بولی وڈ انتہا پسند ہندوؤں کی زد میں

ابو عبدالہادی  اتوار 24 اگست 2014
شدت پسند بھارتی فلم نگری پہ اپنے ہندوانہ نظریات ٹھونسنے لگے ہیں…ایک چشم کشا رپورٹ فوٹو : فائل

شدت پسند بھارتی فلم نگری پہ اپنے ہندوانہ نظریات ٹھونسنے لگے ہیں…ایک چشم کشا رپورٹ فوٹو : فائل

یہ 11 جولائی 2014ء کی بات ہے، ممبئی کی فلم ساز کمپنی، ریلائنس انٹرٹینمنٹ نے اپنی نئی فلم ’’سنگھم ریٹرن‘‘ کے ٹریلر جاری کیے۔ اس فلم کا ہیرو ،انسپکٹر باجی راؤ سنگھم بہت بہادر اور دلیر آدمی ہے۔ وہ جرأت سے مجرموں کے خلاف لڑتا اور انہیں شکست دیتا ہے۔ ’’سنگھم ریٹرن‘‘ میں انسپکٹر باجی راؤ کالے دھن (Black Money) کا دھندہ کرنے والوں سے ٹکر لیتا ہے۔ یہ کردار اداکار اجے دیوگن نے بخوبی نبھایا۔لیکن جلد ہی ہندو انتہا پسند مذہبی تنظیمیں اس فلم کے خلاف زور دار مہم چلانے لگیں…وجہ؟ انہیں سنگھم ریٹرن کے بعض مناظر پر اعتراض تھا۔

ایک منظرمیں انسپکٹر باجی راؤ ایک ہندو سادھو سے ملاقات کرتا ہے۔ حقیقتاً وہ سادھو نہیں مذہب کے پردے میں مجرم پیشہ شخص ہے۔ اسی لیے جب سادھو اسے مذہبی بھاشن دینے لگا، تو انسپکٹر ترنت بولا ’’میں تیرا دو کوڑی کا پروچن (لیکچر) سننے نہیں آیا ہوں۔‘‘

ہندو انتہا پسند رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ اس منظر میں ہندومت کو تضحیک و توہین کا نشانہ بنایا گیا۔

فلم کے ایک اور منظر میں انسپکٹر باجی راؤ مسلم ساتھیوں کے ساتھ مسجد میں جاتا، ٹوپی پہنتا اور نماز پڑھتا ہے۔ اس منظر نے بھی انتہا پسند ہندوؤں کے دلوں میں آگ لگادی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ منظر مسلمانوں کو رحم دل اور محبت کرنے والوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔

ہندو انتہا پسند تنظیموں نے پھر فلم ساز کمپنی ،ریلائنس انٹرٹینمنٹ کو دھمکی دی کہ اگر سنگھم ریٹرن 15 اگست کو ریلیز ہوئی، تو سینماؤں پر حملہ کر دیا جائے گا۔ اس کھلی غنڈہ گردی سے کمپنی کے کرتا دھرتا خوفزدہ ہوگئے ۔چنانچہ فلم سے وہ تمام مناظر ہٹا دیئے گئے جو بقول انتہا پسند ہندوؤں کے ’’اسلامی ایجنڈا‘‘ کی تکمیل کرتے تھے۔

اس واقعے سے عیاں ہے کہ بھارت میں جب سے آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کے  دیرینہ کارکن، نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا ہے، ہندو انتہا پسند تنظیموں کے حوصلے بہت بڑھ چکے۔ اب ان کی سعی ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں ہندو قوم پرستی کو فروغ دیا جائے۔ اس ضمن میں وہ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے حقوق تک کچلنے کو تیار ہیں۔

یہ انتہا پسند خصوصاً بالی وڈ کو اپنے دائرہ اختیار میں لانا اور اسے ہندتو ا(ہندو قوم پرستی) کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ بالی وڈ اب تک خاصی حد تک مذہبی فرقہ واریت سے پاک رہا ہے تاہم فلموں کے بعض کرداروں پر لے دے ہوتی رہی۔

مثال کے طور پر جب بھی کسی فلم میں بنیے یا سود خور کو ہندو دکھایا گیا، تو ہندو قوم پرست جماعتوں نے واویلا مچایا۔ اسی طرح پٹھان بنیے کے کردار کو مسلمانوں نے ناپسند کیا۔ ہندوستانی فلموں میں غنڈے بدمعاش بھی ہندو یا مسلمان دکھائے جاتے رہے ہیں۔

1993ء میں بمبئی خوفناک ہندو مسلم فساد کا نشانہ بنا۔ 1995ء میں مشہور ڈائریکٹر مانی رتنام نے ’’بمبئی‘‘ فلم بنائی جو ایک ہندو نوجوان اور مسلم لڑکی کے عشق پر مبنی تھی۔ اس کا موضوع 1993ء کا ہندو مسلم فساد بنایا گیا۔لیکن شیوسینا کے آنجہانی لیڈر، بال ٹھاکرے نے فلم کو ریلیز نہیں ہونے دیا۔ وہ فلم میں ایک منظر تبدیل کرانا چاہتا تھا۔ اس منظر میں بال ٹھاکرے کی شخصیت پر مبنی کردار ہندو مسلم فسادات پر اظہار افسوس کرتا ہے جبکہ بال ٹھاکرے کی خواہش تھی کہ وہ فخر و خوشی کا اظہار کرے۔

بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کو شاید اس لیے کامیابیاں ملیں کہ نفرت اور شر پھیلانا آسان ہے، محبت کرنا مشکل! اسی واسطے چین کے مدبر، کنفیوشس نے ہزارہا سال قبل کہا تھا :’’تمام اچھی چیزیں حاصل کرنا کٹھن کام ہے، جب کہ بُری چیزیں بہت آسانی سے ہاتھ آجاتی ہیں۔‘‘

اب انٹرنیٹ کی صورت مخالفین پر رعب جمانے اور غنڈہ گردی دکھانے کے لیے انتہا پسندوں کو نیا ہتھیار مل گیا ہے۔ سنگھم ریٹرن کے خلاف مہم میں اس ہتھیار کو بھی وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا۔ دو ویب سائٹوں … hindujagruti.org اور hinduexistence.org نے خصوصاً ہندو نوجوانوں میں فلم کے خلاف اشتعال پیدا کیا۔ دوران مہم فیس بک اور ٹویٹر پہ خصوصی صفحے تخلیق ہوئے اور ہیش ٹیگز بنائے گئے۔

سنگھم ریٹرن کے خلاف انتہا پسند ہندو صحافی، اپنندہ برہم چاری(Upananda Brahmachari ) پیش پیش رہا۔ موصوف ویب سائٹ hinduexistence.orgf کا ایڈیٹر ہے۔ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ بالی وڈ اب بھی مسلمانوں کے ’’قبضے‘‘ میں ہے۔ اس نے اپنے ایک مضمون میں لکھا:

’’بالی وڈ طویل عرصہ ایک مسلمان، داؤد ابراہیم کے کنٹرول میں رہا۔ اب انیل امبانی کی مسلمان بیوی اسے اپنے دائرہ اختیار میں لانے کی کوشش میں ہے۔‘‘

دلچسپ بات یہ کہ بھارتی کھرب پتی اور ریلائنس انٹرٹینمنٹ کے مالک، انیل امبانی کی بیگم، سابقہ اداکارہ ٹینامینم مسلمان نہیں جین مت سے تعلق رکھتی ہے۔

انتہا پسند ہندو ان تمام مسلمانوں کی کھوج میں رہتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح بالی وڈ میں کام کررہے ہوں۔ مسلم فلمی ادیب ان کا خاص نشانہ بنتے ہیں۔ اور اتفاق دیکھیے کہ سنگھم ریٹرن کی کہانی بھی مسلمان لکھاریوں ہی نے لکھی۔

سنگھم ریٹرن کا اسکرپٹ ساجد اور فرہاد سامجی کی جوڑی نے لکھا۔ جبکہ اسکرین پلے یونس سجوال کی کاوش ہے۔ اس امر نے پریم چاری جیسے انتہا پسند ہندوؤں کو مزید طیش دلا دیا۔ سو اس نے 3 اگست کو اپنی ویب سائٹ کی ایک پوسٹ میں لکھا:’’اے ہندوؤ! اٹھ کھڑے ہو۔ امبانی، اجے دیوگن اور (فلم کے ڈائریکٹر) روہت شیٹی کو ’’نفرت کی رسّی‘‘ سے باندھو اور انہیں ’’انتقام کی آگ‘‘ کے شعلوں کی نذر کر ڈالو۔‘‘

موصوف نے گرج برس کر مزید فرمایا:’’ایم ایف حسین نے جب ہندو مت کے خلاف پاگل پن دکھایا، تو ہم نے اسے بھارت میں ٹکنے نہیں دیا۔ اب ان حرام زادوں کو یہ رعایت کیوں دی جارہی ہے۔؟‘‘

برہم چاری کا شمار کٹر ہندو رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ چنانچہ بی جے پی، آر ایس ایس، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد وغیرہ انتہا پسند جماعتوں کے لیڈر کسی وجہ سے افہام و تفہیم کی بات کریں، تو اسے آگ لگ جاتی ہے۔ برہم چاری پھر اشوک سنگل، پروین ٹوگڈیا وغیرہ ہندو لیڈروں پر سخت تنقید کرتا اور الزام لگاتا ہے کہ وہ ’’ہندو راشٹریہ‘‘ یا ہندو ریاست قائم نہیں کرنا چاہتے۔

سری سری روی شنکر ان کٹر ہندو رہنماؤں کا محبوب لیڈر ہے۔ سری روی شنکر لاکھوں ہندوؤں کا روحانی رہنما بالی وڈ فلموں اور فلمی ستاروں پر اکثر تنقید کرتا ہے۔ اپنے لیکچروں میں اکثر کہتا ہے:’’اداکار اور اداکارائیں شراب کے نشے میں مدہوش رہتی ہیں۔  یہ مردو زن منشیات استعمال کرتے اور مخلوط محفلوں میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ جو پیسا ضائع کرتے ہیں، آخر کس کا ہے؟ یہ عوام کا ہے۔‘‘

2012ء میں بالی وڈ فلم ’’او مائی گاڈ‘‘ آئی، تو روی شنکر اور دیگر ہندو سادھوں نے اسے زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔ یاد رہے، اس فلم میں ہندو سادھوؤں کا ’’مذہبی کاروبار‘‘ بڑی گہرائی والے اور نفیس  انداز میں عیاں کیا گیا ہے۔ روی شنکر نے اپنے ایک مضمون میں فلم پر کچھ یوں گولہ باری کی:

’’اکشے کمار کو فلم میں بھگوان کرشنا کے روپ میں دکھایا گیا۔ مگر وہ کئی بار مغربی لباس میں ملبوس نظر آیا۔ ایک منظر میں شری کرشن سدرشن چکر کے بجائے انگلی میں کی چین گھماتے نظر آتے ہیں۔ لوگوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ خدا کا کوئی وجود نہیں، اداکار پاریش راول مکالموں کے ذریعے ہمارے دیوی دیوتاؤں کی توہین کرتا رہا۔ درحقیقت یہ فلم ہندو مخالف مکالموں سے بھری پڑی ہے۔‘‘

چند ماہ بعد انتہا پسند ہندو ایک اور فلم ’’بھاگ ملکھا بھاگ‘‘ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ اس فلم کا ایک گانا ’’مستوں کا جھنڈ‘‘ ان کی تنقید کا نشانہ بنا۔ اس گانے میں ایک ہندوانہ رسم ’’ہون‘‘ کا تذکرہ ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ گانے میں اس رسم کی توہین کردی گئی۔

سنگھم ریٹرن کے خلاف انتہا پسند ہندوؤں کی مہم کا نقطہ خاص یہ ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا سے بہت مدد لی۔ فیس بک پر پیغامات لاکھوں ہندوؤں تک پہنچائے گئے۔ غرض یہ مہم شیئرز، لائکس، ٹوئٹس اور گوگل سرچ کی بدولت پورے بھارت میں پھیل گئی۔ درحقیقت سوشل میڈیا میں جنم لینے والی مخالفانہ مہم ہی نے سنگھم ریٹرن کے تخلیق کاروں کو مائل کیا کہ وہ فلم سے بظاہر ہندو مخالف مناظر ہٹادیں۔

گویا انٹرنیٹ تیزی سے ان لوگوں کا آلہ کار بنتا جارہا ہے جو معاشروں میں دوسروں کے خلاف نفرت و شر پھیلاتے ہیں۔ مثبت ایجادات کا یہی منفی پہلو عموماً بعد میں سامنے آتا ہے۔

دریں اثناء برسراقتدار بھارتی جماعت، بی جے پی کا ’’آرٹ اینڈ کلچرل ونگ‘‘ بالی وڈ میں فلمی ستاروں، ڈائرکٹروں اور پروڈیوسروں سے رابطے کررہا ہے۔ اس ونگ کا سربراہ ایک کٹر ہندو، ڈاکٹر متلیش کمار ترپاٹھی ہے۔

ڈاکٹر متلیش کمار چاہتا ہے کہ بالی وڈ اب ہندو تہذیب و ثقافت اجاگر کرنے والی فلمیں بنائے…ایسی فلمیں جن میں دیوی دیوتاؤں اور مشہور ہندو شخصیات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے اور ان فلموں میں بدیسی (اسلامی و مغربی تہذیبوں کے اثرات) بالکل نہ آنے پائیں۔بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی گھاگ آدمی ہیں۔ وہ اچانک بالی وڈ پر ہندوانہ نظریات تھوپ کر وہاں افراتفری نہیں مچانا چاہتے۔ اسی لیے وہ دھیرے دھیرے اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں… یہ کہ بالی وڈ سے مسلمان فن کاروں، لکھاریوں، ڈائریکٹروں، موسیقاروں، گیت کاروں وغیرہ کا بوریا بستر گول کردیا جائے۔ اگر ایسا ہوا، تو یہ بالی وڈ کی بہت بڑی بدنصیبی ہوگی۔

آر ایس ایس کا ایجنڈا
نریندر مودی آر ایس ایس کے پہلے رہنما (سوئم سیوک) ہیں جو عہدہ وزیراعظم پر فائز ہوئے۔ ہندو راج قائم کرنے کی خواہش مند اس جماعت کے بانیوں میں مہادیو گوالکربھی شامل ہے۔اس نے 1939ء میں ایک کتاب ’’We, or Our Nationhood Defined ‘‘لکھی تھی۔ آر آر ایس کے لیڈر و کارکن اس کتاب کو اپنی گیتا سمجھتے ہیں۔ ذرا دیکھیے، گوالکر نے کتاب میں اقلیتوں کے متعلق کیا لکھا:

’’غیر ممالک سے آنے والے (مسلمان، عیسائی وغیرہ) ہندوستان میں رہ سکتے ہیں ۔مگر انہیں ہندو تہذیب، ثقافت اور زبان لازماً اپنانا ہوگی۔ وہ ہندو مذہبی رسومات کی تعظیم کریں۔ یہ تسلیم کریں کہ ہندو ایک عظیم قوم ہیں۔ مزید برآں انہیں ہندوستان میں کوئی حقوق حاصل نہیں ہوں گے۔ انہیں ہندو قوم کا خادم سمجھا جائے گا۔‘‘
ان جملوں سے عیاں ہے کہ آر ایس ایس بھارت میں آباد تمام اقلیتوں بشمول مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو تہذیب و ثقافت میں رنگنا چاہتی ہے۔ یہی انتہا پسند ہندوؤں کی منزل ہے جس تک پہنچنے کے لیے وہ جدوجہد کررہے ہیں۔

شر انگیزی براہ درسی کتب
تعلیم اور زبان وہ زبردست ہتھیار ہیں جن کے ذریعے پوری ایک قوم کی تہذیب وثقافت حتی کہ ذہنی کیفیت(Mindset)بدلی جا سکتی ہے۔یہی خصوصیت مدنظر رکھ کر آر ایس ایس نے 1978ء میں ایک اہم ادارے’’ودیا بھارتی اخیل بھارتیہ شکشا سنستھن‘‘(Vidya Bharati Akhil Bharatiya Shiksha Sansthan)کی بنیاد رکھی۔ادارے سے وابستہ ماہرین تعلیم سنگھ پریوار(انتہا پسند ہندو تنظیموں)کی ملکیت اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی درسی کتب تیار کرتے ہیں۔

یہ درسی کتب طلبہ و طالبات کے سامنے تاریخ کو ہندوانہ نقطہ نظر سے اجاگر کرتی ہیں۔مدعا یہ ہے کہ بچپن ہی سے لڑکے لڑکی کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جائے کہ ہندو مت ہی عظیم ترین مذہب اور فلسفہ حیات ہے۔آج یہ درسی کتب سنگھ پریوار کے ’’ 15ہزار‘‘اسکول کالجوں میں زیرتعلیم ’’35 لاکھ‘‘لڑکے لڑکیاں پڑھ رہے ہیں۔ان کتب میں ہندومت کی عظمت کچھ یوں نمایاں ہوتی ہے:

٭…مشہور یونانی شاعر،ہومر نے رامائن سے متاثر ہو کر اپنی رزمیہ نظم،الیڈ تخلیق کی۔
٭…ممتاز یورپی مدبروں،ہیروڈوٹس اور ارسطو نے ویداس سے اپنا فلسفہ اخذ کیا۔
٭…قدیم مصریوں کا مذہب ہندوستانی روایات سے ماخوذ تھا۔
٭…حضرت عیسٰی ؑہمالیہ کے پہاڑوں میں گھومتے پھرتے تھے۔انھوں نے اپنے نظریات ہندومت ہی سے لیے۔
بابری مسجد کا مسئلہ پچھلی تین صدیوں کے دوران کئی ہندو مسلم فسادات کرا چکا۔دیکھیے انتہا پسند ماہرین کی تیار کردہ درسی کتب یہ مسئلہ ہندو نئی نسل کے سامنے کیسے پیش کرتی ہیں:
٭…بابری مسجد کو مسجد نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اب وہاں مسلمان نماز نہیں پڑھتے۔
٭1528ء سے 1914ء تک رام مندر(بابری مسجد)کو آزاد کرانے کے لیے ساڑھے تین لاکھ رام بھگت اپنی جانیں دے چکے۔
٭…گھس بیٹھیوں (غیرملکیوں)نے ’’ 77 بار‘‘رام جنم بھومی(اجودھیا)پر حملہ کیا۔

’’ودیا بھارتی اخیل بھارتیہ شکشا سنستھن‘‘ کی تیار کردہ درسی کتب کے متعلق غیرجانب دار بھارتی دانشوروں اور ماہرین تعلیم کا کہنا ہے:’’یہ کتابیں تعلیم کے نام پہ بھارتی نئی نسل کو مذہبی انتہا پسند بننا اور دوسرں سے نفرت کرنا سکھا رہی ہیں۔‘‘

انتہا پسندانہ ہندو لیڈرشپ بھی نئی نسل کی اہمیت سے خوب واقف ہے۔اسی لیے آر ایس ایس اپنا نعرہ یا موٹو یہ بنا چکی:’’ایک بچہ ہمارے سارے جوش وجذبے کا مرکز ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔