(پاکستان ایک نظر میں) - ہاں میں بزدل ہوں

ڈاکٹر عبد الباسط  ہفتہ 23 اگست 2014
انقلاب یا تبدیلی پاگل لوگ لے کر آتے ہیں مجھ جیسا مصلحت پسند نہیں۔ فوٹو فائل

انقلاب یا تبدیلی پاگل لوگ لے کر آتے ہیں مجھ جیسا مصلحت پسند نہیں۔ فوٹو فائل

گذشتہ رات میں ایک بات مسلسل سوچتا رہا اور پھر ایک نتیجے پر پہنچا۔ سوچتا یہ رہا کہ میں کون ہوں اور اس ملک کی ترقی میں میرا کیا کردار ہے؟ جواب یہ ملا کہ میں ایک دانشور ہوں اور میرا اس ارضِ مقدس کی ترقی میں کوئی کردار نہیں۔ جی ہاں جناب میں پڑھا لکھا ہوں، باروزگار ہوں ،تجزیہ کر سکتا ہوں،تبصرہ لکھ سکتا ہوں، فیس بُک پر انقلابی اسٹیٹس دے سکتا ہوں۔ لیکن جون،جولائی کی سخت دھوپ میں،دسمبر کی سردی میں،کسی شاہراہ پر کھڑے ہو کر انقلابی نعرے نہیں لگا سکتا۔ میں ہر روز اپنے کالم میں اور اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر،پولیس کی لاقانونیت، غنڈہ گردی یا بدمعاشی کے خلاف دل موہ لینے والی تحریر تو رقم کر سکتا ہوں لیکن کسی شازیہ یا کسی تنزیلہ کی طرح اُن کے مظالم کو بے نقاب کرنے کے لیے اپنی جان نہیں دے سکتا۔ 

سال کے 365 دن میں روزانہ انقلابی اشعار یاد کرتا ہوں،فیض احمد فیض کو پڑھتا ہوں،کلیاتِ جالب کھولتا ہوں، روح کو گرما دینے والی غزلیں اور نظمیں یاد کرتا ہوں لیکن ان نظموں کو یاد کرنے کا مقصد،انقلاب لانا نہیں، بلکہ مختلف تقاریب میں اشعار سنا کر داد و تحسین سمیٹنا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جب کسی ٹھنڈے ہال میں ہونے والی کانفرنس میں مجھے دعوتِ خطاب دی جائے تو کوئی مجھ جیسی تقریر نہ کر پائے۔ قیمتی لباس پہن کر غریب لوگوں کے مسائل پر روشنی ڈالوں اور آخر میں یہ اشعار پڑھوں؛

ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
ہم دیکھیں گے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے

اور اس کے بعد ہر طرف تالیوں کی گونج ہولیکن چونکہ میں دانشور ہوں،اس لیے ان مندرجہ بالا اشعار کو پڑھتے وقت میرا مطلب واقعی یہ نہیں ہوتا کہ کوئی آئے اور آکر اس فرسودہ،غلیظ نظام کو تہہ وبالا کر دے۔ جیسے ہی کوئی عمران خان یا کوئی طاہر القادری میرے جیسی باتیں کرے تو میں فوراً اُس پر تنقید شروع کر دیتاہوں۔

اگر مال روڈ پر جماعت اسلامی فلسطین کے حق میں ریلی نکالے تو مَیں اس میں شریک نہیں ہوتا۔بلکہ رات کو فیس بُک پر سٹیٹس دیتا ہوں’’ کہ کاش جماعت اسلامی اس ملک میں جمہوری آمریت کے خلاف بھی ریلی نکالے‘‘۔ دوسری طرف جب کوئی طاہر القادری جمہوری آمریت کے خلاف جلسہ کرے تو میں ا س میں بھی شریک نہیں ہوتااور دوبارہ فیس بک پر لکھتا ہوں ’’کہ کاش طاہر القادری فلسطین کے حق میں بھی جلسہ کرے‘‘۔

در اصل میں بزدل ہوں، مجھے ڈر رہتا ہے کہ اگر میں کسی احتجاج میں شریک ہوا اور وہاں مجھے کچھ ہو گیا،کوئی لاٹھی چارج ہوا،تو پھر میرے گھر والوں کا کیا بنے گا۔ میرا اتنا خوبصورت سیٹ اپ ہے، نظامِ زندگی ہے،اُس سب کا کیا بنے گا؟ میرے بعد میرے بچوں کا کیا ہو گا؟میں غریب لوگوں کے مسائل پر لچھے دار تقریریں تو کر سکتا ہوں،کالم تو لکھ سکتا ہوں،لیکن غریبوں کے بچوں کے لیے اپنا آپ تباہ نہیں کر سکتا۔

تنقید میرا مشغلہ ہے۔ فارغ وقت گزارنے کا ایک طریقہ۔ تنقید کر کے میں واہ واہ حاصل کرتا ہوں۔ میں کسی آزادی مارچ یا انقلاب مارچ کا حصہ نہیں ہوں۔ عمران یا قادری جو ایجنڈا پیش کر رہے ہیں،میں یہ باتیں روز کرتا ہوں۔لیکن اپنے آپ کو دانشور ثابت کرنے کے لیے میں بھی عمران اور قادری پر تنقید کرتا ہوں۔ میں اس نظام کے خلاف روز لکھتا ہوں لیکن جیسے ہی کوئی اس نظام کو تہہ و بالا کرنے کے لیے نکلتا ہے،تو میں اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ اس کے ساتھ کسی شاہراہ دستور پر بیٹھ نہیں سکتا،اُلٹا مجھے یہ اعتراض ہے کہ طاہر القادری نے گرمیوں میں کوٹ کیوں پہنا ہوا ہے۔ مجھے یہ اعتراض ہے کہ عمران خان سٹیج کے اوپر کیوں نہیں سوتا؟میں روز اپنی انگلش بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن جب طاہر القادری انگلش میں بات کرتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ یہ غیر ملکی ایجنٹ ہے۔

یہ سارے بہانے، یہ ساری تنقید دراصل میری بزدلی کو ظاہر کرتی ہے،میری منافقت کو بے نقاب کرتی ہے۔ جی ہاں میں ایک دانشور ہوں۔ دنیا کے کسی انقلاب میں میرا کوئی حصہ نہیں۔ انقلاب یا تبدیلی پاگل لوگ لے کر آتے ہیں مجھ جیسا مصلحت پسند نہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔