھالا تھا۔ اسلام کریموف پر الزام ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے دھاندلی اور جبر کا سہارا لیتے آئے ہیں۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ان پر ملک میں فرد کی آزادی سلب کرنے اور حقوق کی پامالی کا الزام لگاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ازبکستان میں میڈیا پر پابندیاں عاید ہیں اور مطلق العنانیت کی وجہ سے ادارے اور حکام اپنے اختیارات کے استعمال میں بے بس ہیں۔ دوسری طرف صدر کی بیٹی ہونے کے ناتے گلنارا کو ملک میں احتساب کا کوئی ڈر نہ تھا۔ چند ماہ قبل تک یہ کہا جاتا تھا کہ گلنارا سیاسی میدان میں اپنے والد کی جگہ لے گی، لیکن سب کچھ بدل گیا۔ طاقت اور اختیارات چھن گئے اور اب گلنارا ایک گھر میں نظر بند ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق فروری میں 41 سالہ گلنارا کے ساتھ اس کی 15 سالہ بیٹی ایمان اور رستم مادوعمروف کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ رستم گلنارا کا بزنس پارٹنر ہے اور اسے گلنارا کا ’بوائے فرینڈ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ گلنارا کی عام حلیے میں ایک تصویر اور خط منظرِ عام پر آیا تو اس کی نظر بندی کا معاملہ دنیا بھر میں موضوعِ بحث بن گیا۔ ’ازبکستان کی شہزادی‘ اس حال تک کیسے اور کیوں پہنچی؟

گلنارا کی من مانیوں اور بعض سرگرمیوں نے ملک کی اہم سیاسی اور کاروباری شخصیات اور اعلیٰ سرکاری حکام کو اس کے خلاف کردیا۔ طاقت کے نشے میں چُور گلنارا دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی عادی ہو چکی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ عرصے سے اسے یہ احساس ستانے لگا تھا کہ اس کے اثرورسوخ کو محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس نے سماجی رابطے کی مشہور ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے مخالفین اور ملکی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے دوران اپنے ’سیاسی عزائم‘ کا اظہار بھی کیا تھا۔

اب اس کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بند ہوچکا ہے۔ اسی طرح ذرایع ابلاغ میں اس کی سماجی خدمات اور دیگر شعبوں میں کوریج بھی دم توڑ چکی ہے۔ گلنارا کے حمایتی ٹی وی چینلز اور ریڈیو اسٹیشنز کو بندش کے ساتھ مالی بدعنوانیوں کی تحقیقات کا بھی سامنا ہے۔ اس کی نظر بندی کے احکامات ازبک صدر اور گلنارا کے والد اسلام کریموف نے دیے ہیں۔

اپنی گرفتاری سے چند ہفتے قبل گلنارا نے ایک ٹویٹ میں الزام عاید کیا کہ اس کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے، جس کی سرپرستی ملکی دفاعی ادارے کے سربراہ رستم عنایتوو کررہے ہیں۔ گلنارا کے مطابق وہ صدر کے عہدے میں دل چسپی رکھتے ہیں اور صدارتی انتخابات کے لیے مہم شروع کرچکے ہیں۔ واضح رہے کہ اگلے سال کے آغاز پر ازبکستان میں عام انتخابات کا انعقاد اور ملک کے نئے سربراہ کا چناؤ بھی کیا جانا ہے۔

2012 تک سیاست اور سماج کی انتہائی بااثر گلنارا کے بارے میں مشہورِ زمانہ ’وکی لیکس‘ نے بھی کئی انکشافات کیے، جن کے مطابق وہ لامحدود اختیارات کی خواہش کے ساتھ اپنے اثرورسوخ کے بل پر مقامی بزنس مینوں سے ان کے کاروبار ہتھیانے کے علاوہ سرمایہ کاروں کو ڈرا دھمکا کر اپنے تابع رکھنا چاہتی تھی۔

اس نے مختلف ازبک اداروں کے حکام کو اہم امور میں اپنی مرضی کے مطابق فیصلے اور اقدامات کرنے پر مجبور کیا اور ملکی سلامتی سے متعلق اہم اداروں اور سیکیوریٹی سربراہان کو بھی ’ہدایات‘ دینے لگی، جس کی وجہ سے وہ اس کے خلاف ہوتے چلے گئے۔ دوسری جانب ازبک عوام کی اکثریت کے نزدیک گلنارا ایک مفاد پرست اور لالچی عورت ہے۔

پچھلے دنوں کسی طرح گلنارا ایک خط کے ذریعے اپنے حالات دنیا کے سامنے لانے میں کام یاب ہوگئی۔ اس خط میں اپنے خاندان کے افراد اور والد کے قریبی ساتھیوں پر الزام عاید کرتے ہوئے گلنارا نے کہا کہ ان لوگوں نے اسے ایک گھر میں قید کردیا ہے اور اس پر تشدد کیا جارہا ہے۔ گلنارا لکھتی ہے: مجھے مارا گیا ہے، میں زبردست نفسیاتی دباؤ میں ہوں، میرے بازوؤں پر زخموں کے نشان گنے جاسکتے ہیں۔ مجھے روزانہ دھمکیاں ملتی ہیں اور جس گھر میں مجھے رکھا گیا ہے اس میں ہر طرف کیمرے لگے ہوئے ہیں۔

گلنارا نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ بہت بھولی تھی اور سمجھتی تھی کہ ملک میں قانون کی حکم رانی ہے۔ اپنے والد سے متعلق گلنارا کا کہنا ہے کہ قدرت جب کسی کو سزا دینا چاہتی ہے تو وہ اس سے عقل اور ہوش چھین لیتی ہے۔ اس کے والد بھی پاگل ہوچکے ہیں۔ ورنہ کوئی بھی اپنی اولاد اور اس کی بیٹی کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتا۔ گلنارا نے اس خط میں خود کو مظلوم اور معتوب ظاہر کیا ہے، لیکن اس کے مخالفین اسے قدرت کا انتقام بتارہے ہیں۔

گلنارا کے ظلم و ستم کا شکار ہونے والوں کی فہرست طویل ہے اور ابھی بہت سے حقائق منظرِعام پر نہیں آسکے ہیں۔ ایک ازبک، افغان بزنس مین کا کہنا ہے کہ گلنارا نے کئی لوگوں سے ان کی جمع پونجی چھین لی اور اِس کی طرح کئی سرمایہ کار ازبکستان چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

اس کا کہنا ہے کہ ملکی سلامتی سے متعلق ادارے کے چیف رستم عنایتوو صدر اسلام کریمووا پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ گلنارا سے باز پُرس کریں۔ اس کا کہنا ہے کہ سیکیوریٹی حکام ازبکستان کے بڑے کاروباری افراد کو ایسے بزنس گروپ میں اپنی کمپنی کے انضمام پر مجبور کرتے تھے، جس کی مالک دراصل گلنارا ہوتی تھی۔ 2009 میں ازبکستان میں ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں کام یابی سے آگے بڑھتے ہوئے ’اسکائی ٹیل‘ نامی ادارے کے بانی اور امریکی بزنس مین نے سفارت خانے میں شکایت داخل کی کہ گلنارا کے حامیوں نے اس کاروبار میں اُسے شریک کرنے پر مجبور کیا اور انکار کرنے پر متعلقہ سرکاری ادارے کی جانب سے کمپنی کے لیے فریکوئنسی جام کردی گئی۔

جس کے بعد وہ ادارہ بند ہوگیا۔ ایک ازبک صحافی شاہدہ کے مطابق گلنارا بے لگام ہوچکی تھی۔ وہ اپنے باپ کے اقتدار کی جڑیں کاٹنے رہی تھی اور اپنی ماں اور بہن پر سرِ عام الزامات عاید کرتی تھی۔ ان کے لیے اب اسے خاموش کروانا ضروری تھا۔ صدارتی آفس کے ایک اہل کار کمال الدین 2007 میں پیرس چلے گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ گلنارا غیرملکی اور ملکی سرمایہ کاروں کے بزنس ہڑپ کر رہی تھی۔ کاروباری شخصیات کو انکار کی صورت میں مختلف قسم کی بدعنوانیوں اور ٹیکس کی عدم ادائیگی کے الزامات کے تحت جھوٹی تحقیقات اور سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

اس کے علاوہ ان کے اثاثے منجمد کردیے جاتے اور اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے انہیں جائیداد اونے پونے داموں فروخت کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ گلنارا کے لیے مشکلات کا آغاز روسی موبائل فون کمپنی ایم ٹی ایس کی وجہ سے ہوا۔ اس کمپنی کو ٹیکس فراڈ کے الزامات کے ساتھ دیگر مالی بدعنوانیوں میں ملوث کیا جارہا تھا، لیکن ایم ٹی ایس کے سربراہ نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے اپنے خلاف اقدامات کو غیرقانونی اور ناجائز طریقے سے کاروبار ہتھیانے کی کوشش قرار دیا۔ انہی دنوں سوئس حکام ’زیرومیکس‘ نامی ایک کمپنی کے خلاف بعض الزامات کی تحقیق کررہے تھے۔ اس سوئس رجسٹرڈ کمپنی کا بانی ایک ازبک بزنس مین غفور رحیموف بتایا جاتا ہے۔

امریکا میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق یہ شخص ازبکستان میں منظم جرائم میں ملوث گروہ کا سربراہ ہے۔ سوئس عدالت میں سرکاری وکیل کی طرف سے کہا گیا کہ غفور رحیموف کی یہ نام نہاد کمپنی ازبکستان میں دراصل مختلف کاروباری فراڈ اور دیگر مالی گھپلوں میں ملوث ہے اور گلنارا اس کی پشت پناہی کررہی ہے۔ اس کمپنی پر منی لانڈرنگ کے الزامات بھی عاید کیے گئے۔ ان معاملات کی تحقیقاتی ٹیم نے ایم ٹی ایس سے رابطہ کرکے گلنارا کے خلاف کارروائی میں تعاون کرنے کا مطالبہ کیا۔ سوئس پراسیکیوٹر کے مطابق زیرومیکس ازبکستان میں سرمایہ کاروں کو ہر قسم کے تحفظ اور آزادانہ کاروباری سرگرمیوں کی ضمانت دیتی تھی اور کئی معاملات میں سرکاری سطح پر چھوٹ کے عوض بھاری رشوت طلب کرتی تھی۔ اس سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ 2007 میں سوئیڈن کی Telia نامی کمپنی سے 34 کروڑ امریکی ڈالر حاصل کیے گئے۔

یہ ادارہ ازبکستان میں تھری جی ٹیکنالوجی کا لائسنس حاصل کرنا چاہتا تھا۔ گلنارا کے خلاف تحقیقات کے بعد سوئس بینکوں میں موجود اس کے 91.2 کروڑ امریکی ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے گئے۔ تاہم گلنارا تمام الزامات کی تردید کرتی رہی۔ اس نے ازبکستان میں میڈیا کو اپنے انٹرویوز میں کہا کہ Telia نامی کمپنی کے کسی نمائندے سے اس کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور اس پر لگائے گئے الزامات جھوٹے ہیں۔ نیدرلینڈ، سوئیڈن، ناروے اور فرانس میں منی لانڈرنگ میں ملوث بعض کمپنیوں کا تعلق بھی گلنارا سے جوڑا جاتا ہے۔ ازبکستان میں2002  سے 2004 تک تعینات رہنے والے برطانوی سفیر Craig Murray کے مطابق گلنارا نے ازبکستان میں لوٹ مار مچا رکھی تھی۔

وہ زیورات اور نوادرات کی شوقین تھی اور انہیں حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ خالص سونا اور قیمتی جواہرات اس کے گھر کے پچھلے حصّے میں موجود باغ میں دفن ہیں۔ انہیں کنکریٹ کی دیواروں میں مخصوص طریقے سے رکھ کر محفوظ کیا گیا ہے۔ اس سفیر نے الزام عاید کیا کہ اسلام کریموف کی بیٹی دوسروں سے ان کا کاروبار اور دولت چھین لیتی تھی۔ وہ اپنے کاروباری حریفوں کے قتل میں بھی ملوث ہے۔

Murray نے گلنارا کے بارے میں ایک بلاگ لکھا، جس پر تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس بلاگ میں گلنارا پر ایک ایسے گروہ کی سرپرستی کا الزام لگایا گیا، جو مقامی لڑکیوں کو ملازمت کا جھانسا دے کر دبئی لے جاتا اور وہاں انہیں جسم فروشی پر مجبور کرتا تھا۔ اس کے علاوہ مختلف کمپنیوں کو بچوں سے جبری مشقت لینے پر تحفظ فراہم کرنے کے عوض مالی فوائد سمیٹنے کا ذکر بھی اس بلاگ میں کیا گیا تھا۔ 2004 میں Murray کو ویزا اسکینڈل کے بعد عہدے سے برطرفی کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنی برطرفی کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ ازبکستان میں انسانی حقوق کی پامالی اور دیگر حقائق منظرِعام پر لانے کا نتیجہ ہے۔

گلنارا کے قریبی دوست اور ساتھی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ تمام حدیں پار کرگئی تھی اور دوسروں کی بربادی کا باعث بن رہی تھی۔ ان حلقوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ازبک صدر کو ایسے تحریری ثبوت دیے گئے ہیں، جن کے بعد اُن کا گلنارا پر اعتبار کرنا ممکن نہیں رہا۔ اسلام کریموف کے بعض غیرملکی دوستوں کا کہنا ہے کہ گلنارا اُن کے ہاتھوں سے نکل چکی تھی۔

وہ اس کی سرگرمیوں سے خائف تھے، لیکن اسے روکنے میں ناکام ہو رہے تھے۔ ایک مغربی سفارت کار کے مطابق اسلام کریموف نے ملکی سیکیوریٹی اداروں کے درمیان توازن قائم رکھا اور محاذ آرائی سے بچانے کے لیے اقدامات کیے، لیکن اب وہ ان اداروں کی طرف سے مشکلات کا سامنا کر رہے تھے اور اس کی وجہ ان کی بیٹی تھی۔

1991 میں گلنارا کی شادی امریکی بزنس مین منصور مقصودی سے ہوئی۔ منصور مقصودی کا آبائی وطن افغانستان ہے۔ ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی پیدائش کے بعد 2001 میں اختلافات کے باعث ان کے درمیان علیحدگی ہوگئی۔ گلنارا اپنے بچوں کے ساتھ دس برس امریکا میں گزارنے کے بعد اپنے وطن لوٹ آئی۔ یہاں واپسی پر اس کی منتقم المزاجی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ اس نے ملکی سیکیوریٹی اداروں کے ذریعے ازبکستان میں اپنے سابق شوہر کے تمام کاروبار تباہ کرنے کے ساتھ اس کے رشتے داروں کو تنگ کرنا شروع کردیا۔ اس خاندان کے لیے خطرات بڑھتے چلے گئے اور وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔

آٹھ جولائی 1972 کو پیدا ہونے والی گلنارا کو ازبکستان میں ایک استاد اور سفارت کار کی حیثیت بھی حاصل رہی۔ وہ ایک ثقافتی تنظیم کی بانی اور چیئر پرسن ہونے کے ساتھ متعدد این جی اوز کی سربراہ بھی تھی۔

1988میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد گلنارا ایم اے اقتصادیات میں داخلہ لے لیا۔ اسی دوران چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں ملازمت بھی شروع کردی۔ 1996 میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسے یونی ورسٹی آف ورلڈ اکنامی اینڈ ڈپلومیسی میں زیرِتربیت ٹیچر کی حیثیت سے وابستہ ہونے کا موقع ملا اور 2009 میں اسی جامعہ میں سیاسیات کے مضمون کی پروفیسر کی حیثیت سے اپنا تدریسی سفر شروع کیا۔ اسی عرصے میں وہ وزارتِ خارجہ سے وابستہ ہوئی اور تجزیاتی رپورٹس تیار کرنے کی ذمہ داری نبھانے لگی۔ 1998اور  2000کے درمیان نے ہارورڈ یونی ورسٹی سے ریجنل اسٹڈیز کے مضمون میں ماسٹرز کیا۔ 2001 میں اس نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرلی۔

1995 میں وزراتِ خارجہ میں مشیر کی حیثیت سے کام شروع کیا اور 1998 تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ گلنارا نے 2003 سے 2005 تک ماسکو میں ازبک سفارت خانے میں خدمات انجام دیں۔ 2008 میں ازبکستان کی ڈپٹی وزیرِخارجہ بننے کے بعد اسی سال ستمبر میں اقوام متحدہ میں مستقل ازبک نمائندے کی حیثیت سے تعیناتی عمل میں لائی گئی، جب کہ 2010 کے آغاز پر گلنارا کو اسپین میں سفیر نام زد کردیا گیا۔ اس طرح وہ ایک بااثر اور انتہائی طاقت ور شخصیت بنتی چلی گئی، لیکن اپنی من مانیوں اور ظلم و ستم کے باعث آج مشکل میں ہے۔

اس سلسلے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ازبکستان کے اونچے طبقے میں اثرورسوخ اور اختیارات کی کھینچا تانی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ صدر اسلام کریموف کی جگہ کون لے گا، گرفتاری سے پہلے صدارتی عہدے کے لیے گلنارا مضبوط امیدوار تصور کی جارہی تھی، لیکن اب وہ اپنی حیثیت اور طاقت سے محروم ہوکر ’’قیدی شہزادی‘‘ بن چکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔